مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

ماریہ اسلام آباد سے واپس آچکی تھی۔ اب اپنی کزن کی شادی کی تصویریں دکھا رہی تھی۔ دلہن کے ڈریس سے لے کر اسٹیج تک کی آرائش قابل دید تھی۔ خود ماریہ بھی بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ 

ماریہ علی بھائی کے ساتھ کوئی تصویر نہیں ہے تمہاری؟میں نے پوچھا۔

آں ہاں! ہیں لیکن وہ دوسرے موبائل میں ہیں دکھاں گی تمہیں۔

اچھا وہ رانگ کالز نے تو تمہیں تنگ نہیں کیا شادی میں؟میں نے اس سے پوچھا۔

ہاں! آ تو رہے تھے میسجز کہ واپس کب آئیں گی؟ اور بھی الابلا میں نے تو موبائل ہی آف کردیا۔“ 

ویسے یہ کوئی جاننے والا ہی ہے؟میں نے تبصرہ کیا۔

اچھا اسے چھوڑو تم یہ دیکھو وہ اب اپنے پرس میں سے مجھے کچھ اور نکال کر دکھا رہی تھی۔

٭….٭….٭

آج آمنہ کی برات تھی۔ آمنہ پارلر نہیں گئی تھی کہ اس کا رواج نہ تھا اور نہ پسند کیا جاتا تھا لہٰذا بیوٹیشن گھر پر آئی ہوئی تھی اور اب خدیجہ اس کا صبر آزما رہی تھی۔

اچھا تو اب میری باری کب آئے گی؟اس نے کوئی ایک گھنٹے میں چوتھی بار یہ سوال پوچھا تھا۔ بیوٹیشن کے منہ کے بگڑے ہوئے زاویے دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی۔

آخدیجہ مجھے اپنے کپڑے دو میں استری کردوں گی۔میں اسے باہر لے آئی۔ 

تم کیوں کروگی ملازمائیں ہیں نا اور ویسے مجھے وہاں سے نکالنے کا اچھا طریقہ تھا۔خدیجہ نے مجھے گھورا۔

تو تم بھی تو اس کے پیچھے لگ گئیں تھیں ابھی انتظار کرو آجائے گی تمہاری باری بھی۔

پھر خدیجہ کی دلی مراد بر آئی اب وہ بیوٹیشن کے سامنے بیٹھی مسلسل بول رہی تھی کبھی اسے کوئی پرانا قصہ یاد آجاتا اور کبھی میک اپ میں کوئی کمی لگنے لگتی۔

خدیجہ میں بھی تیار ہوکر آتی ہوں۔اس کا منہ بند نا ہوتے دیکھ کر میں نے اسے کہا۔ 

خدیجہ نے میرے لیے اپنی پسند سے چوڑی دار پاجامہ اور فراک لی تھی۔ رنگ کا فرق تھا ورنہ ہم دونوں کا لباس ایک جیسا تھا۔ سادگی سے تیار ہوکر میں جب نیچے اتر رہی تھی تو ابا مجھے سیڑھیاں چڑھتے دکھے۔

کیا بات ہے ابا؟ کوئی کام ہے تو مجھے بتادیں۔میں جلدی سے آگے بڑھی۔

ہاں! وہ تمہاری امی کو شلوار قمیص دی تھا استری کو وہی دیکھنے جارہا ہوں۔پھر مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹک کر بولے۔

ایں! تم تیار نہیں ہوئیں؟“ 

ابا تیار تو ہوں یہ کپڑے خدیجہ کے ساتھ ہی تو جاکر لیے تھے۔

بیٹا تم بھی وہ کروا لو نا میک اپ سبھی تو کرا رہی ہیں۔ابا بولے۔ 

نہیں ابا میں ہمیشہ اتنا ہی تیار ہوتی ہوں۔ میں آپ کی شلوار قمیص لاتی ہوں۔ابا کی اتنی ہی سی توجہ پر میرا دل کھل اٹھا تھا۔ اوپر ملازمہ سے ابا کا شلوار قمیص لے کر نیچے آئی تو ابا مجھے راستے میں ہی نظر آگئے۔

یہ لیں ابا آپ کی شلوار قمیص۔

 ”بیٹا کسی ملازمہ سے کہہ کر ایک کپ چائے کا بنوا دو بہت طلب ہورہی ہے۔“ 

ملازمہ کیوں میں ابھی بناکر لائی۔چائے کی پتی کا ڈبا کہاں چلا گیا شادی کے ہنگامے میں چیزیں ادھر سے ادھر ہوگئی ہیں میں ڈبا تلاش کرنے میں مگن تھی کہ میری پشت سے آواز ابھری۔

کچھ لوگ سادگی میں بھی غضب ڈھاتے ہیں۔میرے ہاتھ سے ڈبا چھوٹ کر گر گیا۔ 

ریحان بھائی آپ یہاں سے جائیں ورنہ میں آواز دے کر کسی کو بلالوں گی۔“ 

اچھا! اتنی بہادری ذرا ہم بھی تو دیکھیں انہوں نے میری کلائی پکڑی۔ابا میں زور سے چیخی لیکن ابا سے پہلے پھوپھو ہی کچن میں آگئیں۔

