سلطان بے حد گھبرایا ہوا تھا۔ پاشا جو کچھ کہہ کر گیا تھا، سچ کہہ کر گیا تھا۔ سلطان جانتا تھا، فلم انڈسٹری کی کئی ہیروئنیں نہ صرف پاشا نے گھر بٹھا دی تھیں بلکہ فلم انڈسٹری کی کم از کم دو ابھرتی ہوئی ہیروئنوں کے قتل میں بھی پاشا کا ہی نام لیا جاتا رہا تھا۔ سلطان فلم انڈسٹری کو اندر سے جانتا تھا انڈسٹری کے ہر ”بڑے” اور ”چھوٹے” کو ،اور پری زاد کچھ بھی سمجھنے اور دیکھنے پر تیار ہی نہیں تھی۔
وہ اگر کہہ کر گیا تھا کہ پری زاد پر تیزاب پھینکا جا سکتا تھا تو پھینکا جا سکتا تھا۔
مارا جا سکتا تھا تو واقعی مارا جا سکتا تھا۔
سلطان کے لیے یہ دھمکیاں نہیں تھیں، نہ ہی گیدڑ بھبھکیاں کیونکہ کہہ کر جانے والا تبریز پاشا تھا۔
سلطان مسلسل بولتا رہا تھا اور زینی نے ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ وہ وہاں ڈرائنگ روم کے سینٹر میں کھڑی اسی طرح گم صم تھی جس طرح تبریز کے جاتے ہوئے تھی۔بہت دیر بعد سلطان سے کچھ بھی کہے بغیر اس نے کمرے کے دوازے کی طرف قدم بڑھا دیا۔ سلطان جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے؟ کس نتیجے پر پہنچی ہے؟ اب کیا کرنے والی ہے؟
کیا مہورت پر جائے گی؟ مگر پری زاد چپ تھی اور سلطان کو اس کی چپ ہولا رہی تھی۔
ڈرائنگ روم سے باہر لاؤنج میں قدم رکھتے ہی زینی نے نفیسہ اور ربیعہ کو دیکھ لیا تھا۔
وہ دونوں بے حد پریشانی کے عالم میں لاؤنج کے ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ یقینا ان دونوں نے تبریز پاشا کی ”گفتگو” سنی تھی۔ اگر اسے ”گفتگو” کہا جا سکتا تو۔
اگر کچھ دیر پہلے ڈرائنگ روم میں تبریز پاشا کی گالیاں سننا اذیت ناک تھا تو اس وقت نفیسہ اور ربیعہ کا سامنا کرنا اس سے زیادہ اذیت ناک تھا۔ وہاں کسی کو کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ خاموشی سب کچھ کہہ رہی تھی۔ وہ نفیسہ اور ربیعہ سے نظریں ملائے بغیر وہاں سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ سلطان اس کے پیچھے گیا تھا مگر کمرے کا دروازہ بند تھا۔
پہلی بار اس نے سلطان پر کمرے کا دروازہ بند کیا تھا۔ سلطان کو چین کیسے آتا۔ وہ نفیسہ اور ربیعہ کے پاس بوکھلایا ہوا آیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ ان سے کچھ کہہ پاتا، انہوں نے اس سے پوچھنا شروع کر دیا تھا۔
تبریز پاشا جو کچھ کہہ رہا تھا۔ زینی کو کیوں دھمکا رہا تھا۔
سلطان کو بروقت صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اس نے ان دونوں کو تسلیاں دینا شروع کر دیں۔
پتہ نہیں ان دونوں کو اس کی باتوں پر کتنا یقین آیا، کتنا نہیں مگر ان دونوں نے سوال کرنے بند کر دیے تھے۔
سلطان ساری رات اس کے کمرے کے دروازے کے باہر بیٹھا رہا تھا۔ کمرے میں جلتی ہوئی لائٹ اور اندر وقفے وقفے سے ہونے والی آہٹیں بتا رہی تھیں کہ وہ بھی جاگ رہی تھی۔ وہ باہر بیٹھے ہوئے بھی جانتا تھا کہ وہ کس طرح کمرے کے چکر کاٹ رہی ہو گی۔ بیئر کا کین پکڑے، سگریٹ انگلیوں میں دبائے۔ سلطان کو دکھ ہو رہا تھا۔ اس نے رات کا کھانا تک نہیں کھایا تھا۔
رات کا کھانا… صبح کا ناشتہ… دوپہر کا کھانا… کوئی چائے، کافی جوس… کچھ نہیں… وہ اس طرح تو کمرے میں بند نہیں ہوتی تھی۔ صرف سلطان ہی کو نہیں، نفیسہ اور ربیعہ کو بھی فکر ہونے لگی تھی۔ دستک پر دروازہ نہیں کھولتی تھی۔ انٹر کام ریسیور وہ اٹھاتی نہیں تھی اور دروازہ وہ لوگ توڑ نہیں سکتے تھے۔
