مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

امی ہمارے اسکول میں کل فنکشن ہے۔ آپ آئیں گی نا؟امی جو اپنی نئی کٹنگ پر ہر زاویے سے دیکھنے میں مصروف تھیں چونک کر بولیں۔

 ”ہوں! کل تو میرے آفس میں پارٹی ہے کل تو بالکل نہیں۔

 ”پلیز امی چلیں نا۔

 ”لائبہ تنگ مت کرو میں ابھی بہت مصروف ہوں۔امی کے ڈپٹنے پر میں روہانسی ہوکر اُنہیں دیکھنے لگی۔

 ”امی آپ کے پاس پیسے ہیں؟سفیان نے اندر داخل ہوکر پوچھا۔

 ”لے لو پرس میں سے۔امی مصروف سے انداز میں بولیں۔

 ”بھائی اتنے سارے پیسوں کا کیا کروگے؟میں اس کے ہاتھ میں پانچ سو کا نوٹ دیکھ کر بولی۔ سفیان نے اس بے جامداخلت پر مجھے گھورا۔

 ”تمہیں اس سے کیا؟“ 

کہہ تو بہن ٹھیک رہی ہے تمہاری۔امی اپنے لمبے ناخنوں والا ہاتھ لہرا کر بولیں۔

 ”اوہ ہو امی ہم سب دوستوں کا پکنک پلان ہے اس اتوار کو اس کے لیے پیسے جمع کررہے ہیں۔

 ”اچھا ٹھیک ہے جا۔“ 

امی آپ بھائی سے پوچھا تو کریں وہ کہاں جاتا ہے؟لیکن امی اب آفس کی کسی فائل کے ساتھ مصروف ہوچکی تھیں اصل وجہ تو یہ تھی کہ بھائی آج کل مجھے مشکوک سا لگنے لگا تھا اسی لیے میں امی پر زور دے رہی تھی۔

دوسرے دن اسکول سے واپسی پر میں گھر آئی تو ڈرائنگ روم سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔ میں نے ڈرائنگ روم میں جھانکا تو امی اور ایک انکل اکیلے اندر بیٹھے بے تکلفی سے باتوں میں مشغول تھے۔

 ”آلائبہ انکل کو سلام کرو۔مجھے اندر جھانکتے دیکھ کر امی نے مجھے آواز لگائی۔

السلام علیکم۔میں آہستگی سے سلام کرتی ہوئی کونے پر پڑے صوفے پر ٹک گئی۔

 ”یہ تمہاری بیٹی ہے؟وہ فربہی مائل اور گنجے سے انکل مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ 

ہاں سفیان سے چھوٹی ہے۔امی ایک ادا سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ 

لگتی نہیں ہے۔انکل ایک بے ہنگم سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولے اور ایسا کرتے ہوئے ان کی اپنی توند زلزلے سے متاثرہ لگ رہی تھی۔ ان کی اس بات پے میرا سانولا رنگ جامنی مائل ہوگیا شرمندگی سے۔

 ”ہاں یہ اپنے باپ پر ہے شکل میں بھی اور سوچ بھی اس کی طرح دقیانوسی ہے۔ ابھی سے اپنے بھائی اور میرے آنے جانے پر پابندی لگاتی ہے۔امی کچھ بے زاری سے بولیں۔ میں جو پہلے

ہی شرمندہ تھی اب مزید جھینپ گئی اور چپکے سے کھسک گئی۔

نانی یہ باہر کون انکل ہیں؟میں نے کمرے میں لیٹی ہوئی نانی سے پوچھا۔

 ”تمہاری اماں کے باس ہیں۔“ 

تو یہ ہمارے گھر کیوں آئیں ہیں؟مجھے وہ انکل کچھ خاص پسند نہ آئے تھے۔

 ”آئے بالی ہوئی ہے کیا تمہاری اماں لے کے آئی ہے ہم سے ملوانے۔ شادی کرے گی اس سے۔“ 

شادی امی کریں گی ان انکل سے؟میں نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ 

