مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

آمنہ اور پھوپھو اپنی کام یابی پے قہقہے لگا رہی تھیں۔

امی ویسے ماموں ہیں بہت بے وقوف جس طرف موڑو چل پڑتے ہیں۔“ 

آئے نہیں اتنے بھی بے وقوف نہیں تمہارے ماموں وہ تو اسے میری بات کا بڑا اعتبار ہے اسی لیے آنکھ بند کرکے یقین کر لیتا ہے۔ پہلے تو میں سوچ رہی تھی کہ عثمان کے ساتھ اس کا چکر ثابت کردوں اور شروع میں تو میں نے اس کی شادی کا ہی بھائی جان کے دماغ میں ڈالا، لیکن جب بھائی جان نے بولا کہ بھاری بھرکم جہیز دے کر اسے رخصت کردوں گا جسے بھی وہ پسند کرتی ہوگی تو پھر میں نے سوچا کہ آئے ہائے یہ تو غلط ہوجائے گا۔ جتنے کا وہ جہیز دیں گے اتنے میں تو ہمارے کئی خرچے پورے ہوجائیں گے۔ تب میں نے اس پر چوری کا الزام لگادیا۔ تمہیں تو پتا ہی ہے بھائی جان کو چوری اور جھوٹ سے کس قدر نفرت ہے۔پھوپھو نے داد طلب نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔

واہ امی آپ نے تو کمال کردیا۔

ہاں بس دیکھ لو۔پھوپھو فخریہ مسکرائیں۔

بس اس موئے کا منہ بند کرانے کے لیے پانچ ہزار اوپر دینے پڑے جسے رضوانہ کا بیٹا بننے کو کہا تھا۔

چلیں چھوڑیں امی لاکھوں کا جہیز بچ گیا۔ ریحان بھائی کا دماغ اب ٹھکانے پر رہے گا ورنہ میں تو ہر وقت ڈرتی تھی دونوں ماموں یا عثمان نے دیکھ لیا، تو مصیبت آجائے گی۔ اب بس ریحان بھائی کی شادی کی تیار ی کریں۔لائبہ کے جہیز کے پیسوں کے ساتھ وہ دونوں اندر ہنس رہی تھیں اور باہر خدیجہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اپنی پھوپھی اور پھوپھی زاد کا یہ روپ دیکھ کر۔

٭….٭….٭

دادی کے گھر سے میں نے یہ سیکھا بعض لوگ حقوق اللہ تو پورے کردیتے ہیں، لیکن حقوق العباد کس چیز کا نام ہے انہیں علم ہی نہیں ہوتا۔ ان کی ساری زندگی اپنی شخصیت کے زعم اور چاہ میں گزر جاتی ہے یہ جانے بغیر کہ ان سے بھی بہتر بلکہ بہترین آئے اور مٹی میں مل گئے۔

٭….٭….٭

دادی کے گھر سے واپس آنے پر ممانی نے جس بات پر سب سے زیادہ ہنگامہ کیا وہ میرے اوپر اٹھنے والا خرچہ تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ یا تو مجھے واپس بھیجا جائے یا پھر ابا سے میرا ماہانہ خرچا مانگا جائے تبھی میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے کسی پر بوجھ نہیں بننا۔ جب سے لے کر اب تک میں نے اپنی پڑھائی کا بوجھ خود اٹھایا ہوا تھا۔ ابتدا میں چھوٹی چھوٹی ٹیوشنز پڑھائیں، پھر یونیورسٹی میں آتے ہی عافیہ کے توسط سے مجھے اس کوچنگ میں جاب مل گئی۔ میں جانتی تھی کہ میرے پاس میری تعلیم کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں اسی لیے میں اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی تھی۔ میرے ابا کے گھر سے واپس آنے کے بعد ابا نے مجھ سے کبھی رابطہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی میں نے کوشش کی تھی۔جب ابا کو میری بات کا یقین ہی نہیں تو میں انہیں کیوں صفائی دوں۔ ممانی بدمزاج تھیں لیکن یہاں پر میرے کردار اور عزت کو کوئی خطرہ نہ تھا اسی لیے میں ممانی کی کڑوی کسیلی چپ چاپ سن لیتی تھی۔

٭….٭….٭

یہ لو!“ حسنین نے ایک جیولری کیس میری طرف بڑھایا۔

واﺅ!“ جیولری کیس کھولنے پر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ اس میں سلور کی ایک انتہائی نازک چین تھی جس میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موتی پروئے ہوئے تھے۔ 

پسند آیا؟حسنین نے مجھ سے پوچھا۔

 ”بہت زیادہ۔میں نے اس چین کو کیس میں واپس رکھتے ہوئے کہا۔

ایک بار شادی ہوجانے دو پھر تو میں تمہیں ڈائمنڈ سے کم کچھ دوں گا ہی نہیں یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔حسنین نے مجھے مستقبل کے خواب دکھائے۔

