من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

گاڑی گیٹ سے باہر نکلتے ہی… اشتیاق رندھاوا نے گردن مو ڑ کو زینی سے کہا۔
”تم جانتی ہو اسے؟”
چند لمحوں کے لیے زینی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ساکت رہ گئی۔ اسے اشتیاق رندھاوا سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
”کسے…؟” اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس نے گردن موڑ کر اشتیاق کو دیکھا جو یک دم بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”سعید نواز کے داماد کو؟”
”نہیں۔” زینی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”میں نہیں مانتا۔ اتنی تذلیل تم کسی انجان آدمی کی نہیں کر سکتیں۔” اشتیاق نے اسے کچھ اور چونکا دیا۔
”تذلیل۔۔۔۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔ وہ اور کچھ دیر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
”آپ کو پتہ تھا کہ اس کی تذلیل کر رہی ہوں تو میرا ساتھ کیوں دے رہے تھے؟” زینی نے ہنستے ہوئے کہا۔
”وہ ”شناسا” تھا تم محبوبہ ہو ”مجنوں” کیا کرتا… لیکن کچھ دیر کے لیے تو میں بھی حواس باختہ ہو گیا تھا۔ تم نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا۔ حیران تھا، آج کیا ہو گیا ہے۔ تم تو کسی اجنبی کو گھاس تک نہیں ڈالتیں۔ کہاں یہ کہ شیراز سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھنے بیٹھ گئیں۔” وہ اشتیاق کی بات سنتی رہی۔
”سعید نواز چاہتا کیا ہے آپ سے؟” زینی نے بات بدلی۔
”بہت کچھ… اپنے داماد کی کراچی میں ایک کھانے پینے والی جگہ پوسٹنگ… جاب میں ایکسٹینشن اور ایک پرمٹ۔”
”اور آپ کیا دیں گے اسے؟”
”یہ تو پری زاد طے کرے گی۔” زینی چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”دے دیں اسے جو چاہتا ہے۔”
”واقعی؟” اشتیاق نے دلچسپی سے کہا۔
”ہاں… جوتے اٹھانے کے بعد کچھ تو ملناچاہیے اسے۔” اس نے تنفر سے کہا۔ اشتیاق ہنس پڑا۔
”تم نے بتایا نہیں کہ شیراز سے کیا تعلق ہے تمہارا؟”
زینی نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”آپ جان کر کیا کریں گے؟”
”تم سے ہمدردی بہرحال نہیں کروں گا۔”
”پھر تو رہنے ہی دیں۔”
”تم اس کی وہ منگیتر ہو، جسے اس نے سی ایس ایس کے بعد چھوڑ دیا؟” زینی کو دھچکا لگا۔ اشتیاق مسکرا رہا تھا۔
”مجھے تو اب آپ سے ڈر لگنے لگا ہے۔”
”معشوق کو کبھی عاشق سے ڈر لگتا ہے؟”
زینی خاموش رہی۔ وہ شیراز کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
”مجھ سے شادی کرو گی پری زاد؟”
وہ ایک بار پھر چونکی۔ اشتیاق ہفتہ میں ایک بار اسے پرپوز ضرور کرتا تھا۔ کبھی فون پر، کبھی بالمشافہ ملاقات پر لیکن سڑک پر آج وہ پہلی بار یہ بات کر رہا تھا۔
