مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

آج میرے سسرال والے میری ڈیٹ فکس کرنے آرہے تھے۔ میں نے نمازِ حاجت پڑھ کر بہت دل سے اپنے لیے دعا مانگی اور تیار ہونے لگی۔

آپی پچھلی دفعہ کی طرح مت تیار ہوئیے گا۔حوریہ نے گردن اندر ڈال کر یاد دہانی کرائی۔ میں نے مسکرا کر اس کی تسلی کرائی اور دوپٹا کھول کر اوڑھنے لگی۔

دیکھیں بھائی صاحب! اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ اسی لیے آپ جہیز کا تکلف مت کیجیے گا۔عبدالہادی کی پھوپھو نے بہت شائستگی سے اپنا مدعا بیان کیا۔

نہیں بہن جی تکلف کیسا بس ہم اپنی بچی کو اپنی حیثیت کے مطابق ہی دیں گے۔ماموں نے میرا دل تشکر کے جذبات سے بھردیا۔

بھائی صاحب ہم رسماً منع نہیں کررہے عبدالہادی کی جتنی حیثیت ہے وہ اس لحاظ سے اپنا گھر سجالے گا۔ اس کے والدین تو حیات نہیں اسی لیے اس نے بطور خاص مجھے یہ ہدایت دے کر بھجوایا ہے کہ میں آپ کو جہیز کے لیے سختی سے منع کردوں اور ہمارے ہاں نکاح سادگی سے ہوتا ہے گھر پر ہی اور وہیں سے رخصتی ہوجاتی ہے اور ولیمہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق کریں گے۔

مگر؟ماموں متفق ہونے کے باوجود تذبذب کا شکار تھے۔

لوگ کیا کہیں گے کہ بچی کے ماں باپ نہ تھے تو ماموں نے بوجھ سمجھ کر سر سے اتار دیا۔یہ آواز ممانی کی تھی۔

ارے بہن لوگوں کا کیا ہے۔ ان کا تو کام ہی باتیں بنانا ہوتا ہے۔ لوگوں کے منہ کوئی بند نہیں کراسکتا۔یہ آواز عبدالہادی کی خالہ کی تھی۔

اچھا ٹھیک ہے جو آپ لوگ مناسب سمجھیں بہرحال وہ اب آپ کی امانت ہے۔ماموں نے ان سے اتفاق رائے کیا۔

آپی! آپ بہت خوش قسمت ہیں۔حوریہ نے مجھ سے کہا۔ وہ کیا ہے نا ہم اتفاق سے اس کمرے میں بیٹھ گئے تھے جہاں ڈرائنگ روم کی آوازیں بڑی واضح آتی تھیں بلکہ آپ سے کیا چھپانا ہم جان بوجھ کر اس کمرے میں بیٹھے تھے اور اس میں اس دفعہ حوریہ کے ساتھ میری مرضی بھی شامل تھی اور اب یہ سب سن کر میری آنکھیں تشکر سے بھیگ چکی تھیں۔ بے شک میرا رب بڑا ہی مسبب الاسباب ہے۔ ٹھیک ہے بس دو مہینے بعد پہلے جمعے کو نکاح کی تقریب رکھ لیتے ہیں۔

بہت مبارک ہو آپی۔حوریہ مجھ سے لپٹ گئی۔ اب کمرے میں ممانی ، نانی اور میری ہونے والی سسرالی رشتے دار خواتین آچکی تھیں اور مجھے لگ رہا تھا کہ پورا کمرا رنگوں سے بھرچکا ہے۔

٭….٭….٭

ارے بڑے ہی عجیب لوگ ہیں دنیا سے الگ۔نانی نے دوسرے دن میرے سسرال والوں پر تبصرہ کیا۔

اماں عجیب نہ کہیں بڑے ہی نیک لوگ ہیں۔“ 

نا ہماری تو سمجھ میں نہ آئی جہیز تو دیا ہی جاتا ہے لڑکی کو صدیوں پرانا رواج ہے۔نانی کی اس بات پر میں نے حوریہ کو اور اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ نانی اب عمر کے اس حصے میں تھیں جب ان کے خیالات بدلے نہ جاسکتے تھے۔

اچھا ممانی وہ آپ کون سے ملتانی کڑھائی والے کپڑے دکھا رہی تھیں۔میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہی۔

