رضیہ اپنی بڑی بیٹی ساجدہ کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔اس کی چار بیٹیاں تھیں۔اس کے شوہر کا کچھ سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔تب سے وہ سیٹھ صاحب کے گھر کام کرنے لگی تھی۔اس کی بیٹیاں کپڑے سلائی کر کے اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔اس کی بیٹی کی شادی ایک نیک اور شریف لڑکے سے طے پائی تھی۔یہ رشتہ اس نے حاجی رضوان صاحب کے توسط سے کیا تھا۔رضیہ اپنی بیٹیوں کو شریف گھروں میں بھیجنا چاہتی تھی۔ساجدہ کا منگیتر ایک دکان چلاتا تھا ۔لڑکے کی ماں کئی بار کہہ چکی تھی کہ ہم ساجدہ کو دو ڈھائی تولے سونا ضرور پہنائیں گے۔ اس لیے رضیہ بہت زیادہ سادگی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ وہ شادی پے اتنا ضرور خرچ کرے کہ ساجدہ کو بعد میں سسرال والے اتنا زیور ڈال کر طعنے نادیتے پھیریں۔
”لڑکے والے دن ڈالنے کا کہہ رہے ہیں۔وہ اسی مہینے شادی کرنا چاہتے ہیں۔“ رضیہ نے اپنی بیٹی ساجدہ کو بتایا جو کپڑے کٹائی کرنے میں مصروف تھی۔
”اماں۔ہمارے ہاتھ پلے ابھی کچھ بھی نہیں ۔شادی کے لیے پیسہ کہاں سے؟“ ساجدہ کچھ جھنجھلا کر بولی۔
”اللہ وارث ہے۔میں سیٹھ صاحب سے امداد کے لیے کہوں گی۔وہ غریبوں پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ابھی کچھ دن پہلے ہی یتیم خانے گئے تھے ۔ان کی بہت امداد کر کے آئے ہیں۔ میں انہیں تیری شادی کا بتاو¿ں گی تو وہ ہماری مدد ضرور کریں گے۔“ رضیہ نے پر امید لہجے میں کہا۔
”لیکن ضروری تو نہیں ۔اماں کہ سیٹھ صاحب ہماری مدد کریں۔بڑے لوگوں کو ہم غریبوں سے کیا ؟ ساجدہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ارے ۔شرم کر۔سیٹھ صاحب اتنے نیک شریف اور اچھے انسان ہیں۔میں نے کبھی خود ہی انہیں اپنے حالات نہیں بتائے ورنہ وہ تو نجانے اب تک کتنی ہماری امدا د کر چکے ہوتے۔تجھے کیا پتا۔وہ بہت بڑے دل کے مالک ہیں۔ فلاحی اداروں کوبیٹھے بیٹھے لاکھوں کے چیک کاٹ کر دے دیتے ہیں۔ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں۔“
”ہاں اماں ۔بات تو ٹھیک کر رہی ہے تو۔“
”سیٹھ صاحب کے ماں باپ کی جب جب برسی آتی ہے تو بہت زیادہ نیاز دیتے ہیں ۔ تجھے یاد نہیں؟جب سیٹھ صاحب اپنے ماں باپ کی برسی مناتے ہیں، تو شہر کے سارے غریبوں کے لیے لنگر کھول دیتے ہیں۔سارا دن لوگ وہاں سے کھانا کھاتے ہیں۔“
”ہاں ۔اماں یاد ہے۔“
”اللہ خیر کرے گا۔ چل چھوڑ ۔مجھے باقی کپڑے دے ۔میں سلائی کرتی ہوں۔“ رضیہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اچھا اماں۔“ ساجدہ اب مطمئن دکھائی دیتی تھی۔اس کی آنکھوں میں امید کی ایک چمک ابھری تھی۔
٭….٭….٭
”رو بی ! روبی! جلدی آو¿۔سب کہاں ہو؟“ بڑے بھائی نے خوش کن لہجے میں بلند آواز کہا۔انور اور روبی جو ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے بڑے بھائی کی آواز پر اچھل کر اٹھ کھڑے ہوئے۔رابعہ بھی باہر آگئی۔
”سب خیریت ہے نا۔؟“ رابعہ نے بے ساختہ پو چھا۔
”ارے ۔ہماری روبی نے سائنس کے ساتھ میڑک پاس کر لی ۔“
”سچ؟ “ روبی یہ سن کر اچھل پڑی۔ وہ خوشی میں بڑے بھائی سے لپٹ گئی تھی۔انور بھی خوشی کے عالم میں بڑے بھائی کو لپٹ گیا تھا۔