اچھا یہ چھوڑو آج تم میرے ساتھ گھر چلو۔حسنین نے ایک نئی فرمائش کی۔

اپنا کمرا تمہیں دکھاں گا تم بتانا کہ ہم اسے کیسا ڈیکوریٹ کریں۔

نہیں حسنین مجھے گھر جانا ہے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے اور تم اپنے ممی پاپا کو جب بھیجو گے اس کے بعد ہی میں تمہارے گھر آں گی ابھی نہیں۔حسنین کے چہرے کے تاثرات تھوڑا سا بدلے، لیکن پھر اس نےجیسے تمہاری مرضی۔کہہ کر بات ختم کردی۔ حسنین کے ساتھ میرا اس کے گھر جانے کا ارادہ شادی سے پہلے بالکل بھی نہ تھا کیوں کہ اس نے ایک دو دفعہ مجھے بتایا تھا کہ ممی پاپا زیادہ تر بزنس ٹور پر ہوتے ہیںاور یہاں ہوں بھی تو ان کی مصروفیات انہیں زیادہ دیر گھر پر ٹکنے نہیں دیتیں، تو اس کا مطلب تھا حسنین زیادہ تر گھر پر اکیلاہوتا تھا اور میرا دل اسی وجہ سے اس کے گھر جانے پر نہیں مانتا تھا۔ اچھا حسنین اب میں چلتی ہوں۔ میں نے جلدی سے پرس اٹھایا اور باہر نکل آئی۔ آج میںنے حسنین کا بھی انتظار نہیں کیا تھا۔

میں گھر واپس آئی تو چیزیں میں نے جلدی سے الماری میں چھپادیں۔ میں نے سوائے ماریہ کے اس راز میں کسی کو شریک نہیں کیا تھا ۔میرا خیال تھا جب حسنین اپنا پرپوزل بھیجے گا تبھی سب کو پتا چلے تو ٹھیک ہے اور گھر میں سب کی اپنی مصروفیات تھیں۔ اسی لیے ابھی تک میرے راز سے پردہ نہ اٹھا تھا اور اتنا تو میں بھی جانتی تھی کہ جن جگہوں پر میں حسنین کے ساتھ جاتی ہوں وہاں پر میرے خاندان کا کوئی فرد جانا افورڈ نہیں کرسکتا۔

٭….٭….٭

رات میں سب کے سوجانے کے بعد میں نے چپکے سے وہ چین نکالی نائٹ بلب کی دھیمی روشنی میں بھی وہ خوب چمک رہی تھی۔ اس چین پے ہاتھ پھیرتے ہوئے یونہی مجھے لگا کہ یہ چین میں نے کسی او ر کے پاس بھی دیکھی ہے۔کس کے پاس؟بہت زور دینے پر بھی مجھے یاد نہ آیا کہ یہ چین کس کے پاس تھی۔

٭….٭….٭

مفتی صاحب کے پاس سے آنے کے بعد سے وہ مسلسل سوچ میں تھے۔ کیا میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ غلط کیا؟ لیکن اس نے بھی تو چوری کی تھی اور غیر لڑکوں کے ساتھ دوستیاں یہ سب میرے لیے ناقابل قبول تھا۔ بچی تھی غلطی ہوگئی تو تمہیں اسے معاف کردینا چاہیے تھا، اسے پیار سے سمجھانا چاہیے تھا۔ ان کے دل سے آواز آئی۔ وہ اپنے آپ سے جرح میں مصروف تھے ابھی وہ یہ نہ جانتے تھے کہ کتنی بڑی سچائی کتنے سالوں سے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ بعض دفعہ کچھ نہ جاننا بھی ہمیں کتنی اذیتوں سے بچا کر رکھتا ہے۔ وہ اب تھکے تھکے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک انا پرست انسان کے لیے یہ ماننا سب سے مشکل ہوتا ہے کہ وہ غلطی پر ہے یا تھا اور انہیں بھی یہ اعتراف کرنا مشکل لگ رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے بہت زیادتی کرچکے ہیں۔ابھی ان کو مزید کچھ وقت درکار تھا، ابھی ان پر کچھ اور آگہی کے دروا ہونے تھے۔

٭….٭….٭

آپی! کیا ہے بھئی آپ تو اب بس اپنے آپ میں ہی مصروف رہتی ہیں۔حوریہ میرے پاس دھپ سے بیٹھتے ہوئے بولی۔

ارے نہیں چھٹکی ایسی بات نہیں۔میں نے اس کی چٹیا کھینچی۔ حوریہ ہمیشہ مجھے بڑی بہنوں کا مان دیتی تھی اور مجھے بھی اس سے بہت محبت تھی۔

اچھا چلو آج میں آئس کریم کھلاں گی تمہیں تم ماموں سے اجازت لے لو۔میں نے اُسے خوش کرنے کے لیے اس کے مطلب کی بات کی اور وہ واقعی میں خوش بھی ہوگئی۔

ٹھیک ہے رات کے کھانے کے بعد چلیں گے اور آپ جلدی واپس آنے کو نہیں کہیں گی۔حوریہ نے مجھے تاکید کی۔

اچھا بابا! ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔میں نے اس کی تسلی کرائی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!