اگر شادی کوئی جوا تھا تو پاکستان چھوڑتے ہوئے کرم علی یہ جان چکا تھا کہ وہ یہ جوا ہار چکا تھا۔ زری بالکل ویسی ہی لڑکی تھی جیسی لڑکی کو بیوی بنانے کے تصور سے اسے ساری زندگی خوف آتا رہا تھا وہ کتنی معصوم، سیدھی سادی اور فرمانبردار تھی۔ وہ کرم علی کے گھر والوں کو چند دن میں ہی پتہ چل گیا تھا۔ ایک استحصالی دوسرے استحصالی کو بہت جلدی اور بہت آسانی سے پہچانتا ہے اور زری نے بھی یہ جان لیا تھا کہ کرم علی کے گھر والے اس کا استحصال کر رہے ہیں اور پہلا سبق جو اس نے ان سے سیکھا تھا وہ یہی تھا کہ اسے بھی یہی کرنا ہے۔
کرم علی کے اندر کتنا لحاظ کتنی نرمی تھی وہ یہ بھی جان چکی تھی اور اسے یہ خدشہ بھی نہیں تھا کہ کرم علی اسے چھوڑ دیتا یا اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی کرتا۔ جس خصوصیت کو دوسری کوئی عورت کرم علی کی خوبی سمجھتی زری نے اسے کرم علی کی کمزوری سمجھا تھا۔
اسے یقین تھا کہ وہ اس کا خیال اس لیے نہیں رکھ رہا کہ وہ طبیعتاً ایک خیال رکھنے والا اور نرم مزاج آدمی ہے۔بلکہ یہ اس کا حسن اور کم عمری تھی جس نے کرم علی کو اندھا کر دیا تھا۔ جونتیجے اس کی عمر، مزاج اور ذہنیت کی کوئی بھی لڑکی نکالتی اس نے بھی وہی نتیجے اخذ کیے تھے۔
شادی کے دوسرے تیسرے دن کرم علی کے گھر والوں نے کرم علی سے زری کی شکایتیں شروع کر دی تھیں اور کرم علی بعض باتوں میں واقعی دل ہی دل میں انہیں حق بجانب بھی سمجھتا تھا۔ لیکن وہ دوسری طرف زری کو اس طرح کی ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا جیسی ڈانٹ ڈپٹ کرم علی کے گھر والے اس سے کروانا چاہتے تھے۔
اس کا خیال تھا کہ زری کینیڈا اس کے پاس آجائے گی تو ایک ہی گھر میں سب کے ساتھ ہونے کی وجہ سے جو اختلافات جنم لے رہے تھے وہ نہیں ہوں گے۔ وہ وہاں پر زری کو سمجھانے کی کوشش بھی کرتا۔ لیکن سات دن کے مختصر قیام میں وہ زری کو نصیحتوں کے انبار نہیں تھمانا چاہتا تھا۔
ایک ہفتہ کے بعد صرف کرم علی ہی نہیں اس کے ساتھ ہی تقریباً سارے گھر والے واپس آگئے تھے۔ زری واپس اپنے ماں باپ کے پاس تب تک رہنا چاہتی تھی۔ جب تک کرم علی اس کے پیپرز بنوا کر اسے باہر نہ بلوا لیتا۔
اور یہ واحد بات تھی جس پر کرم علی نے اعتراض کیا تھا۔ ایک ہفتے کے قیام میں ایک دو بار زری کے ساتھ اس کے گھر جا کر اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا سوشل سرکل کس طرح کا ہے اور وہ گھر پر رہنا پسند کرتی ہے۔ دونوں بار اس کے ساتھ گھر جانے پر وہ زری کے ماں باپ کے پاس بیٹھا رہتا اور زری وہاں پہنچتے ہی محلے میں اپنی سہیلیوں سے ملنے کے لیے نکل جاتی۔
اس کے بعد اس کو واپس لانے کے لیے باقاعدہ اسے محلے میں ڈھونڈاجاتا، کرم علی اگرچہ پابندیاں لگانے والا مرد نہیں تھا۔ لیکن اسے زری کا اس طرح پھرنا بے حد معیوب لگا تھا۔
اور اسے یہ بھی احساس ہو گیا تھا کہ یہ زری کی عادت تھی۔ وہ وہاں رہتے ہوئے شاید سارا دن یہی کرتی تھی۔
