مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

دوسرے دن اتوار تھا رات کی نسبت میں اس وقت پرسکون تھی۔ میں نے اپنے آپ کو مطمئن کرلیا تھا کہ میں جو کررہی ہوں صحیح کررہی ہوں، لیکن حوریہ کا دماغ شاید وہیں اٹکا ہوا تھا۔

آپی آپ کہہ رہی تھیں نا کہ آج کل تو سبھی ایسے کپڑے پہنتے ہیں۔اس نے میری رات والی بات کی طرف اشارہ کیا۔

ہوں!“ میں نے موبائل میں اپنی تصویریں دیکھتے ہوئے کہا۔

تو ہم ایسے کپڑے پہن بھی لیں تو ان جیسے نہیں لگ سکتے۔“ 

اچھا وہ کیوں؟میرا دھیان ابھی بھی موبائل میں ہی تھا۔

دیکھیں میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہم ان سے کمتر ہیں لیکن…. اب آپ جیسے ماریہ آپی کو ہی دیکھ لیں۔حوریہ نے اپنی بات سمجھانے کے لیے اب مثال کا سہارا لیا وہ ایک دو دفعہ ماریہ سے مل چکی تھی۔ 

ان کا رکھ رکھاان کا پیسہ ان کے ہر انداز سے جھلکتا ہے اور آپ بتارہی تھیں نا ان کی اپنی پرسنل سٹائلسٹ بھی ہے تو ہم ان جیسے کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ امی کہتی ہیں کوا مور کے پر لگا کر بھی کوا ہی رہتا ہے۔ مور نہیں بن جاتا۔حوریہ کی اس بات پر میں نے بے ساختہ موبائل میں موجود اس تصویر کو زوم کیا جسے میں ابھی بہت ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھی۔ ماریہ کی طرح کٹے ہوئے بال جن میں گولڈن اسٹریکنگ ہوئی تھی اور گہرے میک اپ میں، میں عجیب مضحکہ خیز لگ رہی تھی اپنی سانولی پرکشش رنگت کو میں نے گہرے میک اپ سے بدنما کرلیا تھا۔

تو کیا میں کوا ہوں؟میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا۔

٭….٭….٭

فائنل ایگزامز میں تھوڑا سا عرصہ رہ گیا تھا۔ اسی لیے آج کل سب اپنی تمام مصروفیات بھلائے پڑھائی میں مگن تھے۔

مجھے تو لگتا ہے میری اب فرسٹ پوزیشن نہیں بنے گی۔میں نے مایوسی سے ماریہ سے کہا۔ 

اچھا وہ کیوں؟ماریہ نے جلدی سے مجھ سے پوچھا۔

 ”حسنین کو بھی تو ٹائم دینا پڑتا ہے۔ ماریہ علی بھائی بھی تم سے ایسے ہی بات کرتے ہیں اور بات نا کرو تو ناراض ہوجاتے ہیں؟میں نے ماریہ سے پوچھا۔ 

ہم بات کرتے ہیں، لیکن پڑھائی کے وقت میں صرف پڑھائی کرتی ہوں اور علی بھی میری اس عادت کو جانتا ہے اسی لیے خود سے بھی کال نہیں کرتا۔ماریہ ایسی ہی تھی اپنی پڑھائی کے لیے بہت جنونی۔

٭….٭….٭

اس دن رات کو جب میں پڑھتے پڑھتے تھک گئی تو میں نے تھوڑٰ دیر کے لیے فیس بک کھول لی۔ پھر بوریت دور کرنے کے لیے میں نے یونہی پروفائل کھولنی شروع کردیں۔ میں بہت تھک چکی تھی، لیکن عجیب سی بے چینی تھی جس کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ یونہی ایک پروفائل سے دوسری پروفائل وزٹ کرنے میں، میں ایک پروفائل پر جا رکی۔ پروفائل پکچر کو دیکھتے رہنے سے میں عجیب سی الجھن میں مبتلا ہوچکی تھی۔اب میں دوسری تصویریں کھول کر دیکھ رہی تھی۔ ہوسکتا ہے یہ محض میرا وہم ہو میںنے اپنے دل کو تسلی دی۔

٭….٭….٭

فائنل ایگزامز شروع ہوچکے تھے۔ حسنین سے ملاقات کیے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے۔ کل آخری پیپر ہے خوب جم کر سوں گی اور حسنین سے بھی بات کروں گی۔ میں نے دل ہی دل میں کل کے لیے پروگرام سیٹ کیا۔

ممانی آج تھوڑی دیر ہوجائے گی آخری پیپر ہے نا۔میں نے صبح جاتے وقت انہیں اطلاع دی۔

اچھا!“ انہوں نے محض گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔ پیپر حسب توقع اچھا ہوا۔ چلو فرسٹ نہ سہی سیکنڈ پوزیشن تو بن ہی جائے گی اور سمیسٹرز میں تو اچھی جی پی ہے میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ ذہین تو میں تھی اسی لیے کم وقت میں بھی میںنے اچھی تیاری کر ہی لی تھی۔