تو پھر ہم بھی ان کے ساتھ چلے جائیں گے؟

 ”نا تم لوگ کس خوشی میں چلے جاگے پرائے بچوں کی ذمے داری کون لیتا ہے؟ تم لوگ تو اسی گھر میں رہوگے۔اور نانی کی اس بات پے میرا دل بیٹھ گیا۔ امی چاہے ہم سے محبت نہ کرتی تھیں، لیکن مجھے تو ان سے محبت تھی۔ ان کے بغیر رہنے کا تصور میرا دل دہلا رہا تھا۔ 

٭….٭….٭

کوچنگ سے چھٹی کے بعد میں اور عافیہ بازار چلے گئے۔

 ”ارے لائبہ یہ سوٹ تو دیکھو کتنا خوب صورت ہے۔عافیہ ہر دکان پر رک رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا پورا بازار خریدلے۔

 ”یہ تم اپنے لیے خریداری کرنے آئی ہو یا رابعہ کا تحفہ لینے؟آخر میں نے چڑ کر پوچھ ہی لیا۔ اس بات پر عافیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

 ”دونوں کے لیے اب ہر کوئی تمہاری طرح تو نہیں ہوتا نا کہ امی کی پرانی ساڑھیوں کی فراکیں ہر شادی میں رگڑتا رہے۔آخر پورے بازار میں پھرنے کے بعد ایک مناسب قیمت کا ٹی سیٹ رابعہ کے لیے پسند کرلیا۔ بازار سے واپسی پے اچھی خاصی دیر ہوگئی تھی، لیکن کام ہوجانے پر ہم دونوں مطمئن بھی تھیں۔

 ”چلو میرا گھر تو آگیا اللہ حافظ۔میں عافیہ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئی۔

اس سے پہلے لائٹ چلی جائے میں اپنے کپڑے استری کرلوں۔ یہی سوچتے ہوئے میں جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی اور ساتھ ہی ساتھ ماموں اور حوریہ کی باتیں سننے لگی۔ حوریہ ماموں کی سب سے لاڈلی بیٹی ہے۔

 ”ابو پلیز مان جائیں نا سب دوست جارہے ہیں اتنا مزہ آئے گا نائٹ اسٹے کریں گے فارم ہاس پر۔

 ”دیکھو بیٹا میں تمہیں کہیں جانے سے منع نہیں کرتا، لیکن رات کو نہیں رکنے دے سکتا۔

 ”اب بچی اتنے اصرار سے کہہ رہی ہے تو مان جائیں نا اور پھر آپ اس کی دوستوں سے ملے تو ہیں سب اچھے گھرانوں سے ہیں۔ممانی نے اپنی لاڈلی بیٹی کی سائیڈ لی۔

 ”اچھا ٹھیک ہے لیکن پہلی اور آخر بار۔آخر ماموں نے ہتھیار ڈال دیے۔

 ”لائبہ ایک گلاس پانی تو پلانا۔ماموں مجھ سے مخاطب ہوئے۔

 ”جی ماموں۔میں تابعداری سے بولی۔ پانی کا گلاس دے کر میں ان کو منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ شاید ابھی ماموں بولیں جیتی رہو جیسے وہ حوریہ کو بولتے تھے اپنا کوئی کام کرنے پر، لیکن وہ مجھے گلاس دینے کے بعد اخبار پڑھنے میں مگن ہوگئے۔ میں بجھے دل سے گلاس لے کر کچن میں آگئی۔ رات کے کھانے اور کچن صاف کرنے کے بعد میری آنکھیں بند ہونے لگیں تو پڑھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے میں بستر پر آگئی۔ آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری خیال میرے ذہن میں آیا وہ باجی کا تھا۔ کتنے دن ہوگئے ان سے ملے ہوئے کل تو ضرور جاں گی۔ میں نے بند ہوتی آنکھوں سے سوچا۔

