مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

لائبہ تم نے سر ریحان کے نوٹس فوٹو کاپی کرا لیے؟میںجو لکھنے میں مگن تھی چونک کر سر اٹھایا۔

 ”نہیں مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔

تو چلو ابھی کرالیتے ہیں۔

 ”ٹھیک ہے تم میرے بھی کرا لاجب تک میں میڈم راحیلہ کے نوٹس بنا رہی ہوں۔میںنے بیگ سے ماریہ کو پیسے نکال کر دیے۔

 ”میڈم راحیلہ کے نوٹس بنالیے تم نے؟ماریہ نے پوچھا۔ 

تقریباً بس آخر کا کچھ کام رہ گیا ہے۔میں نے کہا۔

 ”اچھا تو پھر مجھے بھی دے دینا تمہیں تو پتا ہی ہے میں کتنی مصروف رہتی ہوں۔ماریہ بے نیازی سے بولی۔

 ”ہاں کیوں نہیں تم تو میری سب سے اچھی دوست ہو۔

میں چاہتے ہوئے بھی اسے یہ نہ جتاسکی کہ تم سے زیادہ میں مصروف رہتی ہوں۔ شام میں کوچنگ میں پڑھانا اور پھر رات گئے تک اپنا پڑھنا اور گھر کے کام اور ماریہ کی واحد مصروفیت پارٹیز میں جانا اور پڑھنا تھیں، لیکن میں ایسا اس لیے نہ کرسکی کہ میں ماریہ کی شخصیت اور اس کے قیمتی ملبوسات سے مرعوب تھی اور دوسرا یہ کہ میں محبت اور رشتوں کی ترسی ہوئی تھی اس لیے اپنی دوست کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ بچپن کی محرومیوں اور ناقص تربیت نے میرے اندر کئی جھول پیدا کردیے تھے۔

٭….٭….٭

جمعہ والے دن اسکول سے واپسی بہت مشکل لگا کرتی تھی ہفتے اور اتوار کی چھٹی جو ہوتی تھی سننے والوں کو شاید میں خبطی لگوں، لیکن اگر آپ کو اسکول سے واپسی پر گھر کے برتن مع جھاڑو پونچھے کے کرنے پڑیں اور نانی جمع ممانی کی جھڑکیاں سننی پڑیں، تو آپ بھی ایسا ہی سوچیں۔ مہمانوں کی آمد پر ناشتا رکھنے اور برتن اٹھانے کی ذمے داری میری ہی ہوتی تھی جوکہ کچھ بڑے ہونے تک چائے بنانے سے لے کر برتن دھونے تک پوری ہی میرے سر پر آگئی۔ اکثر چائے بنانے میں ہاتھ جل جاتے یا برتن ٹوٹ جاتے تو ممانی سے بے بھاکی سننا پڑتیں۔

ممانی کو حوریہ سے لاڈ پیار کرتا دیکھ کر ایک حسرت دل میں جاگتی کہ کاش یہ مجھے بھی ایسے ہی پیار کریں اور اس حسرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں ممانی کی ہر ذمے داری اپنے سر پر لینے لگی۔ کام کتنا بھی مشکل کیوں نہ ہوتا میری پوری کوشش ہوتی کہ وہ کام میں خود کروں اور بدلے میں خواہش ہوتی صرف ایک پیار بھری تھپکی کی۔

٭….٭….٭

آج گرمی کچھ زیادہ ہی تھی یونیورسٹی سے واپسی پے روٹ کی بس بھی بہت دیر میں ملی۔ اللہ کرے آج دال چاول بنے ہوں میں نے گھر کی طرف جاتے ہوئے دل ہی دل میں دعا کی۔

 گھر میں داخل ہوتے ہی بریانی کی خوشبو نے استقبال کیا۔ منہ دھوتے ہی میں کچن میں آگئی اور بے تابی سے ہنڈیا کا ڈھکن اٹھایا، لیکن یہ کیا؟ پیندے میں ذرا سا سالن لگا تھا۔ دوسرے برتن میں ہوگا میں نے بجھے دل سے اپنے آپ کو تسلی دی، لیکن اس میں بھی ایک دو نوالے سے زیادہ چاول نہ تھے۔ یہ پہلی دفعہ نا تھا میرے پاس پیسے ہوتے تو میں باہر سے کچھ لے آتی تھی ورنہ بھوکا رہنا پڑتا۔ فریج میں دیکھا، تو آٹا موجود تھا۔ ایک روٹی بناکر پیندے میں لگے سالن کے ساتھ کھائی اور ظہر کی نماز پڑھ کر کوچنگ کے لیے نکل آئی۔ دوپہر کے اس پہر گلیاں سنسان ہوتی تھیں، لیکن اب تو عادت سی ہوگئی تھی۔ کوچنگ میں داخل ہوتے ہی عافیہ مل گئی۔ عافیہ مزاجاً باتونی اور نرم دل لڑکی تھی۔

 ”کیسی ہو؟ آج تو بہت گرمی ہے۔عافیہ نے مجھے پسینہ پونچھتے دیکھ کر پوچھا۔

 ”ہاں گرمی تو ہے، لیکن آج میری ایکسٹرا کلاس تھی اس لیے جلدی آنا پڑا اور ویسے بھی آج تو پہلی ہے، تو کیا گرمی کیا سردی آج تو آنا ہی تھا۔میں ہنس کر بولی۔

 ”اچھا یہ بتارابعہ کی شادی کی تیاری کی؟عافیہ نے مجھ سے پوچھا۔ رابطہ ہماری مشترکہ سہیلی تھی۔ عافیہ تین چار گھر چھوڑ کر رہتی تھی اور رابعہ گلی کے آخر میں۔ کوچنگ میں نوکری بھی عافیہ کے توسط سے ملی تھی۔ عافیہ یہاں پر انگلش پڑھاتی تھی اور میں بائیو اور فزکس۔

 ”کپڑے تو وہی پرانے پہنوں گی تحفہ سمجھ نہیں آرہا کیا دوں؟میں یہ بول کر تحفے پر اٹھنے والی رقم کے بارے سوچنے لگی۔

 ”چلو ایسا کرتے ہیں آج واپسی پر بازار چلتے ہیں جو بھی تحفہ خریدیں گے پیسے آدھے آدھے کرلیں گے۔عافیہ نے مشورہ دیا۔

 ”ہاں یہ ٹھیک ہے۔ کلاس کے بعد بات کرتے ہیں۔میں اٹھتے ہوئے بولی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!