بڑے بھائی اور انور رات کو باہر چہل قدمی کرنے پارک گئے۔وہ پارک میں بنچ پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔چاند کی چاندنی ان کا بڑا سا سایہ زمین پر بنا رہی تھی۔وہ دونوں جب مل بیٹھ کر باتیں کرتے تو دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتے تھے۔ان کا پیار اور دوستی کا انداز ان کے رشتے کو مزید خوب صورت بنادیتا تھا۔ انور کی عمر ابھی سترہ اٹھارہ سال تھی ۔وہ آئی کام کر رہا تھا۔وہ ایف اے کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اس کا دوست رضا بھی ایف اے کر رہا تھا، لیکن بڑے بھائی کے کہنے پر اس نے آئی کام میں داخلہ لیا تھا۔بڑے بھائی سارا دن اسٹور پر ہوتے۔ رات کو جب آتے تو تھکے ہوتے۔ انہیں اس طرح باتیں کرنے کا موقع کم و بیش ہی ملتا تھا۔
”تمہارا دوست رضا ایف اے کے بعد کیا کرنا چاہتا ہے؟ “
”کون….بھائی….“ انور نے آنکھیں سکیڑے ہوئے پوچھا۔
”رضا۔“ بڑے بھائی نے زور دیتے ہوئے پھر سے پوچھا۔
”وہ….“کچھ سوچتے ہوئے رکاتھا۔
”آگے…. بی اے ہی کرے گا۔“ انور نے اس کے انگلینڈ جانے کی بات بڑے بھائی سے نہ جانے کیوں چھپائی تھی۔
”چلو اچھا ہے۔تم آئی کام کرو ۔پھر بی کام میں داخلہ دلوا دوں گا۔“
”جی ۔بڑے بھائی۔“
” ویسے تمہاری اسٹڈی کیسی جا رہی ہے؟ “
”ٹھیک جا رہی ہے۔ میرے پیپر بھی قریب ہیں۔کچھ مضمون پڑھنے کے لیے مجھے ٹیوشن کی ضرورت ہے۔“
”ٹھیک ہے تم ٹیوشن کا پتا کر لو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“
”بھائی ۔کسی اچھی اکیڈمی میں اگر پڑھوں گا تو فیس بھی زیادہ دینی پڑے گی۔“
”تم فیس کی فکر مت کرو۔میں دیکھ لوں گا۔کتنے مہینے ٹیوشن رکھنی پڑے گی؟‘ ‘
”زیادہ نہیں بس ایک دو مہینے۔“
”ٹھیک ہے۔میں اسٹور میں مال کم ڈال لوں گا۔تمہاری فیس پوری کردوں گا۔“ بڑے بھائی نے خوش دلی سے کہا۔انور مسکرا دیا۔
”بھائی! میں جب پڑھ لکھ جاو¿ں گا تو پھر کہیں اچھی جاب کروں گا۔ پھر میں آ پ کو کام نہیں کرنے دوں گا۔“بڑے بھائی اس کی بات پر ہنس دیے۔
”یارپھر اس اسٹور کا کیا کریں گے؟“ بڑے بھائی نے شرارت سے پوچھا۔
”اسٹور بند کر دیں گے۔بلکہ فروخت کر دیں گے۔ کچھ بھی کریں گے مگر پھر آپ کام نہیں کریں گے۔ہاں….ابھی سن لیں۔“ انور نے پیار جتاتے ہوئے کہا۔
”اچھا یار۔ بڑا ہو کر جاب تو کرو۔پھر اسٹور کا بھی سوچ لیں گے۔“
”آپ دیکھنا بڑے بھائی۔میں آپ کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگا دوں گا۔ پھر آپ کو سوچ سوچ کر پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔“انور نے چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تم لوگوں پر اب بھی سوچ سوچ کر تو خرچ نہیں کرتا۔یہ تو میرا فرض ہے جو میں ادا کرتا ہوں۔“بڑے بھائی نے چاند کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے دل میں سوچا۔
”چلوگھر چلتے ہیں۔رات بہت ہو گئی ہے۔“ بڑے بھائی نے اٹھتے ہوئے کہا۔پھر وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے گھر کی طرف چل دیے۔
٭….٭….٭
صبح کے وقت بھولا جماہی لیتا ہو اا پنے گھر سے نکلا اور طارو کی دکان کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ طارو کے بچے اسکول جانے کے لیے بالکل تیار کھڑے اسکول وین کا انتظار کر رہے ہیں جو ابھی تک نہیں پہنچی ۔
”ابوہمارا سکول لگنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں، لیکن وین نہیں آئی۔“ طارو کا بڑا بیٹا فکر مندی سے بولا۔
”آ جائے گی۔تھوڑا انتظار کر لو۔“ طارو نے تسلی دی۔
”آپ ہمیں چھوڑ کر آئیں ۔ ہماری وین نے آج بھی نہیں آنا۔“ چھوٹا بیٹا بیگ کندھوں پر ڈالتے ہوئے بولا۔
”اچھا یار ۔میں اب یہ دکان ایسے کیسے چھوڑ جاو¿ں۔کچھ کرتا ہوں۔“ اتنی دیر میں بھولا وہاں آگیا۔
”بھولے دکان میں بیٹھ میں ابھی آتا ہوں انہیں اسکول چھوڑنے جارہا ہوں۔“ طارو نے اپنی سائیکل کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”میں میں چھو چھو چھوڑ آتا ہوں۔“ بھولے نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔
”تیرا کیا بھروسا تو سائیکل کہیں بھی مار دے۔“
