مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

علی میں ماما کی طرف آئی ہوں تم بھی وہیں آجانا۔وہ اپنی نئی سیکرٹری کے ساتھ مصروف تھا کہ ماریہ کی کال نے اسے بدمزہ کردیا۔

اوکے! میں کوشش کروں گا آنے کی وعدہ نہیں کرتا۔اس نے جلدی سے بات ختم کی۔

اچھا سر کیا اب میں جاں؟سیکرٹری نے بڑی ادا کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی۔

ہاں تم اب جاسکتی ہو۔اس کی نظروں سے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔

بچ!“ اس کے نکل جانے کے بعد اس نے اسے گالی دی تھی۔ اسے دنیا کی ہر عورت بدکردار لگتی تھی۔ ساری عورتیں بچ تھیں تو وہ خود کیا تھا؟

اس دن وہ آفس سے جلدی اٹھ آیا تھا ماریہ کے گھر جانے کے لیے بالکل نہیں۔

سلام صاحب۔ملازم نے اسے دیکھ کر جلدی سے سلام جھاڑا۔

صاحب چائے لاں؟

نہیں اور مجھے ایک گھنٹے تک ڈسٹرب مت کرنا۔

جی صاحب۔ملازم کچن کی طرف واپس چلا گیا۔

یہاں بھی کچھ نہیں ہے اب حسنین نے دوسری دراز کھولی وہ جلدی جلدی تمام الماریوںکی تلاشی لے رہا تھا۔ الماریوں کی تلاشی لینے کے بعد بھی اسے اطمینان نہ ہوا تو اس نے ماریہ کی ٹیب کھول لی۔ ماریہ کی فیس بک آئی ڈی کھول کر چیک کرنے کے بعد اسے کچھ اطمینان ہوا۔ ماریہ کی عادت تھی کہ وہ اپنا اکانٹ لاگ آف نہیں کرتی تھی۔

ہاں ماریہ تم ابھی نکلنا نہیں میں آرہا ہوںتمہیں پک کرنے۔وہ اب بڑے خوش گوار موڈ میں ماریہ سے بات کررہا تھا۔ 

آنٹی سے بھی ملے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں۔وہ اب چابی اور موبائل اٹھا کر گنگناتا ہوا باہر نکل رہا تھا۔

٭….٭….٭

یہ ایک اور عالیشان گھرتھا۔ کٹے ہوئے بالوں اور بوٹاکس ٹریٹمنٹ کے بعد وہ آنٹی اپنی عمر سے کہیں کم نظر آرہی تھیں۔

یوگا میں ایڈمیشن لوں گی پھر سے پچھلے کچھ مہینوں تو بہت پریشانی رہی ہے۔وہ اپنے برابر بیٹھے میاں سے مخاطب ہوئیں۔

ہاں لے لینا اب تو حسنین بھی سیٹ ہوگیا ہے۔ اس کی طرف سے بھی کوئی پریشانی نہیں۔“ 

وہی تو اس کی ذہنی حالت کی طرف سے تو مجھے بہت پریشانی رہتی تھی میں تو ڈر تی تھی کہ شادی کے بعد بھی ماریہ کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔

یہ سائیکاٹرسٹ ہے بھی تو بہت اچھا، لیکن پتا نہیں حسنین اس دفعہ اپنے سیشن کے لیے گیا کہ نہیں؟

ارے بھئی ٹھیک ہوگیا ہے اب وہ، ایسا نا ہوتا تو ماریہ کیا شکایت نہ کرتی۔ان کے میاں نے اخبار کا صفحہ پلٹتے ہوئے تبصرہ کیا۔ 

٭….٭….٭

بول کون تھا وہ جس کے ساتھ تو گل چھرّے اڑا رہی تھی؟حسنین نے ماریہ کے بال زور سے کھینچے۔

میں تو صرف بات کررہی تھی میں نے کچھ نہیں کیا۔اس سے زندگی میں پہلی بار کسی نے ایسا سلوک کیا تھا، تکلیف کی شدت سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔

میرے بال چھوڑو میں ابھی ماما کو فون کرتی ہوں۔ماریہ اپنے فون کی طرف لپکی۔ جواب میں ایک زور دار تھپڑ اسے پڑا تھا۔