”یہ مٹھائی بھی لایا ہوں۔ چلوسب کا منہ میٹھا کراو¿۔“ بڑے بھائی نے مٹھائی روبی کی طرف بڑھائی۔اب وہ باری باری سب کا منہ میٹھا کرانے لگی تھی۔بڑے بھائی نے روبی کا پیار سے ماتھا چوما۔ رابعہ بھی روبی کو گلے لگا کر خوشی سے مبارک دینے لگی۔ لمحہ بھر میں ان کے گھر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔انور روبی کے دونوں ہاتھ پکڑے صحن میں خوشی سے جھومنے لگا۔ بڑے بھائی انہیں شرارتیں کرتا دیکھ کر ہنستے رہے۔پل بھر میں صحن قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔
٭….٭….٭
آج سیٹھ صاحب کی والدہ کو گزرے پورے آٹھ سال ہو گئے تھے۔سارے شہر کے لوگ جانتے تھے کہ سترہ اپریل کو سیٹھ سیف اللہ کی ماں کی برسی ہے۔اور سیٹھ صاحب اپنی ماں کی یاد میں ہر سال کی طرح برسی منائیں گے۔لنگر کھلے گا اور شہر کے سارے غریب غربا میں دل کھول کر کھانا تقسیم ہو گا۔مدرسے کے بچوں سے سیٹھ صاحب کی ماں کے لیے دعائیں کروائی جائیں گی ۔پورے شہر میں اس بات کا بھی چرچا تھاکہ اپنی ماں کی برسی پے سیٹھ صاحب کے گھر بڑے پیمانے پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا جائے گا جس میں سیٹھ صاحب کے جاننے والے تشریف لائیں گے۔ گویا سیٹھ صاحب کی ماں کی برسی کسی بڑی تقریب سے کم نا تھی۔
” سیٹھ سیف اللہ جیسا بیٹا تو اللہ سب کو دے۔ماں کو مرے آٹھ سال گزر گئے ہیں، لیکن بیٹا ماں کے ایصال ثواب کے لیے اتناصدقہ دے رہا ہے۔ایسے بیٹے قسمت والوں کو ملتے ہیں۔“ برسی پر آئی ہوئی ایک بزرگ عورت نے تسبیح کے دانے گراتے ہوئے کہا۔
” ٹھیک کہا۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے والدین حیات ہیں، مگر مجال ہے جو پلٹ کر حال ہی پوچھ لیں۔یہ تو سیٹھ صاحب نیک صفت انسان ہیں ورنہ مرنے کے بعد ماں باپ کو کون پوچھتا ہے۔“ پاس بیٹھی دوسری عورت نے قرآن پڑھتے ہوئے لقمہ دیا اور اپنے موجود ہونے کا بھر پوراحساس دلایا۔ شازیہ سفید لباس پہنے پاس بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی۔
”جی ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔سیٹھ صاحب نے اتنا صدقہ دیا ہے۔بس اب یہ ثواب اماں جی کو پہنچ جائے ۔“ شازیہ نے چہرے پر اماں جی کے لیے کچھ دکھ کے آثار ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
”اولاد جو صدقہ کرتی ہے وہ ان کے ماں باپ تک ضرور پہنچتا ہے۔ بیٹی۔ “ بزرگ عورت نے شازیہ کو دیکھتے ہوئے کہا اور شازیہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
”میں ذرا باہر کھانے کا انتظام دیکھ لوں۔“شازیہ یہ کہہ کر باہر چلی گئی ۔
اب وہی بوڑھی پاس بیٹھی دوسری عورت سے مخاطب ہوئی جو قرآن پڑھ رہی تھی۔
”کھانے کا بھی انتظام ہے بھئی۔ اتنا پیسہ ہے ان کے پاس۔ کہیں تو خرچ کرنا ہے۔“ اسی بزرگ عورت نے تسبیح کے دانے گراتے ہوئے کہا۔
”ہاں بھئی۔ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ویسے بھی غریب برسیاں تھوڑی مناتے ہیں۔ جو مر کھپ جاتے ہیں ان کو بھلا کون پوچھتا ہے؟ یہ سارے چونچلے امیرو ں کے ہی ہیں۔ “ دوسری عورت نے قرآن پڑھتے ہوئے پھر سے لقمہ دیا تھا اور دوبارہ قرآن پاک پڑھنے لگی تھی۔
٭….٭….٭