زری کے ناخوش ہونے کے باوجود کرم علی جانے سے پہلے شکیلہ کو اپنے گھر تب تک رہنے کے لیے کہہ گیا تھا جب تک زری کا ویزا نہ آجاتا۔ زری پہلے اس بات پر معترض ہوئی تھی کہ وہ اسے میکے کے بجائے سسرال میں رہنے کو کہہ رہا تھا اور پھر اس پر بری طرح جھنجھلائی کہ وہ اس کے سر پر شکیلہ کومسلط کر کے جا رہا تھا۔
اس کا اصرار تھا کہ وہ اپنی بہنوں کو اپنے گھر بلا لیتی ہے یا ماں باپ میں سے کسی کو اور شکیلہ باجی کو ان کے گھر منتقل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور کرم علی نے اتنی ہی نرمی سے اس سے کہا تھا کہ وہ بے شک اپنی کسی بہن یا ماں باپ میں سے کسی کو بھی اپنے پاس رکھے لیکن شکیلہ اور اس کی فیملی کابھی اس گھر میں ہونا ضروری تھا۔
یہ پہلی کلہاڑی تھی جو کرم علی نے اپنے پاؤں پر ماری تھی۔ زری بغض دل میں ر کھنے کی عادی تھی اور اس نے کرم علی کو اس چیز کے لیے معاف نہیں کیا۔
تین ماہ کے دوران کرم علی دو یا تین بار پاکستان آیا تھا جب تک زری کا ویزا نہیں لگ گیا اور ہر بار وہ زری سے پہلے سے زیادہ دل برداشتہ اور مایوس ہو کر واپس گیا زری نے اگرچہ شکیلہ کے آجانے کے بعد اپنے گھر والوں میں سے کسی کو مستقل طور پراپنے ساتھ رہنے کے لیے نہیں بلایا تھا لیکن شکیلہ اور اس کے درمیان ایک محاذ کھل گیا تھا… جتنا بغض اور کینہ زری شکیلہ کے لیے رکھتی تھی اتنا ہی وہ زری کے لیے، اب وہ اس وقت کو پچھتاتی تھی جب اس نے اس معصوم، کم گو اور سیدھی سادی لڑکی کو اپنے بھائی کے لیے پسند کیا تھا۔
دونوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف شکائیتوں کے انبار ہوتے جو دونوں ہر دوسرے دن فون پر کرم علی کے سامنے رکھ دیتی۔ کرم علی اس صورت حال سے واقعی بری طرح پریشان ہوا تھا۔ شکیلہ نے ایک مہینے کے بعد ہی کرم علی سے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہے۔ کیونکہ وہ زری کی چوکیداری کے لیے وہاں نہیں بیٹھ سکتی۔
اور اس کے ساتھ ہی اس نے کرم علی کو پہلی بار زری کو طلاق دینے کا مشورہ بھی دے دیا تھا۔ جس پر کرم علی بے حد مشتعل ہوا تھا۔
شکیلہ پہلی بار اس کے غصے سے خائف ہوئی تھی کیونکہ اس نے زندگی میں پہلی بار ہی کرم علی کو غصے میں دیکھا تھا۔ وہ نہ صرف اگلے دو ماہ بھی وہاں رہی بلکہ اس نے دوبارہ کرم علی کو زری کے بارے میں ایسا کوئی مشورہ نہیں دیا۔
تین ماہ کے بعد کرم علی زری کو اپنے پاس لے آیا تھا۔ اور زری کتنی بڑی مصیبت تھی۔ اس کا اندازہ اسے بھی ہو گیا تھا۔ وہ بے لحاظ تو تھی لیکن بغیر سوچے سمجھے بولنے کی عادی بھی تھی۔ لیکن بات اگر صرف زبان تک رہتی تو کرم علی شاید سنی ان سنی کر دیتا۔ زری بے حد عجیب نیچر کی تھی کم از کم کرم علی کو تو وہ عجیب ہی لگتی تھی۔ اسے اگر کرم علی سے کوئی مطالبہ منوانا ہوتا تو اس کی زبان سے کرم علی کے لیے شیرینی ٹپکتی رہتی اور جب وہ مطالبہ پورا ہو جاتا تو وہ منٹوں میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی تھی۔