اور یہ فون تو میں اب اپنے پاس رکھوں گا فساد کی جڑ یہی ہے۔وہ دروازہ پٹخ کر باہر نکل گیا تھا۔ جب کہ ماریہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے سکتے میں تھی کہ یہ آخر ہوا کیا ہے؟

بی بی جی! یہ جوس پی لیں۔رات میں جانے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی تھی بیٹھے بیٹھے۔

ہاں رکھ دو یہاں میں پی لوں گی تم جا۔اپنے دکھتے سر کو تھام کر وہ سوچنے لگی کہ اسے اب کیا کرنا چاہیے۔ ایسے تو میں اسے نہیں چھوڑوں گی مجھے ماما کو ضرور بتانا چاہیے اس نے اپنا فون تلاش کیا۔ 

اوہ شٹ وہ تو علی کے پاس ہے۔ وہ کیا سمجھتا ہے موبائل لے لے گا تو میں کسی سے بات نہیں کرسکوں گی۔ماریہ کا خون غصے سے کھول اٹھا۔

لینڈ لائن سے کرتی ہوں ارے یہ کیا؟ اس کا بھی تار کٹا ہوا تھا۔ ٹیب میں اسکا ئپ ہے ماما کو کال کرتی ہوں اس سے۔ ٹیب ٹیب کہاں ہے؟وہ پاگلوں کی طرح چیزیں الٹ پلٹ کررہی تھی تھک ہار کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگئی۔ مجھے اب یہاں نہیں رہنا اس نے فیصلہ کن انداز میں پرس اٹھایا لانج عبور کرکے وہ باہر آگئی لیکن یہ کیا مین ڈور پر بیٹھے گارڈ نے اسے روک لیا۔

بی بی جی کوئی گاڑی نہیں ہے اس وقت گھر میں آپ کیسے جائیں گی؟

ٹھیک ہے مجھے ٹیکسی منگوادو۔ماریہ نے ہزار کا نوٹ اسے پکڑایا۔

بی بی جی۔گارڈ کچھ پریشانی سے گویا ہوا۔

صاحب منع کرکے گئے ہیں کہ آپ ان کی غیر موجودگی میں گھر سے باہر نہ جائیں۔اس بات پر ماریہ کا دماغ گھوم گیا۔

ہٹو میرے راستے سے۔وہ غصے سے چلائی۔

نہیں بی بی جی صاحب بہت ناراض ہوں گے میری نوکری کا سوال ہے۔وہ دروازے پر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔

آہ! کیا کروں؟وہ غصے سے پاو¿ں پٹختے ہوئے واپس آگئی۔

ہیلو ڈارلنگ! سنا ہے تم نے گھر میں کافی ہنگامہ کیا ہے۔شام میں چہکتا مہکتا حسنین اس کے سامنے تھا۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اس طرح بند رکھنے کی۔ماریہ جو بھری بیٹھی تھی غصے سے چلائی۔ 

آواز نیچے!“ وہ غرایا۔

یہ لو اپنی ماں سے بات کرو صبح فون آیا تھا میرے پا س اور خبردار جو ایک لفظ منہ سے نکالا ورنہ تیزاب پھینک دوں گا تجھ پر بھی اور تیری ماں پر بھی۔اس وقت وہ کہیں سے بھی پڑھا لکھا نہیں لگ رہا تھا۔

اوکے اوکے! میں کرتی ہوں فون۔

ہیلو ماما! ہاں میں ٹھیک ہوں۔اس نے آواز کی نمی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

نہیں وہ صبح فون کرنے کا ٹائم نہیں ملا۔علی سامنے بیٹھا لائٹر جلا کر اب اپنا سگار سلگا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی تپش تھی۔

ہاں ماما! علی بھی ٹھیک ہے۔وہ کن انکھیوں سے علی کو دیکھتے ہوئے بولی۔ ٹھیک ہے میں آپ سے بعد میں بات کروں گی بائے۔ماریہ کو علی سے بے پناہ خوف محسوس ہورہا تھا۔ مجھے تو یہ نفسیاتی مریض لگ رہا ہے کیا کروں میں؟ ماریہ خوف سے لرزتے ہوئے دل میں سوچ رہی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!