مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

وہ عورت سکتے کی کیفیت میں بیٹھی تھی اور اس کی پوری زندگی فلم کی طرح اس کے سامنے چل رہی تھی۔ دوست کی شادی میں ادائیں دکھاتی عورت، کسی مرد کو لبھا کے شادی کرنے والی عورت، چند سوکم کرانے اور کچھ رعایتوں کے لیے اپنی عزت گنوانے والی عورت، پیسوں کے لیے اقبال صاحب جیسے عیاش آدمی سے شادی کرنے والی عورت، اپنے شوہر کا بزنس پھیلانے کے لیے ہر طرح کا تعاون کرنے والی عورت، لیکن میں نے کبھی آخری حد پار نہیں کی، اس سفر میں تم نے اپنا وقار، اپنے بچے کھودیے اس کے اندر سے آواز آئی اور آخر میں ا س کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیٹی کی آنسو بھری آنکھیں آگئیں۔

آپ نے اچھا نہیں کیا امی۔اور اس کا ہاتھ میکانکی انداز میں اپنے شوہر کے ریوالور کی طرف بڑھ گیا۔

تھوڑی ہی دیر میں اس کے کمرے کا دروازہ اس کے نوکر اور حواس باختہ شوہر توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔

زندگی کی کہانی بس اتنی سی ہی ہوتی ہے کہ انسان اپنا مقصدِ حیات بھلائے اپنی بے لگام خواہشات کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور وقت مہلت ختم ہوجاتا ہے۔ دی اینڈ۔

عصر کی قسم بے شک انسان خسارے میں ہے۔

٭….٭….٭

میری اس دفعہ بھی ہائسٹ جی پی آئی تھی اور اسی لیے میں بہت خوش تھی۔ یہ میرا اپنے آپ سے وعدہ تھا کہ چاہے جتنے بھی مشکل حالات کیوں نہ ہوں میں نے اپنی پڑھائی کی طرف سے کبھی کوتاہی نہیں کرنی اور جلد سے جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ہے۔ بہت پریکٹس کے بعد میں نے اپنا دماغ ایسے سانچے میں ڈھال لیا تھا کہ چاہے میں جتنی بھی پریشان ہوتی پڑھتے وقت تمام پریشانیوں کا بٹن سوئچ آف کردیتی تھی۔ تمام کلاس فیلوز مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔

بھئی مجھے تو پتا ہے کہ پوزیشنز کس کس کی آئیں گی؟میری ایک کلاس فیلو بولی۔

اچھا کس کس کی؟یہ سوال میں نے پوچھا۔

بھئی پہلی تمہاری، دوسری ماریہ کی اور تیسری حسنین کی۔

ہاں! کہتی تو تم ٹھیک ہو لائبہ محنت بھی بہت کرتی ہے۔ماریہ نے مسکرا کر اس کی تائید کی اور پھر گفتگو کا موضوع بدل گیا۔

٭….٭….٭

اگلے دن یونیورسٹی میں رباب نے مجھے ایک کارڈ دیا۔

تمہاری شادی کا کارڈ ہے؟میں نے کارڈ لیتے ہوئے دل چسپی سے پوچھا۔

نہیں بھئی علیزہ کی شادی کا کارڈ ہے۔

اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے جبھی اس لڑکی کا پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا تھا۔میں نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا۔

اور اس نے تمہارے آنے کی خاص طور پر تاکید کی ہے۔رباب نے مجھے بتایا۔

تم مجھے علیزہ کا نمبر دے دو میں اس سے معذرت کرلوں گی آنے جانے کا مسئلہ ہوتا ہے پھر۔میرے دماغ میں آفس سے تھکے ہارے آئے ہوئے ماموں آگئے۔ نمبرز کے تبادلے کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنے اپنے راستے پر چل دیے۔