واحد اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ اندر ٹھیک تھی۔ شاید اندر سے آنے والی آہٹیں بند ہو جاتیں تو انہیں زینی کی زندگی کے بارے میں تشویش لاحق ہو جاتی۔
اور پھر بالآخر وہ ٹھیک ساڑھے سات بجے کمرے سے نکل آئی تھی۔ خوبصورت کپڑوں میں ملبوس بھاری میک اپ کیے اور شاندار جیولری سے آراستہ۔
وہ جیسے کہیں جانے کے لیے بالکل تیار تھی۔ سلطان اسے دیکھ کر پہلے بھونچکا ہوا تھا پھر خوش۔
زینی کے چہرے پر کہیں پچھلی شام کے واقعات تحریر نہیں تھے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھیں بالکل صاف۔ ان میں کسی بھی قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔
”آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا پری جی! ایسا کیوں کرتی ہیں آ پ؟” سلطان نے جیسے اس سے گلہ کیا۔
زینی نے جواب نہیں دیا۔ سلطان نے اپنی جیب سے ڈائری نکالتے ہوئے اس کا شیڈول چیک کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے تو ڈرائیور کو بتایا تک نہیں۔ گاڑی لگواتا ہوں۔ ذرا اپارٹمنٹ چیک۔۔۔۔” زینی نے اس کی بات کاٹی۔
”ہم مہورت پر جا رہے ہیں۔” کوریڈور میں لگے ہوئے آئینہ میں اپنے بال سنوارتے ہوئے زینی نے بے حد عام سے انداز میں کہا۔
”کون سی مہورت؟” سلطان چونکا۔
”تبریز پاشا کی فلم کی مہورت۔” سلطان کو جیسے اس کی بات پر سکتہ ہو گیا تھا۔ وہ اب اپنے ہونٹوں کی لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی۔
”آپ تبریز پاشا کی فلم کی مہورت میں جا رہی ہیں؟”
”ہاں، اتنے مہینے پہلی فلم سائن کی تھی، اب مہورت میں تو جاؤں گی ہی یا پھر اس میں اپنی جگہ تمہیں بھجوا دوں۔”
زینی نے جیسے مذاق کیا تھا اور اس مذاق پر کسی کو بھی ہنسی نہ آئی مگر سلطان بے اختیار ہنسنے لگا۔ بات ہنسنے والی ہی تھی۔ پری زاد نے سمجھوتے کا فیصلہ کیا تھا۔ سلطان نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔ یہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا ان حالات میں کیا، ہر قسم کے حالات میں۔
وہ دونوں چلتے ہوئے باہر آگئے۔ جب زینی نے بے حد معمول کے انداز میں اس سے کہا۔
”تم کوئی گھر دیکھو ڈیفنس میں” سلطان نے بے حد حیران ہو کر اس سے پوچھا۔
”کس لیے؟”
”میں گھر بدلنا چاہتی ہوں، اس ہفتے نہیں تو اس مہینے ضرور۔”
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اور یہ بات کہتے ہوئے اس کا انداز بے حد عام تھا مگر سلطان کی چھٹی حس نے جیسے اسے کسی خطرے کا سگنل دیا تھا۔
”لیکن گھر کیوں بدلنا ہے پری جی آپ نے؟”
”کیونکہ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ تبریز پاشا کا گھر ہے۔”
اس نے مسکراتے ہوئے برابر والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے سلطان سے کہا جس کو ایک لمحہ کے لیے جیسے چکر آگیا تھا۔ اگر وہ مہورت پر کمپرومائز کر کے جا رہی تھی تو پھر تبریز پاشا کا گھر کیوں بدل رہی تھی اور اگر وہ کمپرومائز نہیں کر رہی تھی تو مہورت پر کیوں جا رہی تھی؟
”مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی پری جی؟” سلطان نے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔
”آخر گھر بدلنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟”
زینی چپ بیٹھی باہر دیکھتی رہی۔
”آپ کے دل میں کیا ہے پری جی؟” سلطان نے کچھ دیر بعد بے چین انداز میں پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔”
٭٭٭
”میں کسی صورت میں جمال کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کروں گی۔ میں تم کو بتا رہی ہوں اماں!”