وہ اگرچہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن اس نے جس طرح سے مغربی کلچر کو اختیار کیا تھا۔ اس نے کرم علی کو بھی حیران کر دیا تھا… اور حیرانی سے زیادہ یہ شاک تھا وہ اتنا عرصہ وہاں گزارنے کے باوجود مغربی طور طریقے نہیں اپنا سکا تھا اور زری کا یہ حال تھا کہ وہ اگر اسے منع نہ کر رہا ہوتا تو ان مغربی ملبوسات کو پہننے اورپہن کر پھرنے سے نہ چوکتی، جنہیں پہنتے ہوئے کوئی دوسری لڑکی دوبارہ ضرور سوچتی۔
وہاں آنے کے کچھ عرصہ کے بعد زری نے کرم علی سے کچھ رقم قرض مانگی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ بے حد میٹھے انداز میں بات کر رہی تھی۔
”ابو گھر بدلنا چاہتے ہیں۔ کچھ رقم کم پڑ رہی ہے۔ مجھ سے بات کی ہے انہوں نے وہ کہہ رہے تھے بہت جلد رقم واپس کر دوں گا۔”
زر ی کو یقین تھا کہ کرم علی کبھی رقم واپس نہیں لے گا۔ اسی لیے وہ اتنے آرام سے کہہ رہی تھی۔
”آپ ان سے کہیں گھر دیکھیں جتنی رقم انہیں چاہیے میں بھجوا دوں گا۔”
کرم علی نے گھر سے نکلتے ہوئے کہا زری بے اختیار خوش ہوتے ہوئے دروازے تک آئی۔
”نہیں، میں کوئی احسان نہیں لینا چاہتی بس کچھ دیر کے لیے انہیں رقم قرض چاہیے۔” زری نے بظاہر بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”احسان والی کوئی بات نہیں… وہ آپ کے parents ہیں اور میں انہیں اپنے parents کے برابر درجہ دیتا ہوں۔” کرم علی نے چلتے چلتے رک کرکہا۔
”چاہے وہ ذرا مہنگا گھر لینا چاہیں تب بھی۔” زری نے بے ساختہ کہا۔
”جیسا گھر لینا چاہتے ہیں لے لیں۔ جب گھر دیکھ لیتے ہیں تو مجھے بتا دیجیے گا۔ میں انہیں رقم ٹرانسفر کروا دوں گا۔”
کرم علی کو بات کرتے کرتے جیسے کچھ خیال آیا۔
”اور آپ اگر ہر ماہ انہیں کچھ رقم بھجوانا چاہیں تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔”
زری ایک لمحہ کے لیے بالکل چپ ہو کر رہ گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ کرم علی اسے اس طرح کی کوئی آفر دے گا۔
”آپ۔۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رکی۔ کرم علی منتظر رہا کہ وہ اپنی بات پوری کرے گی لیکن زری نے بات پوری کرنے کے بجائے بڑی محبت سے کرم علی کی ٹائی کی ناٹ کو سیدھا کرتے ہوئے اس کے کوٹ پر ہاتھ یوں پھیرا جیسے وہ اسے جھاڑ رہی ہو۔ کرم علی جانتا تھا وہ ایسا ہی کچھ کرے گی ہر بار کسی فیور کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح اس سے محبت کا اظہار کرتی تھی۔ کرم علی کو وہ سب مصنوعی لگتا پھر بھی اچھا لگتا۔ اس وقت بھی اچھا لگا تھا۔
”آپ بہت اچھے ہیں۔” زری نے اس سے کہا۔
کرم علی کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہیں سکا۔ وہ صرف ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گھر سے باہر نکل گیا۔
