مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

امی کی شادی ہوگئی اور پیچھے رہ گئے میں اور سفیان۔ سب کچھ ویسا ہی تھا اب امی کبھی کبھار آتیں اور نانی کی مٹھی میں پیسے تھما کر چلی جاتیں۔ میں اور سفیان تقریباً روز ہی ممانی سے کسی نہ کسی بات پر پٹتے۔ میری پوری کوشش ہوتی کہ ممانی کو شکایت کا موقع نہ دوں، لیکن سفیان کوئی نہ کوئی گڑ بڑ کردیتا کبھی دانستہ کبھی نادانستہ۔ سفیان اپنا زیادہ وقت باہر گزارنے لگا تھا کبھی تو باہر سے ہی مجھے بستہ پکڑا کر چلا جاتا۔

ایک دن سفیان کو بخار تھا، تو میں اکیلی اسکول چلی گئی۔ واپسی پر ایک شخص نے مجھے روک کر پوچھا۔

 ”اے لڑکی سفیان کو جانتی ہو؟میں نے اثبات میں سرہلایا اور کہا۔

 ”ہاں وہ میرا بھائی ہے۔

 ”آج اسکول کیوں نہیں آیا وہ؟بات کرتے ہوئے اس شخص کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں اور جیسے اندر تک اتری جارہی تھیں۔

 ”طبیعت صحیح نہیں ہے اس کی۔میں نے جلدی سے جواب دے کر جان چھڑائی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف بڑھ گئی۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر میں نے گلی کے کونے کی طرف دیکھا۔ وہ شخص اب بھی مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں جلدی سے گھر میں داخل ہوگئی۔ دل میں فیصلہ کرتے ہوئے کہ اب جب امی آئیں گی تو ضرور بات کروں گی کہ بھائی کن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے۔

٭….٭….٭

آج کل یونیورسٹی کی رونقیں ماند پڑی ہوئی تھیں۔ ایک ہفتے بعد ہونے والے امتحانوں کی وجہ سے میں اور ماریہ بھی سب کچھ بھلائے پڑھائی میں مصروف تھے۔ ایک ٹاپک ایسا تھا جو میرے اور ماریہ دونوں کی سمجھ میں نہ آیا تھا۔

 ”کس سے سمجھیں یہ؟ماریہ پریشانی سے بولی۔

 ”ایسا کرتے ہیں علیزہ سے پوچھ کر دیکھتی ہوں۔ اسے سمجھ آگیا ہوگا۔میں اپنا رجسٹر لے کر علیزہ کے پاس آئی۔

 ”علیزہ ایک منٹ بات سننا پلیز۔علیزہ نے ایک دم چونک کر سراٹھایا۔

 ”ہاں بولو۔میں جو اس سے ٹاپک کا پوچھنے آئی تھی متفکر ہوکر پوچھنے لگی۔

 ”کیا ہوا علیزہ تمہاری طبیعت صحیح ہے؟ آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہورہی ہیں؟“ 

ہاں بس سر میں درد ہے اچھا پھر تم رہنے دو میں کسی اور سے پوچھ لیتی ہوں۔اتنے میں مجھے حسنین دکھائی دیا تو میں جھجکتے ہوئے اس کے پاس گئی۔

 ”حسنین ایک منٹ بات سنیے گا۔“ 

جی بولیں!“ 

آپ کو اگر یہ ٹاپک سمجھ آگیا ہو تو پلیز سمجھادیں۔ میرے اور ماریہ کے بالکل سمجھ نہیں آرہا۔“ 

ہاں کیوں نہیں!“ پھر حسنین نے مجھے اور ماریہ کو بہت اچھے طریقے سے وہ ٹاپک سمجھا دیا۔ اس کے بات کرنے کا طریقہ بھی بہت شائستہ اور دھیما تھا۔

٭….٭….٭

آج اتوار ہے، شاید امی آئیں۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے سوچا۔ لیکن وہ اتوار بھی پچھلے تین اتوار کی طرح ہی امی کے انتظار میں گزر گیا۔

 ”نانی، امی کب آئیں گی؟میں دوسرے دن نانی کے سر پر سوار ہوگئی۔ نانی نے چھالیا کترتے ہوئے کہا۔