زری جتنی بلند آواز میں احتجاج کر سکتی تھی، اس نے کیا تھا۔
شکیلہ دو روز قبل نہ صرف زری کی ماں سے مل کر گئی تھی بلکہ اس نے کرم علی کے لیے زری کا رشتہ بھی مانگ لیا تھا۔
زری کی ماں کے ہاتھ پیر تو شکیلہ کو اپنے گھر دیکھ کر پہلے ہی پھولے ہوئے تھے۔ اس پر یہ کہ وہ ان سے رشتہ داری کرنے آئی تھی۔ وہ بری طرح حواس باختہ ہو گئی تھی۔
وہ جہاں داد کے خاندان کو تب سے جانتی تھی، جب سے وہ اس محلے میں بیاہ کر آئی تھی۔ اس نے ان کی غربت دیکھی تھی اور پھر کرم علی کی وجہ سے ان کے بدلتے ہوئے دن دیکھے تھے۔ کرم علی اس زمانے میں جیسے پورے محلے کے لڑکوں کے لیے ایک رول ماڈل ہو گیا تھا کرم علی کے گھر والوں کی قسمت کرم علی کے امریکہ پہنچنے کے چند سالوں میں ہی بدل گئی تھی۔ جب تک وہ کویت میں تھا، تب تک اگرچہ اس کے گھر والوں اور محلے کے لوگوں کے لائف اسٹائل میں بہت فرق آچکا تھا لیکن اس کے امریکہ پہنچنے کے بعد کرم علی کے گھر والوں کا صرف لائف اسٹائل ہی نہیں، ان کی ذہنیت اور دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ بھی بدلنا شروع ہو گیا تھا۔ اب وہ ہر ایک سے یہ چاہنے لگے تھے کہ کوئی بھی ماضی میں ان کی غربت زدہ زندگی کو نہ تو یاد رکھے، نہ ہی انہیں اس زندگی کے حوالے دے کر ان کی قسمت پر رشک کرے۔ نتیجتاً انہوں نے محلے والوں سے بچنا شروع کر دیا تھا۔ ان کا سوشل سرکل اب نئی رشتہ داریوں کی وجہ سے بدلنے لگا تھا۔
اور اس سے پہلے کہ ان کا یہ رویہ محلے والوں کو صحیح معنوں میں چبھنا شروع ہوتا۔ وہ محلہ چھوڑ کر ڈیفنس چلے گئے تھے۔ اس کے بعد کرم علی کی فیملی نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا تھا۔ ہاں کبھی کبھار جہاں داد اس محلے میں اپنے رشتہ داروں کے گھر آتا تو محلے کے کچھ دوسرے لوگوں سے بھی اس کی علیک سلیک ہو جاتی اور اس کی موت کے بعد یہ سلسلہ بھی موقوف ہو گیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ کرم علی کی ساری فیملی کینیڈا چلی گئی تھی۔ فاصلے اور بڑھ گئے تھے اور ان فاصلوں نے کرم علی کی فیملی کو اس محلے میں ”دیومالائی حیثیت” دے دی تھی۔
اب ایسی کسی فیملی کا زری کے گھر آکر اسی آدمی کے لیے رشتہ کی بات کرنا… زری اور اس کے گھر والوں کی خوش قسمتی ہی تھی۔
زری کی ماں نے فوری طور پر تو شکیلہ کو ہاں نہیں کی۔ اس نے زری کے باپ سے بات کے لیے کچھ مہلت مانگی لیکن شکیلہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ زمین پہلے ہی ہموار ہے۔ انہیں اس کو ہموار کرنے کے لیے کوئی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔
رشتہ کی بات زری کے سامنے ہی ہوئی تھی اور وہ بھی اپنی بہنوں کی طرح وہاں بیٹھے شکیلہ کے اس اچانک مطالبے پر بھونچکا رہ گئی تھی اور جب تک اس کے اوسان بحال ہوئے شکیلہ وہاں سے جا چکی تھی۔