*****
انڈسٹری کے سارے لوگ پری زاد کے رویے میں ایک دم سے آنے والی تبدیلی پرحیران و پریشان تھے وہ سب پری زاد کا ایک نیا چہرہ دیکھ رہے تھے ایک ایسا چہرہ جس سے پہلے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔ انور حبیب اور سفیر خان جیسے لوگ بھی اس کے بارے میں رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
پاشا تو خیر پہلے ہی اس سے بہت خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ اس دن اس کی دھمکیاں کارگر ثابت ہوئی تھیں۔ وہ گڑ سے مر گئی تھی۔ اس کو زہر دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا وہ اس کے لیے زہر تیار کرنے میں جتی ہوئی تھی کیونکہ وہ گڑ سے مرنے والا نہیں تھا۔
زینی نے زندگی میں صرف ایک کام ہمیشہ عقلمندی سے کیا تھا۔
اس شاخ کو کاٹنے کا کام ،جس پر وہ خود بیٹھی ہوتی تھی اور اب بھی وہ یہی کام کرنے والی تھی۔ وہ اس وقت انڈسٹری کی دوبڑی فلموں کی ہیروئن تھی۔ ایک کرم علی کی اور دوسری تبریز پاشا کی۔
پاشا کی فلم بجٹ کے لحاظ سے انڈسٹری کی آج تک بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلم تھی۔پاشا اپنی اس فلم کی کامیابی سے فلم انڈسٹری کی تاریخ کو نیا جنم دینا چاہتا تھا اور اسے یقین تھا کہ فلم کامیاب ہو گی۔ پاشا اپنی اس فلم کو صرف پاکستان میں ہی نہیں یو کے میں بھی ریلیز کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا اور پاکستان میں وہ اس فلم کی ریلیز کے لیے پنجاب سرکٹ کے اپنے ذاتی تین سینماز کی بھی ساتھ ساتھ رینویشن کروا رہا تھا۔ انڈسٹری کے سارے پنڈت پہلے سے ہی فلم کی کامیابی کی پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ یہ سپر ہٹ ہو گی۔ اس کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں تھا۔ لیکن یہ بزنس کتنا کرے گی۔ اس کا اندازہ بھی کسی کو نہیں ہو رہا تھا اور کیا یہ انٹرنیشنل ریلیز میں کامیابی حاصل کر پائے گی؟
یہ سب سے بڑا سوال تھا۔ فلم پر بجٹ سے زیادہ پیسہ لگ گیا تھا اور اس کے فلاپ ہونے کی صورت میں پاشا پروڈکشنز کو ایک بڑا جھٹکا لگتا۔ پاشا پروڈکشنز جھٹکا سہہ تو جاتا لیکن فوری طور پر چند سالوں کے لیے اگر وہ اس طرح کی کوئی فلم پروڈیوس نہ کرپاتا۔ اور اگر یہ بہت بڑی فلاپ ہوتی تو پھر پاشا پروڈکشنز کے ستارے صحیح معنوں میں گردش میں آجاتے اور اسی خطرے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مارکیٹنگ کی جو اسٹرٹیجز بنائی تھیں ان میں میوزک کو بھی مارکیٹ میں لانچ کرنے کا پلان کیا گیا تھا۔