”نہیں۔” اس نے بڑی محبت کے ساتھ اشتیاق کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”کتنے سال انکار کر و گی پری زاد؟”
”جتنے سال زندگی ہے میری۔” وہ ہنسی۔
وہ جیسے کراہا۔ ”اس کا مطلب ہے، انتظار بہت طویل ہو گا۔”
”یہ بھی ممکن ہے بہت مختصر ہو۔”
”آج ”عروج” ہے تمہارا اس لیے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں تمہارے ”زوال” کا انتظار کر رہا ہوں۔” وہ سنجیدہ ہو گیا۔
”زوال میں آپ کے پاس ”پری زاد” نہیں، کوئی دوسری پری ہو گی۔” زینی پھر ہنسی۔
”طنز کر رہی ہو؟”
”نہیں، آپ سمجھیں، مشورہ دے رہی ہوں۔”
اس نے لاپروائی سے کہا۔ اشتیاق کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
”سلمان کے پیپرز بنوا دیے ہیں میں نے، ایک دو دن تک بھجوا دوں گا تمہیں۔ وہاں اس کی جاب کا بھی انتظام کر دیا ہے میں نے۔ شروع میں اپنے دوست کے گھر پر ہی رہائش کا انتظام کروایا ہے پھر ایک بار وہ جاب کرنا شروع کر دے تو دیکھوں گا کیا ہوتا ہے۔”
زینی نے بے حد احسان مند نظروں سے اسے دیکھا ۔ ”میں۔۔۔۔”
اشتیاق نے بے نیازی سے اس کی بات کاٹی۔ ”آگے کچھ مت کہنا، تمہاری زبان میں عاجزی آئے گی تو مجھے بُری لگنے لگو گی تم۔ تمہاری زبان کی کڑواہٹ اچھی لگتی ہے مجھے۔”
زینی واقعی بول نہیں سکی۔
٭٭٭
”کیسے جانتی ہے وہ تمہیں، تمہارے باپ کو، تمہارے فیملی بیگ گراؤنڈ کو؟”
شینا شیراز کے اندر آنے سے پہلے سعید نواز پر برس رہی تھی۔ شیراز کے نظر آتے ہی جیسے توپوں کو صحیح ٹارگٹ مل گیا تھا۔
”میں… مجھے کیا پتہ میں تو زندگی میں پہلی بار اس سے ملا ہوں۔” شیراز نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”اور پھر بھی اسے تمہارے بارے میں سب پتہ ہے اور یہ کون سی منگیتر تھی تمہاری جس سے منگنی توڑ کر تم نے مجھ سے شادی کی۔”
”شینا پلیز۔۔۔۔” شیراز نے منت والے انداز میں کہا۔ ”اور آپ… آپ نے اس گھٹیا منسٹر کو یہاں انوائٹ کیوں کیا؟ وہ آدمی اس قابل تھا کہ یہاں آتا؟ ٹوٹلی ڈرنک تھا وہ… اور ساتھ وہ لے آیا اپنی کیپ کو۔ اس نے کیا سمجھا، کہاں آرہا تھا وہ؟”
”مجھے کیا پتا تھا کہ وہ اپنے ساتھ کسی ایکٹریس کو لے کر آنے والا ہے۔”
سعید نواز نے بے بسی سے کہا۔ پہلی بار شینا، شیراز کے سامنے ان پر یوں چلا رہی تھی۔
”آئندہ آ پ کو اس دو ٹکے کے آدمی کو بلوانا ہوا تو اپنے گھر بلوائیے گا۔ یہ میرا گھر ہے، کوئی نائٹ کلب نہیں ہے، جہاں وہ اپنی ڈیٹ (Date) کے ساتھ آؤٹ (Out) ہو کر آئے۔”
اس نے سختی سے کہا سعید نواز نے اس بار خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
”اور تم۔۔۔۔”
”You are in big trouble Mr.”