٭….٭….٭

آج کل ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں حسنین لغاری کی بڑی دھوم تھی۔ کسی دوسری یونیورسٹی سے ٹرانسفر ہوکر آیا تھا۔ متاثر تو میں بھی اس کی شخصیت سے ہوئی تھی، لیکن اپنی عدم اعتمادی کی وجہ سے ابھی تک کوئی بات نہ کرسکی تھی خیر میری تو دوستی بھی کسی سے زیادہ نہ تھی۔

توبہ ہے یہ میڈم راحیلہ بھی کتنا پڑھاتی ہیں۔ بندہ سن سن کے تھک جائے وہ بول بول کے نہ تھکیں۔ماریہ نے کلاس سے نکلتے ہوئے مجھ سے کہا۔

 ”چلو کینٹین سے کچھ کھاتے ہیں، میں تو بہت تھک گئی۔ماریہ نے نزاکت سے کہا۔ اسنیکس لے کر ہم بیٹھ گئے تو ماریہ مجھے بتانے لگی۔

 ”پتا ہے تمہیں لائبہ کل میں اور مما لان ایگزی بیشن میں گئے تھے۔

 ”اچھا پھر کچھ لیا۔میں نے پوچھا۔

 ”ہاں کچھ ملبوساتلیے مما کے کہنے پر تمہیں تو پتا ہے میں اس ٹائپ کے کپڑے نہیں پہنتی۔ بس اسی لیے میں نے تو کچھ خاص نہ خریدا، ہاں مما نے پاپا کا اور اپنا کریڈٹ کارڈ خوب استعمال کیا۔ماریہ نے ہنستے ہوئے بتایا۔

شاپنگ پر جاتو بیس تیس ہزار تو ایسے ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔ برانڈڈ ڈریسز تو مہنگے ہی اتنے ہوتے ہیں۔ماریہ کی بات پر میں نے غیر محسوس انداز میں اپنی چارسو روپے والی چپلیں پیچھے کرلیں اور ماریہ کا جائزہ لینے لگی۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح سر سے پیر تک خوب بنی سنوری تھی۔ وائٹ جینز کے ساتھ مختصر سی ٹاپ پہنے ہوئے تھی۔ ڈائمنڈ رنگ ہاتھ میں تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک نفیس سے کڑے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اپنے ڈائی ہوئے بال وہ نزاکت سے بار بار پیچھے کررہی تھی۔

 ”ماریہ تم نے کوئز کی تیاری کرلی؟میں نے اپنے اندر ابھرتے احساس کم تری کو چھپانے کے لیے یونہی پوچھ لیا۔

 ”نہیں ابھی تو نہیں کی۔ پاپا کے دوست اپنی فیملی کے ساتھ آگئے تھے۔“ 

کون سے فرینڈ؟میں نے شرارت سے پوچھا۔

 ”علی کے گھر والے۔ماریہ میری شرارت کو سمجھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔

 ”پھر کیسا رہا؟

 ”ٹھیک رہا علی کی مما شادی کی ڈیٹ رکھنا چاہ رہی ہیں پر میں نے ابھی پاپا کو منع کردیا۔ میں نے پاپا سے کہا ہے میرے فائنل ہوجائیں اس کے بعد دیکھا جائے گا ،میں پڑھائی کے بیچ میں یہ سب افورڈ نہیں کرسکتی۔میں نے ماریہ کو رشک سے دیکھا۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور منگنی بھی اپنے پاپا کے کسی دوست کے بیٹے سے ہوچکی تھی۔ اس کے پاس نہ پیسے کی کمی تھی نہ محبت کی، لیکن اس نے پھر بھی مجھ جیسی عام سی لڑکی سے دوستی کی جو ہزاروں لوگوں میں کیا دس لوگوں میں بھی ممتاز نظر نہ آئے۔ کبھی میں سوچتی تھی میں کتنی خوش قسمت ہوں ماریہ جیسی امیر کبیر اور خوب صورت لڑکی میری دوست ہے۔ میں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ اس نے مجھ سے دوستی کی کیوں ہے؟

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!