دوسری طرف کرم علی کی فلم تھی جس کے بارے میں انڈسٹری کو بہت زیادہ توقعات نہیں تھیں ایسے کئی پروڈیوسرز کم فنانسرز وقتاً فوقتاً انڈسٹری میں آکر کچھ وقت اور پیسہ گنوا کر غائب ہوتے رہے تھے۔ اگر کرم علی بھی ہو جاتا تو کوئی خاص بات نہ ہوتی۔ واحد دلچسپی جو کسی کو اس فلم میں ہو سکتی تھی وہ پری زاد کی موجودگی تھی۔ اور پچھلے کچھ عرصے میں پری زاد کی وجہ سے کچھ ایسی فلمیں بھی ہٹ ہوئی تھیں جن کے بارے میں انڈسٹری کے پنڈت خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ پری زاد کی موجودگی مکمل طور پر کینیڈا میں شوٹنگ اور بڑا بجٹ مکمل طور پر ان تین چیزوں کے علاوہ دوسرا کوئی پلس پوائنٹ اس فلم میں نہیں تھا کیونکہ اس فلم کے ڈائریکٹر کی آخری دو فلمیں بری طرح فلاپ ہوئی تھیں اور اس فلم میں پری زاد کے ساتھ ہیرو آنے والے لڑکے کی یہ پہلی فلم تھی۔
انڈسٹری میں اگر ایک طرف ان دو فلموں کی بات ہو رہی تھی تو دوسری طرف سفیر اور پری زاد کے بارے میں دھڑا دھڑ خبریں آور افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔ وہ دونوں اب تقریباً ہرفلمی اور شوبز کی تقریب میں اکٹھے جاتے اور اکٹھے آتے تھے۔ چند ماہ پہلے تک کھلے عام پری زاد کو گالیاں دینے والا سفیر خان آج اس کے گن گاتے نہیں تھکتا تھا۔ ہر دوسرے دن اخبار میں ان کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات شائع ہوتی۔ سفیر آن ریکارڈ ہمیشہ ایسی باتوں کی تردید کرتا اور آف دا ریکارڈ پریس والوں کو دھڑلے سے بتاتا کہ وہ پری زاد کے عشق میں بری طرح مبتلا ہے اور صرف اس سے محبت نہیں کرتا۔ اس سے شادی بھی کرنے کا خواہش مند ہے اور صرف وہ ہی نہیں پری زاد بھی اس کی محبت میں گرفتار ہے۔
دوسری طرف پری زاد نے ہمیشہ آن دا ریکارڈ سفیر کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالوں کے معنی خیز جواب دیتی۔ اکثر جواب ایسے ہوتے جو سفیر کی آف دا ریکارڈ باتوں کی مکمل طور پر تصدیق کرتے دکھائی دیتے اور کئی بار وہ اشاروں کنایوں میں یہ اقرار بھی کرتی کہ وہ واقعی سفیر سے شادی کی خواہش مند ہے۔ لیکن وہ کسی کی دوسری بیوی بننے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر سفیر پہلے سے شادی شدہ نہ ہوتا تو یقینا اب تک وہ اس سے شادی کر چکی ہوتی۔
آف دا ریکارڈ ہمیشہ پریس والوں سے ہنس کر ان سب باتوں کی تردید کرتی۔
”ہم دنوں ایک دوسرے سے فلرٹ کر رہے ہیں جیسے انڈسٹری میں دوسرے کئی ہیرو ہیروئن آپس میں کر رہے ہیں اور یہ کمرشلی پاپولر پیئر بننے کے لیے ہے۔ ورنہ نہ میں اس کے بارے میں سیریس ہوں نہ وہ۔”
وہ آرام سے ساری باتوں کا نچوڑ جیسے ان لوگوں کے سامنے رکھ دیتی۔
”ہم ساتھ ساتھ اس لیے نظر آتے ہیں کیونکہ عوام ہمیں ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔” وہ لاپرواہی سے اگلے کسی سوال کے جواب میں کہتی۔
سفیر پری زاد کی آن دا ریکارڈ باتوں پر جیسے قربان ہو جاتا تھا۔ انڈسٹری کی سب سے خوبصورت اور پاپولر عورت اسکے لیے پاگل ہو رہی تھی۔ اس کا ساتھ چاہتی تھی۔ اس کی انا کو بڑھانے کے لیے اس سے بڑی کیا بات ہو سکتی تھی۔ پری زاد کے لیے اس کی محبت میں کچھ اور اضافہ ہوتا گیا۔ پری زادکی اس جرأت سے وہ اس کی ازدواجی زندگی میں کتنا اور کس طرح کا زہر گھول رہی تھی، اس کا اندازہ پری زاد کو تھا یا پھر سفیر کی بیوی کو۔