پیپر دینے کے بعد میں باہر نکل آئی۔ ایک دو کلاس فیلو اور بھی باہر آگئے تھے۔ ان سے بات چیت کرتے ہوئے میں ماریہ اور حسنین کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی ۔ 

کیسا پیپر ہوا؟حسنین کو باہر آتے دیکھ کر میں نے پوچھا۔

زبردست!“

میرا بھی بہت اچھا ہوا۔ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ سے ذرا ہٹ کر بینچ پر آ بیٹھے۔

کل کا کوئی آٹنگ کا پروگرام رکھیں؟حسنین نے مجھ سے پوچھا۔

جیسی آپ کی مرضی۔میں نے کندھے اچکائے۔

حسنین جو آپ نے مجھے چین دی ہے وہ بہت خوب صورت ہے۔

ہاں اس کا ڈیزائن بہت یونیک ہے ہر جگہ آسانی سے نہیں ملے گا۔

ابھی کچھ دن پہلے میں نے ویسی ہی ایک چین دیکھی حسنین۔“ 

اچھا واقعی کس کے پاس دیکھ لی؟حسنین نے کچھ الجھ کر مجھے دیکھا۔

علیزہ کے گلے میں اس کی پروفائل پکچر میں۔میں نے حسنین کو غور سے دیکھتے ہوئے بتایا اور علیزہ کے نام پر حسنین کے تاثرات میں نے تیزی سے بدلتے دیکھے۔

ہوسکتا ہے اس سے ملتی جلتی چین ہو یا پھر اس کے پاس بھی ویسی ہی چین ہو۔

لیکن ابھی تو آپ نے کہا وہ ڈیزائن بہت یونیک ہے۔“ 

تم مجھ پر شک کررہی ہو؟ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔حسنین جھٹکے سے اٹھ کر چلا گیا۔

حسنین کے جانے کے بعد میں نے واپس علیزہ کی پروفائل کھولی، اس کو میں نے اس دن چین دیکھنے کے بعد میسجز بھی کیے اور ویسے تو شادی کے بعد بھی کئی دفعہ میسج کیے تھے، لیکن وہ اب شاید یہ والی آئی ڈی استعمال ہی نہیں کرتی تھی۔ یہ پکچر بھی سیکنڈ لاسٹ سمیسٹر کے درمیان میں اسے اپ ڈیٹ کی تھی۔ یہ اس کی ایک سیلفی تھی ذرا اوپر کرکے لی تھی اس نے جس کی وجہ سے اس کی گردن میں پڑی ہوئی چین نمایاں ہورہی تھی۔ زیادہ تر تصویروں میں اس نے وہ چین پہنی ہوئی تھی۔ ایک دوسری تصویر میں اس کے بیک گرانڈ سے پہچانی تھی یہ بھی اس کی اکیلی کی سیلفی تھی۔ اس ہوٹل میں حسنین اور میں اکثر جاتے تھے اور حسنین ہمیشہ اسی جگہ بیٹھا کرتا تھا۔ فش ایکوریم اور پیچھے لگے شیر کی تصویر یہ دو چیزیں تھیں جس کی وجہ سے میں سمجھ گئی کہ علیزہ اسی ہوٹل میں ہے زوم کرکے دیکھنے پر اس سیلفی میں بھی اس کے گلے میں چین نظر آرہی تھی۔

ان تصویر وں کو دیکھتے ہوئے مجھے علیزہ کے ساتھ ہوئی پرانی گفتگو یاد آئی۔

علیزہ کل کہاں گئی تھیں؟“ 

کل چائینز کھانے گئے تھے۔

یونیورسٹی سے ہی چلی گئیں تھیں کیا؟

ہاں ایسا ہی سمجھ لو۔علیزہ کھلکھلائی تھی۔

آج کل تم اکثر باہر کھانا کھانے جاتی ہو فیملی کے ساتھ؟ تم نے اور بھی پکچرز اب ڈیٹ کی تھیں۔

فیملی کے ساتھ تو نہیں لیکن جاتی ضرور ہوں باہر کچھ فرینڈز ہیں۔وہ پھر سے ہنسی تھی۔ اس زمانے میں علیزہ بات بے بات ہنستی تھی۔

علیزہ وہ چین تم نے کہاں سے لی؟ میں بھی ویسی لوں گی۔

ارے وہ تو گفٹ ہے بہت ہی یونیک ڈیزائن ہے اس کا ہر جگہ سے نہیں ملے گی۔اس کی آواز میرے اردگرد گونجی۔

تو کیا حسنین مجھے دھوکا دے رہا ہے۔میںنے دونوں ہاتھوں میں سرتھام کر سوچا۔

سر کی پسند تو ہمیں اچھے طریقے سے پتا ہے۔وہ واہیات سا ویٹر اور اس کی اندر تک گڑتی نظریں مجھے یاد آئیں۔ اگر حسنین مجھ سے فلرٹ کررہا ہے، تو میرا کیا ہوگا؟ یہ خیال میری روح فنا کررہا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!