”میں میں چھو چھو چھوڑ….آ آ آو¿ں گا۔“ اس نے طارو سے زبردستی سائیکل چھین لی۔بھولا نجانے کیسے اس جگہ بر وقت پہنچ جاتا تھا جہاں اس کی واقعی ضرورت ہوتی تھی۔
”چل ٹھیک ہے۔انہیںدھیان سے چھوڑ آ ۔ سائیکل ٹھیک سے چلانا۔ “طارو فکرمندی سے بولا۔بھولے نے کچھ کہے بغیر ہاتھ کے اشارے سے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی۔بچوں کا سکول زیادہ دور نہیں تھا، لیکن اسے ڈر تھا کہ بھولا کہیں کوئی نقصان نا کر دے۔طارو وہیں کھڑا انہیںگلی مڑتا دیکھتا رہا۔
بھولا سائیکل چلاتے ہوئے اپنا جسم جیسے ہوا میں لہرا رہا تھا۔کبھی دائیں طرف جھک جاتا کبھی بائیں طرف۔سائیکل کے پیچھے بیٹھے بچے زور زور سے ہنسنے لگتے۔بھولا بھی ہنسنے لگتا۔بچوں کو بھی مذ اق سوجھ گیا ۔وہ بار بارکہتے بھولے دوبارہ کرنا۔بھولا ہنس دیتا اور پھر سے کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانب جھک جاتا۔ وہ آدھا راستہ طے کر چکے تھے۔بھولا اب سنجیدگی سے سائیکل چلا رہا تھا، لیکن کچھ ہی دیر میں بچوں کے اسرار پر بھولا سائیکل چلاتے ہوئے پھر سے بائیں جانب جھکا ہی تھاکہ اچانک سامنے سڑک پر بنے ہوئے ایک سپیڈ بریکر نے انہیں زوردار جھٹکا لگایا اور سائیکل کا توازن بگڑ گیا۔ وہ تینوں سڑک پر آن گرے۔ انہیں کوئی زبردست چوٹ تو نہیں آئی مگر تینوں کے جسم پر بے تحاشا خراشیں ضرور آئی تھیں۔
٭….٭….٭
”جب میں تمہارے ساتھ ہوتا ہوں تو مجھے دنیا کی باقی تمام چیزیںبے معنی لگتی ہیں۔“ زین نے گہری آنکھوں سے زارا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
زارا مسکرا دی۔ دو دونوں ایک مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے اور جو باتیں یہ آج کر رہے تھے وہ نئی نہیں تھیں۔زین دن میں کئی بار اس سے اظہارِ محبت کرتا تھا۔وہ بھی اپنے چوبیس گھنٹے زین کے ساتھ یونیورسٹی میں وقت گزارنے پھر گھر آ کر فون پے بات کرنے اور اس کے ساتھ باہر گھومنے میںگزارتی تھی۔چار سالوں سے ان دونوں کی یہی روٹین تھی اور دونوں اس روٹین کے بہت عادی بھی تھے۔ وہ دونوں چار سالوں سے ایک ہی مدار میں گھوم رہے تھے۔ان کا راستہ الگ کرنا تباہی کے مترادف تھا۔
”ہاںمیں جانتی ہوں تم مجھ سے بہت محبت کرتے ہو، لیکن تم اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنی میں تم سے کرتی ہوں۔“ اس نے فخریہ لہجے میں کہا۔
”محبت کا اندازہ لگا سکتا تو لگا لیتا،لیکن اب ایسا کوئی پیمانہ نہیں جو محبت ناپ کر بتا دے، مگر میں تمہیں اپنی زندگی کا سب سے اہم حصہ سمجھتا ہوں۔تمہارے بغیر میری زندگی کچھ بھی نہیں۔“ زین نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔وہ مسکرا کر اس کی باتیں سنتی رہی۔
”میں جانتی ہوں۔“ زارا نے اسے اس کی محبت کا تصدیق نامہ تھماتے ہوئے کہا۔
”اب تو یونیورسٹی میں ہمارے کچھ ماہ باقی ہیں۔“زین نے زارا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہم یونیورسٹی کو بہت مس کریں گے۔“ زارا نے افسردگی سے کہا۔
”بالکل مس کریں گے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ جلد از جلد ہم یونیورسٹی سے فارغ ہو جائیں۔اس کے بعد میں اپنی موم کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔میری موم کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیںہو گا۔“ زین نے پر امید لہجے میں کہا۔
”ہاں میں بھی یہی چاہتی ہوں۔میرے بابا بھی میری بات کبھی نہیں ٹالیں گے اور اگر کسی نے مجھے روکا تو میں پھر بھی نہیںرکوں گی۔کچھ بھی ہو جائے مگر میں تمہارے سوا کسی دوسرے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔“ زارا کی اس بات پے زین کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی تھی۔
”یار ۔حوصلہ رکھو۔ہم ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔اسی لیے تو ہم ایک دوسرے کو ملے ہیں۔“ زارا زین کی طرف دیکھ مسکرانے لگی تھی۔
”چلو کھانے کے لیے کچھ آڈر کرتے ہیں۔“ زین کے مشورے پر زارا نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا آرڈر کروں؟ زارا اسے اپنی پسندبتانے لگی تھی۔
٭….٭….٭