مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

اپنے آپ سے ہار مانتے ہوئے بالآخر میں نے ماریہ کو ساری بات بتاہی دی اور حسب توقع ماریہ اچھل پڑی۔

کیا! یہ کب ہوا؟

جس دن تم نہیں آئیں تھیں۔“ 

تو تم نے پھر کیا جواب دیا؟ماریہ نے مجھ سے پوچھا۔

فی الحال تو کچھ بھی نہیں پرسوں میسجز بھی آئے تھے پھر میں نے منع کردیا۔

پاگل لڑکی تمہیں پتا ہے اس کے پیچھے لڑکیاں پاگل ہیں اور میرے پاپا کے جاننے والوں میں سے ہیں اس کے ڈیڈ بزنس کی دنیا کا جانا مانا نام ہیں۔ میں ہوتی تمہاری جگہ تو فوراً ہاں کردیتی۔جوش کے مارے ماریہ کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔

اچھا! میں سوچوں گی لیکن اس کو میسجز پھر بھی نہیں کرنے چاہئیں تھے۔میں نے اپنی صفائی دی۔

تو کیا ہوا؟ آج تک حسنین نے کسی بھی لڑکی سے کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کی۔ وہ تو فالتو بات تک نہیں کرتا کسی لڑکی سے۔ پاگل ہو تم بھی پوری۔ماریہ خفگی سے بولی۔ 

٭….٭….٭

دادی کے گھر میں اگر میرا کوئی ہمدرد تھا، تو وہ عثمان اور فریحہ تھے۔ دونوں کو جب موقع ملتا میری حوصلہ افزائی کرنے اور چپ چاپ میری ضرورت کی چیزیں میرے ہاتھ پر رکھ دیتے، لیکن اصل سر کا درد میری دادی، بیوہ پھوپھو اور ان کی بیٹیاں تھیں۔ آتے جاتے طنز کے تیر برساتیں اور جب کہیں مجھے دیکھتیں تو چٹخارے لے لے کر میری امی کے بے باکی کے قصے سناتیں۔ ابو مجھے اس گھر میں لاکر لاتعلق ہوچکے اور اپنی ذمے داری پوری کرچکے تھے۔

ایسے ہی ایک دن جب میں دادی کے لے یخنی بنارہی تھی، تو آمنہ (پھوپھو کی بیٹی) میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔

لائبہ! ایک بات تو بتا۔

ہاں پوچھو؟میں مصروف سے لہجے میں بولی۔

یہ تم شکل میں تو اپنی امی جیسی نہیں ہو کردار کے بارے میں کیا خیال ہے؟وہ ذرا سی ہنس کر بولی۔

اب اگر مزید ایک لفظ بھی بولا، تو میں منہ نوچ لوں گی تمہارا۔میں پلٹ کر غرائی۔

ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھ سے ایسے بات کرنے کی؟آمنہ چیخی۔ اسی دن رات میں میری عدالت لگ گئی۔ پھوپھو اپنے بھائی یعنی میرے ابا سے فریاد کررہی تھیں۔

بھائی دیکھیں میں بیوہ ہوں نا اور میرے بچوں کے سر پر باپ نہیں اسی لیے ان کی اور میری کوئی عزت نہیں۔

ہاں ماموں آمنہ آگے بڑھ کر بولی۔ اس نے ابھی بھی دوپٹا نماز کے اسٹائل میں باندھا ہوا تھا۔ میں تو کچن میں پانی لینے گئی تھی اس نے خود بدتمیزی شروع کی تھی۔اتنا جھوٹ سن کر میری آنکھیں کھلی رہ گئیں۔

نہیں ابا یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ امی کو برا کہہ رہی تھی اسی لیے میں نے اسے برا بھلا کہا۔

ہاں تو جیسی تیری ماں تھی ویسا ہی تو بولا جائے گا۔پھوپھو چہک کر بولیں۔ ان ماں بیٹی کا تو کام ہی یہی ہے۔میری سوتیلی ماں (ابو کی سابقہ منگیتر) جن سے ابا نے امی سے طلاق کے بعد شادی کرلی تھی۔ حقارت سے بولیں۔

