مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

آج مجھے یونیورسٹی جانا تھا اپنی ڈگری نکلوانے کے لیے۔

آپی آپ چلی جائیں گی یا میں آپ کے ساتھ چلوں؟حوریہ فکر مندی سے پوچھ رہی تھی۔ 

ارے نہیں چھٹکی پریشانی کی کوئی بات نہیں بس میں جلدی آجاں گی۔یونیورسٹی پہنچ کر ٹائم گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔

ان فارمز پر اپنی ڈین کے سائن کروا کر لائیں۔کانٹر پر بیٹھی خاتون نے فارمز میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جی میں نے گردن ہلائی۔ ڈیپارٹمنٹ میں کوئی بھی مس نہ تھی سوائے ایک مس کے۔

میڈم تو ابھی نہیں ہیں ایک گھنٹے بعد آیئے گا۔

اچھا ٹھیک ہے۔میں نے گردن ہلائی۔ گرمی بہت تھی میں کامن روم کے بجائے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئی جہاں کلاسز سے ذرا ہٹ کر نماز کی جگہ تھی۔ اس وقت یہ جگہ سنسان تھی میں وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گئی۔ یہ جگہ بہت پرسکون اور ٹھنڈی تھی اور قدرے تاریک بھی۔ حوریہ کو دیر ہوجانے کا میسج کرکے میں آنکھیں موند کر بیٹھ گئی۔

جانے کتنی دیر گزری جب کسی لڑکی کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ میں کیا بیٹھے بیٹھے سوگئی تھی۔ میں نے حیران ہوکر گھڑی کی طرف دیکھا۔

اوہ ہو! ابھی تو صرف پندرہ منٹ ہی گزرے ہیں۔ آپ کون سے ڈیپارٹمنٹ کی ہیں؟وہ لڑکی دوسرے کونے میں بیٹھی تھی جب کہ میں دروازے کے پاس بیٹھی تھی۔ اسی لیے قدرے بلند آواز میں پوچھا، لیکن وہ لڑکی چہرہ جھکائے بیٹھی رہی۔ عجیب بددماغ لڑکی ہے۔ میں منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ اسکارف سے اس کا آدھے سے زیادہ چہرہ ڈھکا تھا صرف ہونٹ اور ٹھوڑی نظر آرہی تھی۔

آپ کیا پڑھ رہی ہیں؟میں نے اس کی طرف کھسک کر ا س کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اب قدرے بلند آواز میں اپنے الفاظ دہرانے لگی، تو محترمہ کانوں سے بہری نہیں، میں نے دل میں سوچااور یونہی بے توجیہی سے ا س کے الفاظ سننے لگی جو کہہ رہی تھی۔ 

اے ابن آدم!

ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے 

ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے 

ہاں اگر تونے سپرد کردیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے 

تو میں تجھے وہ بھی دوں گا جو تیری چاہت ہے

اور اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے 

تو میں تھکادوں گا تجھے اس میں جو تیری چاہت ہے

پھر وہی ہوگا جو میری چاہت ہے۔

وہ لڑکی اپنی نرم آواز میں اب بھی وہی دہرا رہی تھی اور میں جیسے سن ہوکر رہ گئی تھی۔ میںبھی تو یہی کررہی ہوں۔ میں نے بھی تو اللہ سے ضد لگا لی ہے کہ میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا۔ جب اسے میری ضرورت نہیں تو مجھے بھی اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ یہ حدیث آج کل بار بار میری نظروں کے سامنے آرہی ہے۔ کسی نہ کسی ذریعے سے، تو کیا اللہ مجھے بتا رہا ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اور مجھے اس کی رضا میں راضی رہنا چاہیے ورنہ میں ساری زندگی اسی طرح کسی سراب کے پیچھے بھاگتی رہوں گی اور جب سے میں تھک ہی تو رہی ہوں۔ جب سے میں نے حسنین کے پیچھے بھاگنا شروع کیا تھا۔ مجھے یک دم بے پناہ خوف نے آگھیرا۔ میں کس سے ضد لگا کر بیٹھ گئی تھی وہ جسے اونگھ آتی ہے نہ نیند جو غفور اور رحیم ہے تو جبّار اور قہار بھی ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے میرے پورے جسم پر لرزہ طاری تھا۔