ریحان !“ انہوں نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ ریحان بھائی اپنے گریبان کے کھلے بٹن سنبھا ل کر وہاں سے بھاگے۔ پھوپھو ان ماں میںسے تھیں جو اپنی اولاد کی غلطیوں پر پردہ ڈالتی ہیں سب کچھ جاننے کے باوجود بھی۔

پوری شادی میں ڈری ڈری رہی کہ ابھی کہیں سے ریحان بھائی آجائیں گے اور اسی ڈر سے میں خدیجہ کے ساتھ ساتھ رہی۔

٭….٭….٭

کیا! “میں بدکی۔

نہیں بھئی میں نہیں آسکتی۔حسنین کا اصرار تھا میں اس سے ملنے آں۔

لیکن میں کیسے آسکتی ہوں ۔میں نے فون دوسرے کان سے لگاتے ہوئے کہا۔ لیکن حسنین کا اصرار بڑھتا ہی جارہا تھا۔

اچھا ٹھیک ہے لیکن بس آدھے گھنٹے کے لیے۔بالآخر میں نے ہتھیار ڈال دیے۔

دوسرے دن میں نے ماریہ کو بتایا تو وہ اچھل ہی پڑی۔

واﺅ! تمہیں ضرور جانا چاہیے۔ ہماری سوسائٹی میں تو یہ سب بہت عام ہے۔اس کے منہ سے اپنے دل کی بات سن کر میں خوش ہوگئی۔

تم میری بہت اچھی دوست ہو۔میں نے جواباً ماریہ سے کہا۔ میں نے یہ نہ سوچا برائی کی ترغیب دینے والا اچھا دوست کیسے ہوسکتا ہے؟

٭….٭….٭

دوسرے دن حسنین نے مجھے یونی کے باہر سے پک کرلیا۔ ہم نے ابھی تک یونی میں کسی پر بھی اپنے افیئر کے حوالے سے کوئی بات ظاہر نہیں کی تھی۔ حسنین مجھے لے کر ایک ہوٹل میں گیا جہاں بیٹھے امیر کبیر لوگوں اور مو¿دب ویٹرز کو آتے جاتے دیکھ کر ہی میرا اعتماد ہوا ہوگیا۔

حسنین میں ایک منٹ آتی ہوں۔یہ کہہ کر میں ریسٹ روم کی طرف چلی آئی۔ جلدی سے اپنا چہرہ دھو کر میں نے فیس پاڈر اور لپ اسٹک کا ایک کوٹ لگایا اب میں بڑے اعتماد سے چلتی ہوئی ٹیبل پر جاکر بیٹھ گئی۔

جی میڈم! آپ کیا لیں گی؟ویٹر مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ ایسی جگہوں پر جانے کا میرا پہلا تجربہ تھا، تو میں نے الٹا حسنین سے پوچھ لیا۔

آپ کیا لیں گے؟“ 

سر کی پسند کا تو ہمیں پتا ہے۔وہ ویٹر چمکتی آنکھیں لیے کچھ معنی خیزی سے بولا۔ 

کیا مطلب؟

کچھ نہیں تم اپنا آرڈر لکھوا۔حسنین جلدی سے بولا۔

جو یہ کھائیں وہی میرے لیے لے آئیں۔میں کچھ بے دلی سے بولی۔

شاندار سے لنچ اور حسنین کی محبت میں کب ظہر کا وقت گزر گیا مجھے پتا ہی نہ چلا۔ کھانے کے بعد اس نے دو کیپر میری طرف بڑھائے

یہ تمہارے لیے۔وہ ایک مہنگی شاپ کے بہترین ڈریسز تھے۔

یہ میں نہیں لے سکتی حسنین۔میں کچھ پریشان ہوکر بولی۔

رکھنے تو تمہیں پڑیں گے۔حسنین نے مجھے دھمکایا۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے اور وہ بیٹھا ہوا ان کو آرام سے دیکھ رہا تھا۔ منزل بہت قریب ہے میں منزل کے بہت قریب ہوں وہ خوشی سے گول گول گھوما۔

٭….٭….٭

گھر واپس آتے ہی میں نے وہ دونوں کیپر اپنی الماری میں چھپا دیے ورنہ اتنے مہنگے کپڑے دیکھ کر حوریہ مجھ سے ضرور سوال کرتی۔ فیشن کے بارے میں اس کی معلومات بڑی اپ ڈیٹ تھیں۔ آج تو کوچنگ جانے کا بھی دل نہ چاہ رہا تھا، لیکن جانا تو تھا ہی۔ کوچنگ سے واپسی پر میں آتے ہی سو گئی سارے دن کی تھکی ہوئی بھی تو تھی۔ آنکھ کھلی تو بہت زوروں کی بھوک لگ رہی تھی۔ سب گھر والے سوئے ہوئے تھے میں نے کھانا کھایا پھر چھت پر جانے والی سیڑھیوں پر موبائل لے کر آبیٹھی۔ پڑھنے میں آج کل بالکل دل نہیں لگ رہا تھا۔ چلو! کل سے پڑھوں گی میں نے تہیہ کرتے ہوئے حسنین کو کال ملائی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!