معافی مانگو لائبہ ابھی آمنہ سے۔ابو نے اتنے سارے گواہوں کی موجودگی میں میرا جرم ثابت کردیا۔ 

ابا آپ میری بات تو سنیں۔میں نے احتجاج کیا، لیکن آخر کار مجھے معافی مانگنی ہی پڑی۔

٭….٭….٭

لائبہ! حسنین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ماریہ نے آکر مجھے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بتایا۔ 

اوہ! کب کیسے؟میں واقعتاً پریشان ہوگئی۔

پتا نہیں یہ سب تو مجھے نہیں پتا اس کے گروپ کے فیاض اور ایاز باتیں کررہے تھے، تو میں نے سنا۔اس دن رات میں بہت کش مکش کے بعد میں نے حسنین کو فون کیا۔ دوسری طرف سے کال فوراً ہی ریسیو کرلی گئی۔آج تو بہت خوش قسمت دن ہے میرا جو آپ نے کال کی لائبہ فرقان۔“ 

جی وہ آپ کے ایکسیڈنٹ کا پتا چلا ماریہ سے اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟پھر کچھ دیر بعد اسے اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔

٭….٭….٭

کچھ دن یونہی خاموشی سے سرک گئے۔ پھر ایک دن یونیورسٹی گئی تو حسنین سامنے ہی کھڑا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ ہلکے سے مسکرایا۔ 

اب کیسی طبیعت ہے؟

بہت بہتر۔اس نے مسکرا کے جواب دیا۔

اپنا خیال رکھنا۔میں نے کہا اور آگے بڑھ گئی۔ گھر گئی تو وہی لگی بندھی روٹین تھی۔ جب تھک ہار کے بستر پر لیٹی تو موبائل کی اسکرین چمکی۔ دیکھا تو حسنین کا میسج تھا۔ میں نے موبائل خاموشی سے رکھ دیا اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔

٭….٭….٭

لائبہ میں ایک ہفتے کی چھٹی کروں گی۔ماریہ نے مجھے پیر جھلاتے ہوئے اطلاع دی۔

ایک ہفتہ! کیوں بھئی؟یار وہ کزن کی شادی ہے نہ تو اسلام آباد جانا ہے۔

اچھا!“ میں نے جواب دیا۔

اور تمہیں پتا ہے علی کی ماما نے میرے لیے نیو ڈریس بھی دیا ہے۔ بننے کے لیے ڈیزائنر کے پاس تمہیں پتا ہے اس کی کیا قیمت ہے؟اس نے میرے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی جواب بھی دیا۔ 

”52000 اور اس کا جو ورک ہے نا وہ تو بہت ہی زبردست ہے۔ میں تمہیں دکھاں گی۔

ہوں!“ میں نے بے دلی سے جواب دیا۔ میں اور ماریہ باتیں کررہی تھیں کہ حسنین چلتا ہوا آیا۔

ماریہ اور لائبہ میرے گھر پر ایک چھوٹی سی پارٹی ہے دوستوں کے لیے آپ دونوں ضرور آیئے گا اور اس دفعہ لائبہ آپ کو آنا ہی ہوگا۔

یہ اگر نہیں آئی تو میں اسے لے آں گی آپ فکر نہ کریں۔ماریہ جھٹ سے بولی۔

دیکھا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اچھا خاصا شریف بندہ ہے۔ماریہ اس کے جانے کے بعد بولی۔

اچھا ہے اس بہانے تم اس کی فیملی سے بھی مل لوگی۔

ماریہ مجھے اجازت نہیں ملے گی۔ اجازت تو تمہیں لینی پڑے گی اور پک اینڈ ڈراپ میں دے دوں گی۔

اچھا ٹھیک ہے۔ میں بات کروں گی۔ رات کو ماموں سے اجازت لینے گئی تو ماموں مان تو گئے لیکن کہنے لگے۔ 

بیٹا! جاگی کیسے؟ میں تو دیر سے آتا ہوں۔

ماموں جس کی پارٹی ہے وہی پک اینڈ ڈراپ دے گی۔میں نے جھوٹ سچ ملا کے بولا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!