لیکن جب شکیلہ کے جانے کے بعد زری کی ماں نے فوری طور پر اس حوالے سے اس سے کوئی بات نہیں کی تو زری مطمئن ہو گئی تھی۔ ایسے رشتے اس کے گھر بہت آتے رہتے تھے۔ کئی بار سلائی کروانے کے لیے آنے والی عورتیں بھی زری کو دیکھ کر کسی نہ کسی کے لیے رشتہ کا ذکر ضرور چلاتیں لیکن یہ پہلی بار ہوا تھا کہ شکیلہ جیسی رکھ رکھاؤ والی کسی عورت نے کسی ایسے آدمی کے لیے رشتہ کی بات کی تھی جو کینیڈا میں رہتا تھا۔
اگرچہ زری کو حیرت ہوئی تھی کہ اس کی ماں نے فوری طور پر اس رشتے کے سلسلے میں اس سے بات کیوں نہیں کی تھی لیکن اگر اس کی ماں خاموش رہی تھی تو زری نے بھی اس معاملے پر بات نہیں کی۔
زری کی ماں نے اسی رات اپنے شوہر سے اس رشتہ کی بات کی تھی اور حمید کو جیسے یقین نہیں آیا تھا اور جب یقین آیا تو کسی تامل اور تعرض کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ وہیں بیٹھے بٹھائے کرم علی کی عمر کا اندازہ لگایا گیا۔ سینتیس اڑتیس سال… اور زری ابھی انیس کی نہیں ہوئی تھی۔ عمر کا فرق بے معنی تھا۔ اتنی دولت کے ساتھ اگر کرم علی پچاس کا بھی ہوتا تب بھی یہ رشتہ بے حد مناسب تھا۔ شکل و صورت کا تو خیر موازنہ کیا ہی نہیں گیا۔ کرم علی معمولی صورت کا سہی لیکن بدصورت نہیں تھا اور اگر بدصورت بھی ہوتا تو بھی اس کلاس میں مرد کی صورت پر بات کرنا کسی بھی خاندان کے لیے انتہائی ہتک آمیز بات تھی۔
زری کی ماں کو کرم علی کی اس زمانے کی ایک منگنی اور پھر اس منگنی کا ٹوٹنا یاد آیا لیکن ایک منگنی کا ہونا یا ٹوٹنا دونوں بے کار اعتراضات ہوتے۔ شکیلہ کے بقول کرم علی نے اب تک شادی نہیں کی تھی اور یہ وہ چیز تھی جو حمید اور اس کی بیوی دونوں کو ذرا ناقابل یقین لگ رہی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ کرم علی نے وہاں باہر کسی غیر ملکی عورت سے شادی وغیرہ ضرور کی ہو گی اور بعد میں اسے چھوڑ دیا ہو گا اور اب اس کے گھر والے اس کی شادی پاکستان میں اسی لیے ان جیسے گھرانے میں کر رہے تھے کیونکہ کسی اپنے جیسے گھرانے میں رشتہ کرتے ہوئے لوگ اس طرح کی چیزوں پر ضرور اعتراضات کرتے۔
کرم علی کا کردار کیا تھا؟
اس کے بارے میں بھی حمید اور اس کی بیوی کو شبہات تھے۔ جہاں داد کے خاندان کی شہرت بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ لڑکے کو خاندانی طور پر ہی شریف سمجھتے لیکن یہ بھی وہ چیز تھی جو کم از کم حمید جیسے کردار کے آدمی کے لیے قابل اعتراض نہیں تھی۔
کرم علی کا رشتہ ان دونوں میاں بیوی کی نظر میں اب تک ان کی کسی بھی بیٹی کے لیے آنے والے رشتوں میں سب سے زیادہ موزوں تر تھا اور دونوں نے متفقہ طور پر زری کو خوش قسمت قرار دیا۔
ان دونوں کو اس رات وہاں بیٹھے بیٹھے یہ یقین بھی ہو گیا کہ اس رشتہ کی وجہ سے ان کی اپنی قسمت بھی بدلنے والی تھی۔
بیٹی اتنے دولت مندآدمی کی بیوی بنتی تو کیا ماں باپ اور بہنوں کو اس غربت میں رہنے دیتی۔ قسمت کی اگر واقعی کوئی دیوی تھی تو وہ ان پر مہربان ہو گئی تھی۔ رشتے کو فوری طور پر قبول کر نے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