سفیر نے لو میرج کی تھی اور اس کی سسرال کا دور دور تک شوبز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے اس رشتہ کو قبول تو کر لیا تھا مگر سفیر کو اپنے خاندان کے داماد کے طور پر وہ عزت دینے میں انہیں ہمیشہ دقت ہوتی ۔وہ سفیر کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتی تھی لیکن اب سات سال کی شادی میں پہلی بار اس نے سفیر کے لیے مسئلے پیدا کرنے شروع کر دیے تھے۔ وہ اخبار میں شائع ہونے والا پری زاد کا ہر بیان پڑھتی، ہر اس تقریب کی کوریج پڑھتی جہاں پر وہ اور سفیر اکٹھے ہوتے اور ایسی ہر تقریب کے اخباروں اور میگزنیز میں شائع ہونے والے فوٹوز میں کہیں پری زاد نے سفیر کا ہاتھ پکڑا ہوتا، کہیں وہ دونوں بازوؤں میں بازو ڈالے ہوتے، کہیں وہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوتے پری زاد اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوتی یااس کی طرف جھکی ہوئی۔
ایسا کوئی منظر دیکھ کر سفیر کی بیوی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ پری زاد کو گولی مار دے یا پھر سفیر کا ہی گلا گھونٹ دے۔
زینی سفیر کی زندگی کا اسکرپٹ لکھ رہی تھی اور جس کے لیے لکھ رہی تھی، اس تک بے حد ہوشیاری سے پہنچا بھی رہی تھی۔ سفیر بے وقوف تھا۔ یہ اس سے چند ملاقاتوں کے بعد ہی زینی کو اندازہ ہو گیا تھا۔ اسے اس کے لیے کیسے گڑھا کھودنا تھا۔ یہ وہ جان گئی تھی۔ وہ گڑ سے آسانی سے مارا جا سکتا تھا۔ وہ اسے گڑ ہی دے رہی تھی۔
”انور صاحب! آپ فلم کیوں نہیں بناتے؟” وہ اس رات ایک فلمی پارٹی کے ختم ہونے پر انور حبیب کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
”فلم نہیں بنا رہا تو اور کیا بنا رہا ہوں میں؟” انور بڑے بے دھنگے انداز میں ہنسا۔ یوں جیسے پری زاد نے اس سے مذاق کیا ہو۔ وہ اس وقت شراب کے نشے میں دھت تھا۔
”میں فلم پروڈیوس کرنے کی بات کر رہی ہوں۔ ” زینی نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”فلم پروڈیوسر بننے کا کیا فائدہ ہو گا؟ اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ میں فلم پر لگاؤں۔”
”سرمایہ آجاتا ہے نیت ہونی چاہیے۔ دو چار فلمز پروڈیوس کر لی ہوتیں تو آج آپ تبریز پاشا کی ٹکر کے آدمی ہوتے۔”
انور حبیب نے بے اختیار دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا۔
”پاشا کی ٹکر کا آدمی نہیں ہوں میں۔ میں بڑا چھوٹا آدمی ہوں۔ پاشا کے پیچھے اس کا خاندان ہے جس نے اس انڈسٹری پر کئی سال راج کیا ہے۔ میرے پیچھے تو میرا خاندان تک نہیں ہے۔ ایسے الٹے سیدھے خیال مت ڈالو میرے ذہن میں پری زاد!”
”کبھی نہ کبھی تبریز پاشا کے خاندان میں بھی کسی نہ کسی نے پہلا قدم اٹھایا ہو گا اور آج آپ ان کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ آج آپ ایسا کوئی قدم اٹھا لیں گے تو کل کوئی اور آپ کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہو گا۔”