(اور تم مسٹر! ایک بڑی مصیبت میں گھر گئے ہو)
وہ شیراز کو دھمکی دیتے ہوئے لاؤنج سے چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی سعید نواز کو جیسے موقع ہاتھ آگیا ۔ وہ اپنا غصہ کسی دوسرے پر نکال سکے اور شیراز ایسے کام کے لیے بہترین انتخاب تھا۔
”کیا رشتہ تھا تمہارا اس سے؟” شیراز اس کے سوال اور انداز پر ہکا بکا رہ گیا۔
”پاپا… میں… میں اسے نہیں جانتا۔”
”یہ جھوٹ تم شینا سے بولنا۔ میری آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش مت کرو تم۔ سمجھے؟”
”میں قسم کھاتا ہوں پاپا! میں اسے نہیں جانتا۔”
وہ روہانسا ہو گیا، اس کا بس چلتا تو وہ سعید نواز کے پاؤں پکڑ لیتا۔
”میں چار دن میں پتا کروا لوں گا اس کے بارے میں اور اگر مجھے پتا چلا کہ تمہارا اس کے ساتھ کوئی چکر ہے تو تم دیکھنا، میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔”
وہ اسی طرح دھاڑتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔شیراز نے دل ہی دل میں زینی کو جی بھر کر گالیاں دیں۔ وہ واقعی اس گھر سے جاتے جاتے اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا گئی تھی۔
”شینا! میری بات سنو۔ پلیز میری بات سنو۔” شیراز نے اندر کمرے میں جا کر شینا کو منانے کی ایک کوشش کی تھی۔ سعید نواز کی انویسٹی گیشن سے بچنے کے لیے یہ بے حد ضروری تھا۔
”. Keep your hands off me”
(اپنے ہاتھ پیچھے ہٹاؤ)
وہ حلق پھاڑ کر چلائی اور اس نے شیراز کے ہاتھ کو جھٹکا۔
”پہلے تو مجھے تم سے نفرت تھی لیکن اب مجھے تم سے گھن آتی ہے۔”
وہ چلا رہی تھی۔
”You stink. You really stink.”
ان ہی ہاتھوں سے جوتے پہنائے ہیں تم نے اس تھرڈ کلاس ایکٹریس کو، جس کے آدھے شہر کے ساتھ چکر ہیں، کبھی دوبارہ مجھے ہاتھ مت لگانا۔”
”میں کیا کرتا، وہ مہمان تھی تمہارے پاپا کی۔”
شیراز نے سارا ملبہ سعید نواز پر ڈالنے کی کوشش کی۔
”پاپا کی مہمان تھی۔ تمہاری تو نہیں تھی۔ مجھے تو لگتا ہے۔ وہ تم سے پیر چاٹنے کو بھی کہتی تو تم دم ہلاتے ہوئے کتے کی طرح اس کے پیر چاٹنے بیٹھ جاتے۔”
شیراز کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”Now that’s enough” (اب بہت ہو چکا) اس نے بے اختیار شینا کو غصے میں ٹوکا۔
”No I dont think that is ہماری کلاس کا حصہ بننے کا شوق ہے ہماری کلاس کا مینرازم بھی سیکھ آؤ۔ اپنا یہ مڈل کلاسیا پن اسی گٹر میں پھینک آؤ، جہاں تم نے ساری زندگی گزاری ہے۔”
”تم… تم منع کر دیتیں مجھے، پاپا منع کر دیتے مجھے۔” شیراز نے بے بسی سے کہا۔
”کیوں ہم کیوں منع کرتے تمہیں؟ تمہاری اپنی کوئی ایگو، کوئی self esteem نہیں ہے؟ میرا خیال ہے نہیں ہے۔ ہوتی تو آج نظر آتی۔
اومائی گاڈ! میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ تم اتنا گر سکتے ہو۔”
شینا نے اپنی کنپٹیوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میرے تو نوکر تم سے زیادہ غیرت مند اور خود دار ہیں۔ اور میں تمہاری، تم جیسے آدمی کی بیوی بن گئی۔ مسز شیراز اوہ مائی گاڈ!… پاپا نے میری زندگی تباہ کر دی۔” وہ چلاتے ہوئے بولی۔
”اب تم میرے کمرے سے دفعان ہو جاؤ۔”
اس نے یک دم شیراز سے حلق کے بل چلا کر کہا۔ وہ ہڑبڑا کر کمرے سے نکلا گیا۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!