مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

ماریہ اس رانگ کالر نے دوبارہ تمہیں تنگ تو نہیں کیا؟میں نے یونہی اس سے پوچھا۔ 

نہیں حیرت کی بات ہے اس دن کے بعد سے اس کا کوئی میسج ، کوئی کال نہیں آئی۔ماریہ نے اپنے بالوں میں برش کرتے ہوئے بتایا۔

ایسا لگ رہا تھا میرے رپلائی کا ہی منتظر تھا۔ماریہ نے قہقہہ لگایا۔

جو بھی تھا شکر تمہاری تو جان چھوٹی۔میں نے تبصرہ کیا۔

ہاں! ٹھیک کہا ورنہ تو ہر گھنٹے بعد فون بجنے لگتا تھا۔ماریہ نے برا سا منہ بنایا۔

ماریہ مجھے علی بھائی کی تصویر تو دکھا دو۔میں نے ماریہ سے فرمائش کی۔

ہاں یار روز دوسرا والا موبائل لانا بھول جاتی ہوں۔ بلکہ ایسا کرتی ہوں کسی دن تمہاری ملاقات ہی کروادوں گی۔ماریہ نے چٹکی بجاتے ہوئے ایک نیا پروگرام بنایا۔

ان سے کہو کسی دن تمہیں یونی پک کرنے آجائیں تو میں مل لوں گی۔“ 

ارے علی کے بہت دماغ ہیں کسی دن گھر پر کوئی پارٹی ہوگی نا تو میں تمہیں بلاں گی پھر تم مل لینا۔

چلو ایسا ہی ٹھیک ہے۔“ 

ماریہ کل میں نے تمہیں کال کی تمہارا فون بند جارہا تھا۔

ہاں اس وقت میں پڑھ رہی تھی نا تمہیں پتا تو ہے میں پڑھتے وقت سیل فون آف کردیتی ہوں۔

ہاں سوری میرے ہی ذہن سے نکل گیا۔یہ کہتے ہوئے مجھے ماریہ پر شک آیا کیوں کہ جب سے حسنین میری زندگی میں آیا تھا میں چاہ کر بھی ایسی توجہ پڑھائی پر نہ دے پاتی تھی۔ حسنین اگر میسج کرتا تھا، تو اسے فوراً رپلائی چاہیے ہوتا تھا ورنہ وہ ناراض ہوجاتا تھا اور ناراض ہونے کے بعد وہ پھر میرے کسی میسج کسی کا ل کا جواب نہ دیتا تھا جو مجھ سے برداشت نہ ہوتا تھا۔

٭….٭….٭

آج عافیہ کی بہت دن بعد کال آئی تھی۔ اس دن کے بعد سے میں اس سے تھوڑا کھنچ گئی تھی جب سے اس نے مجھ سے سوال جواب کیے تھے میں کوچنگ میں بھی اس سے زیادہ بات نہ کرتی تھی۔ اب جو اس نے کال کی تو جیسے سارے گلے شکوے خود ہی دور ہوگئے۔ اس سے بات کرتے میں دو تین دفعہ حسنین کی بھی کال آئی لیکن میں نے سوچا کہ عافیہ سے بات ہوجائے پھر اس کے بعد حسنین سے بات کروں گی۔ عافیہ سے بات کرتے ہی میں نے حسنین کو کال ملائی جو اس نے فوراً ہی ریسیو کرلی۔

کس سے بات کررہی تھیں یار؟ کب سے کال کررہا ہوں۔“ 

عافیہ تھی بہت دن بعد بات ہوئی تو کال لمبی ہوگئی۔“ 

ہوں! اور کیا کررہی تھیں؟

کچھ نہیں بس ایسے ہی کل کی تیاری کررہی تھی۔

اچھا لائبہ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں ابھی ذرا مصروف ہوں۔میں نے محسوس کرلیا تھا اس کا دھیان کہیں اور ہے اسی لیے میں نے بھی بغیر اصرار کئے فون بند کردیا۔

٭….٭….٭

حوریہ کیا دیکھ رہی ہو؟میں نے اسے محویت سے ٹی وی دیکھتے ہوئے پوچھا۔

کچھ نہیں آپی فیشن شو دیکھ رہی ہوں۔

یہ ماڈلز کتنی خوب صورت لگتی ہیں نا اور ان کے ڈریسز کتنے حسین ہوتے ہیں نا؟میں نے اس سے یونہی پوچھا۔

حوریہ تمہیں بھی ایک ایسا ڈریس بنوادوں ۔ریمپ پر واک کرتی سلیولیس بیک لیس میں ملبوس ایک ماڈل کی طرف میں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

نہیں آپی میں یہ سب کبھی نہیں پہن سکتی ان لوگوں کی دنیا الگ ہوتی ہے۔

لیکن اب تو زمانہ بدل رہا ہے۔ سب لوگ ایسے ہی کپڑے پہنتے ہیں۔میں نے کم زور سے لہجے میں کہا۔ 

نہیں آپی بے شک مجھے اچھے کپڑوں کا شوق ہے، لیکن مجھے باجی کی کہی ہوئی حدیث ہمیشہ یاد آتی ہے جب بھی میرا دل ایسے کپڑوں کے لیے چاہتا ہے۔“ 

کونسی حدیث؟میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔آپ بھی تو یہ حدیث ہمیشہ سناتی ہیں۔ حوریہ مجھ سے ہنس کربولی۔ اب وہ آگے بھی کچھ بول رہی تھی، لیکن میراذہن اب کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔

تمام گھر والے سو چکے تھے اور میں اپنی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی۔

کیا میں غلط کررہی ہوں؟میں نے اپنے بالوں کو جکڑتے ہوئے سوچا۔

لیکن حسنین کی تو ڈیمانڈ ہی یہی ہے اور اس کے ساتھ موو کرنے کے لیے مجھے اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا۔ ماریہ نے بھی ایسا کہا تھا، تو پھر میں کیا کروں؟

تم کون سا غلط کام کررہی ہو اپنے آپ کو خوب صورت بنانے کا حق تو ہر کسی کے پاس ہوتا ہے اور پھر حسنین کی ناراضگی تم برداشت کرلوگی؟بنت حوا کو صحیح راستے پر جاتے دیکھ کر پہلے تو وہ سٹپٹایا پھر اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ ہاں یہ بھی صحیح بات ہے میں نے زبردستی اپنے آپ کو دلائل دے کر درست ثابت کیا اور سونے چل دی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!