ہاں وہ تھیلا اٹھااب بھئی کپڑا لتّا تو دیا ہی جائے گا نا تمہیں۔انہوں نے وہ تھیلا الٹتے ہوئے کہا۔

یہ تمہارے لیے اور یہ حوریہ کے لیے میں نے بنوا کر رکھے تھے۔میں نے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جو قمیص میرے لیے تھی اس کا کپڑا خاصا قیمتی تھا جب کہ حوریہ کے لیے لی گئی قمیص خوش رنگ تو تھی، مگر اس کا کپڑا اور کام ہلکا تھا اور اگر میں پہلے والی لائبہ ہوتی تو میں کہتی ممانی کو میری سانولی رنگت کا احساس بھی ہے پھر بھی اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے اچھا والا رنگ پسند کرلیا۔ میرے اندھے دل کی جگہ مجھے قلبِ سلیم عطا کردیا گیا تھا اور جس کے پاس قلبِ سلیم ہو اس کا آس پاس ایسا ہی روشن اور واضح ہو جاتا ہے۔

٭….٭….٭

آہ! سینے کے بائیں طرف اب اکثر ہی درد اُٹھتا تھا۔ اس جمعے کو میری بیٹی رخصت ہوجائے گی۔ کیا مجھے جانا چاہیے؟ انہوں نے اپنے آپ سے سوال کیا، مگر اس کا سامنا کیسے کروں گا۔ اتنے سال بعد؟ وہ اپنے آپ سے سوال کررہے تھے۔ اگر خدیجہ اب بھی نہ بتاتی، تو میں تو ساری عمر اپنے جگر کے ٹکڑے کو ہی ملزم سمجھتا رہتا۔

وہ آنکھیں موند کر اپنے اور خدیجہ کے مابین ہونے والی گفتگو یاد کرنے لگے۔ اس دن وہ اسٹڈی روم میں اکیلے بیٹھے اخبار کا مطالعہ کررہے تھے کہ خدیجہ چائے لے کر ان کے اسٹڈی روم میں آئی۔

خدیجہ بیٹے کوئی کام ہے؟جب وہ چائے دے کر بھی کھڑی رہی تو انہوں نے اس سے شفقت سے پوچھا اور بس ان کا یہ پوچھنا غضب ہوگیا۔

چاچو مجھے معاف کردیں میں نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔وہ زاروقطار رونے لگی تھی۔ 

کیا ہوگیا بیٹے؟ان کا دل ان جانے خدشات سے لرز اٹھا۔

چاچو لائبہ بے قصور تھی۔وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔

کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں۔پھر وہ انہیں آہستہ آہستہ سب کچھ بتاتی چلی گئی۔

میں آپ کو بتانا چاہتی تھی پر ریحان بھائی نے مجھے باتیں سنتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے کسی کو کچھ بتایا، تو وہ جو لائبہ کے ساتھ کرنا چاہتے تھے، وہ میرے ساتھ کریں گے۔ اس نے بہ مشکل انہیں سمجھایا۔ بس پھر میں ڈر کر چپ ہوگئی لیکن اب جب سے وہ بستر پر فالج کا شکا ر ہوکر پڑے ہیں مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ میں بھی اس گناہ میں خاموش رہ کر برابر کی شریک ہوں۔ کہیں میں بھی اللہ کی پکڑ میں نہ آجاں مجھے معاف کردیں چاچو۔وہ حساس سی لڑکی ہاتھ جوڑ کر بولی۔

اس نے مجھے ریحان کے بارے میں کیوں نہ بتایا؟انہوں نے بے آواز سرگوشی کی۔

لائبہ آپ کو بتانے سے ڈرتی تھی کہ آپ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔خدیجہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتارہی تھی۔

آہ!“ وہ بارِ ندامت سے زمین میں گڑ گئے وہ جو باہر کے لوگوں میں بڑے معتبر سمجھے جاتے تھے، لوگ ان کو اپنے مسئلے بتاتے تھے ان کی رائے کو اوّلیت دیتے تھے ان کا جگر گوشہ بھی ان سے اپنے دل کی بات نہ کہہ سکا۔ اسے اپنے باپ پر اعتماد نہ تھا۔ اضطراب تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ انہوں نے اپنی پیشانی مسلی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!