 ”آئے ابھی تو وہ گھومنے پھرنے نکلی ہوئی ہے۔ تھوڑے دن تو لگیں گے اب انسان اتنا پیسہ خرچ کرکے جاتا ہے، تو کچھ دن تو لگا کر ہی آتا ہے۔اور میرے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا کیا ہم امی کے لیے اتنے بھی ضروری نہیں کہ وہ جانے سے پہلے ہمیں بتا، تو جاتیں۔

اسی دن رات کو سفیان کا بخار پھر بہت تیز ہوگیا تھا اتنا کہ ممانی تک پریشان ہوگئیں تھیں۔ میری ساری رات اس کے سرہانے بیٹھے ہوئے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے ہوئے گزر گئی۔ صبح ہوتے ہی میں نانی کے سر ہوگئی۔

 ”نانی آپ امی کو فون کرکے بتا تو دیں دیکھیے گا وہ فوراً آجائیں گی۔نانی بھی سفیان کی رات کی حالت سے گھبرائی ہوئی تھیں سو سرہلا کے مجھے تسلی دی کہ:

 ”ہاں کچھ وقت اور اوپر ہوجائے پھر کرتی ہوں فون اسے۔

میں خاموشی سے بھائی کے پاس آکر دوبارہ بیٹھ گئی۔ رات کی نسبت اس وقت اس کی طبیعت زیادہ بہتر تھی۔

 ”بھائی تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاں؟میں نے بھائی سے پوچھا۔

 ”نہیں۔اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔

 ”ارے بھائی تمہیں پتا ہے کہ ایک آدمی تمہارا مجھ سے پوچھ رہا تھا جس دن تم اسکول نہیں گئے تھے۔سفیان نے اپنی آنکھیں فٹ سے کھول دیں۔

 ”اور تم نے کیا کہا؟میں نے اسے بتادیا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں، لیکن مجھے وہ آدمی کچھ ٹھیک نہیں لگا تھا عجیب طریقے سے مجھے گھور رہا تھا۔ کون تھا وہ شخص بھائی؟لیکن سفیان شاید سوچکا تھا اسی لیے میں خاموشی سے باہر آگئی۔

٭….٭….٭

آج تنخواہ ملنے پر میں نے باجی کے لیے تھوڑے سے پھل خریدے، میں کوشش کرتی تھی کہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ خرید سکوں۔ جب میں صحن میں داخل ہوئی تو ان کے پاس ایک نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اور وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔

 ”دیکھو بیٹا پسند کی شادی کرنے میں کوئی برائی نہیں، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تمہارا جو دل چاہے کرو۔ اب دیکھو آج تمہیں تمہارے بھائی نے دیکھا اس لڑکے کے ساتھ تو بات گھر میں ہی رہ گئی، لیکن کل کو اگر کوئی خاندان والا تمہیں اس کے ساتھ دیکھ لے گا، تو سوچا ہے تم نے کہ کیا عزت رہ جائے گی تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی؟ اس لڑکے کو لااپنے گھر والوں سے ملوااور نکاح کرلو۔ میں تو تمہیں سمجھا ہی سکتی ہوں آگے تمہاری مرضی۔جی باجی اس لڑکی نے مو¿دب انداز میں کہا اور جانے کے لیے اٹھنے لگی۔

 ”اور بات سنو!“ اور لڑکی جو جانے کے لیے چپل پہن رہی تھی وہ مڑی جی باجی۔

 ”یاد رہے۔ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔

 ”باجی آپ کتنی اچھی باتیں کرتی ہیں نا۔میں ان سے بولی۔

 ”یہ تم پھر کچھ لے آئی ہو۔انہوں نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ اپنی تعریف کو وہ ایسے ہی نظر انداز کردیا کرتی تھیں۔

 ”ایسی کوئی خاص چیز نہیں ہے اور آپ بس کھا ضرور لیجیے گا۔میں مسکراتے ہوئے بولی۔

 ”چلو ٹھیک ہے ابھی دونوں ماں بیٹی مل کر کھائیں گے۔ پہلے نماز پڑھ لو۔باجی خود بھی نماز کی پابندی کرتی تھیں اور اپنے پاس آنے والوں کو بھی نماز کی تلقین کرتی تھیں اور انہی کی صحبت نے مجھے بھی پانچ وقت کا نمازی بنادیا تھا۔ اب تو میں کوئی نماز چھوڑ ہی نہیں سکتی۔ میں نے جائے نماز بچھاتے ہوئے سوچا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!