اور یہ فیصلہ زری نے بھی سن لیا تھا۔ اس نے نہ صرف یہ فیصلہ سنا تھا بلکہ ماں باپ کی ساری باتیں بھی سنی تھیں اور ان کی گفتگو نے اس کا خون کھولا دیا تھا۔ ایک بڑی عمر کا کم شکل آدمی جس کی اگر باہر کہیں شادی ہوئی تھی تو بچے بھی ہو سکتے تھے، وہ اس کے ماں باپ کو اس کے لیے بے حد موزوں برلگ رہا تھا کیونکہ اس کی جیب میں سونے کے سکے تھے۔
زری چراغ پا ہو رہی تھی۔ا گر اسے حمید کا خوف نہ ہوتا تو وہ اسی وقت اٹھ کر ان دونوں کے سامنے اس رشتہ سے انکار کر کے جاتی۔ لیکن اس نے بہر حال یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اگلے دن ماں کو دوٹوک اندا ز میں اپنا انکار پہنچائے گی۔
اگلے دن صبح ماں اس کا انکار سننے سے پہلے ہی کام کے لیے گھر سے نکل چکی تھی اور شام کو جب وہ واپس آئی تو وہ اکیلی نہیں تھی، اس کے ساتھ شکیلہ بھی آئی تھی اور شکیلہ کے ساتھ مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے بھی آئے تھے۔ وہ رشتہ طے کرنے آئی تھی۔
زری کا خون ایک بار پھر کھول کر رہ گیا۔ حمید بھی اس وقت گھر پر تھا۔ وہ نہ ہوتا توتو زری اس وقت جس موڈ میں تھی، وہ شکیلہ کو خود اس رشتہ سے انکار کر دیتی لیکن حمید کی موجودگی میں اس نے نہ صرف شکیلہ کے ہاتھ سے پیسے لیے بلکہ مٹھائی بھی کھائی۔ شکیلہ جاتے ہوئے اس کی چوڑیوں اور انگوٹھی کے ساتھ ساتھ کپڑوں کا سائز بھی لے گئی۔ انہیں شادی کی جلدی تھی۔
زری اس رات بھی نہ ماں سے بات کر سکی، نہ ہی جمال سے۔ البتہ اس نے اپنی چھوٹی بہنوں کو صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وہ کرم علی جیسے بڈھے سے شادی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن اس کی بہنوں نے اس کی اس دھمکی میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی، نہ ہی ان کے دل میں کوئی خدشات پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے زری سے بڑی تین بہنوں کو بھی ان ہی دھمکیوں کے بعد ان ہی جگہوں پر شادیاں کرتے دیکھا تھا جہاں حمید نے ان کے رشتے طے کیے تھے تو اس طرح کا انکار اور دھمکی جیسے ان کے گھر کی روایت بن گئی تھی لیکن ان میں سے ہر ایک زری کی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔ یہ پہلی شادی تھی جس پر ان میں سے ہر ایک واقعی خوش تھا۔ ان کی ایک دولت مند آدمی سے رشتہ داری ہونے والی تھی۔
زری کی ماں نے نہ صرف اس شام نسبت ٹھہرائی تھی بلکہ شکیلہ کی طرف سے لائی جانے والی مٹھائی زری کے شدید احتجاج کے باوجود محلے اور رشتہ داروں میں بانٹ دی تھی۔ مٹھائی کی تقسیم کے ساتھ ہی محلے کی عورتوں کی مبارکباد کے لیے آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور یہ خبر بجلی کی رفتار کے ساتھ محلے بھر میں پھیلی تھی۔