٭….٭….٭

میرا علیزہ کی شادی میں جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا، لیکن جب حوریہ نے سنا تو وہ میرے سر ہوگئی کہ ہمیں ضرور جانا چاہیے۔ وہ ایسے فنکشنز میں جانے کی بہت شوقین تھی پھر اسی کے اصرار پر ممانی نے ہمیں اجازت دے دی۔ ماموں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اب اس وقت ہم شادی کے فنکشن میں بیٹھے تھے۔

آحوریہ علیزہ سے مل کر آئیں۔

آپی آپ جائیں میں ٹھیک ہوں۔اسے اپنی دیوانی دوست مل گئی تھی اور اب وہ اس سے باتیں کرنے میں مشغول تھی۔

اچھا!“ میں نے مسکرا کر بولا۔

واعلیزہ! بہت پیاری لگ رہی ہو۔علیزہ واقعی میں بہت خوب صورت لگ رہی تھی، لیکن اس تعریفی جملے نے بھی اس کے اندر کوئی جنبش پیدا نہ کی۔

علیزہ کیا تم ٹھیک ہو؟میں نے اس کا ہاتھ ہلا کے پوچھا۔ وہ جیسے گہری نیند سے جاگی۔ 

ارے تم کب آئیں؟“ 

میں تو کب سے یہاں بیٹھی ہوں، تم پتا نہیں کن خیالوں میں ہو۔ علیزہ تم خوش نہیں لگ رہیں کیا کوئی پریشانی ہے؟میں نے اس سے پوچھا۔

پتا نہیں! بس مجھے اتنا پتا چل گیا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اور سنو تم بھی کسی کا اعتبار مت کرنا۔وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر سرگوشی میں بولی۔

مگر علیزہ!“ میں اس سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی، لیکن اس کی رشتے دار خواتین کے آنے پر مجھے خاموش ہونا پڑا۔ اس کے بعد میں پوری شادی میں الجھی ہوئی رہی۔

٭….٭….٭

وہ باریش شخص مفتی صاحب کے پاس سرجھکائے بیٹھا تھا۔ مفتی صاحب نے اس کا جائزہ لیا۔ حلیے سے وہ کسی اچھے گھر کا کھاتا پیتا فرد لگتا تھا۔

جی میاں آپ کا مسئلہ کیا ہے؟مفتی صاحب نے اسے مخاطب کیا۔

بات دراصل یوں ہے مفتی صاحب میں اپنے گھر کی کسی ایک دو خواتین کے ساتھ حج یا عمرے پر جاتا ہوں۔ یہ ہمارے گھر کا رواج ہے، لیکن اب کئی سال سے یہ ہونے لگا ہے کہ ہم جب بیت اللہ جانے کا قصد کرتے ہیں، تو عین وقت پر کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ ہمیں اس پروگرام کو ملتوی کرنا پڑتا ہے یا پھر سرے سے بلاوا آتا ہی نہیں۔“ 

میاں سب سے پہلے تو میں آپ پر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہر سال حج اور عمرہ ضروری نہیں، لیکن اگر آپ کرتے ہی ہیں تو پھر آپ اپنے معاملات زندگی پر دوبارہ نظرثانی کریں کہ ہوسکتا ہے آپ سے ایسی کیا کوتاہی ہوئی ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔

نہیں نہیں مفتی صاحب۔وہ شخص ان کی بات کاٹ کر بولا ہم سب پنج وقتہ نمازی ہیں اور دوسرے تمام معاملات بھی پوری ذمے داری سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس شخص کے لہجے میں محسوس کیے جانے والا فخر موجود تھا۔

اور حقوق العباد؟مفتی صاحب نے سوال کیا۔

جی جی! مفتی صاحب وہ بھی میں اپنے بہن بھائی اور دوسرے تمام رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن پھر انہیں خیال آیااسےتو وہ بھول ہی گئے۔ اور وہ جہاں تھا وہیں ساکت ہوگیا۔ انہوں نے تو اپنے بیٹے کے انتقال پربھی جانے کی زحمت نہ کی تھی اور اپنی بیٹی کی بھی گھر سے نکالنے کے بعد کوئی خبر نہ لی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!