چلو یہاں سے بھاگ چلیں۔اس نے سرگوشی میں کہا، لیکن تھی کوئی طاقت جس نے مجھے وہاں بٹھا رکھا تھا۔ میں کسی تنویمی کیفیت میں چلتی ہوئی اس لڑکی کے سامنے جا بیٹھی۔

میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میںنے ساری زندگی بہت محرومی میں گزاری ہے۔میں نے جیسے سرگوشی کی۔ اس نے حدیث پڑھنا بند کردی اور جیسے سرگوشی میں بولی۔

بے شک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔اس کی آواز میں بہت مٹھاس اور تاثیر تھی۔

اللہ مجھے بھول گیا ہے وہ میری کوئی بات نہیں سنتا۔میں نے شکوہ کیا۔

نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بے زار ہوگیا ہے۔“ 

(سورة الضحیٰ۔3)

اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کے اطراف میں ہلکی سی روشنی تھی ٹھنڈی میٹھی سی۔

میرے ساتھ کبھی اچھا نہیں ہوتا میں نے رو رو کر خدا سے اسے مانگا تھا۔اس نے اپنی چمک دار انتہائی چمک دار نظریں میرے اوپر گاڑدیں۔

ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

(سورة البقرہ۔216) 

اس کی آنکھیں بہت چمک دار تھیں اتنی چمک دار کہ مجھ سے ان میں دیکھا ہی نہ گیا۔

میں بہت گناہ گار ہوں کیا کروں؟میرے آنسو ٹھوڑی پر بہنے لگے۔ جھرنا جیسے پھر سے بہنے لگا۔

اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

(سورة النسائ۔110)

میں نے آج تک یہ سب باتیں کسی سے نہیں کیں، بس ایک آخری سوال مجھے دل کا اطمینان چاہیے کیا کروں؟“ 

جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔“ 

(الرعد)

بہت شکریہ آپ نے میری الجھنیں دور کردیں۔

سنو!“ میری پشت پر آواز ابھری ۔

باجی ٹھیک کہتی ہیں اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔

جی !“ میں نے گردن ہلائی اور باہر آکر جوتے پہننے لگی۔ پھر میں نے ایک جھٹکے سے سراٹھایا اسے کیسے پتا؟ میں بھاگ کر اندر آئی تو وہاں اس ٹھنڈی میٹھی روشنی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں بھاگ کر باہر آئی۔

سنیں! آپ نے اسکارف والی کسی لڑکی کو اس کمرے سے نکلتے دیکھا ہے؟میں نے سیڑھیوں پر بیٹھی ایک لڑکی سے پوچھا۔

نہیں میں تو آپ سے پہلے سے یہاں بیٹھی ہوں آپ کے علاوہ تو کوئی لڑکی اندر گئی ہی نہیں تھی باہر کیا آئے گی۔اس لڑکی نے جواب دیا۔

نہیں اس کی بہت چمک دار آنکھیں تھیں آپ یاد کریں۔میں نے اصرار کیا۔

نہیں بھئی میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ صحیح کہتے ہیں لوگ زیادہ پڑھ کر دماغ خراب ہوجاتا ہے۔لڑکی نے افسوس سے گردن ہلائی اور واپس اپنے موبائل پر جھک گئی اور میں لائبہ فرقان واپس اسی کمرے میں کھڑی تھی وہاں اب کوئی روشنی نہ تھی وہ روشنی تو اب میرے دل میں اتر چکی تھی۔

میں ڈھونڈتا پھروں مجھ کو تیرا وجود ملے

تو میرے دل میں مکین میں تیری تلاش میں گم 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!