انور کے موبائل پر گھنٹی بجی۔ انور شیشے کے سامنے کھڑا اپنے ٹائی باندھ رہا تھا۔گھنٹی بجنے پر رضا اس کے موبائل کی طرف متوجہ ہوا۔رضا نے دیکھا تو اس کے گھر کا نمبر تھا۔
”یار تیرے گھر سے فون آرہا ہے ۔“ رضا نے جوتا پہنتے ہوئے کہا۔
”یار بجنے دے۔بڑے بھائی کا ہو گا۔حال چال پوچھنا ہو گا۔میں پھر کر لوں گا۔“ رضا نے بے پروائی سے کہا۔
”کوئی ضروری بات بھی تو ہو سکتی ہے۔“ رضا نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
”چل چھوڑ یار۔پہلے ہی لیٹ ہو گئے ہیں۔“ انور نے اپنے کورٹ پہ پرفیوم چھڑکتے ہوئے کہا۔ انور اپنے دوستوں کے ساتھ باہر آو¿ٹنگ کے لیے جا رہا تھا۔
رابعہ نے انور کو یک بعد دیگرے تین کالز کی تھیںلیکن اس نے کال پک نہیں کی تھی۔رابعہ آنسو صاف کرتے ہوئے موبائل پے انور کا نمبر تکتی رہی پھر اس نے موبائل ایک طرف رکھ دیا تھا۔بڑے بھائی آئی سی یو میں داخل تھے۔انہیں زبردست ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔رابعہ سول اسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں بیٹھی آنسو بہاتے ہوئے شوہر کی صحت کی دعائیں کرنے لگی اور دائیں جانب روبی بھی چپ چاپ سر جھکائے بیٹھی تھی۔
٭….٭….٭
جس دن بڑے بھائی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس دن بھولا کافی افسردہ تھا۔ رات کا ایک بج چکا تھا لیکن بھولا ابھی تک سویا نہیں تھا۔وہ کروٹیں بدل رہا تھا۔بڑے بھائی کا خیال اسے رہ رہ کر آ رہا تھا۔وہ اپنے گلے میں پہنی سنہری چین سے پھر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے لگا تھا۔
”تو تو تو تجھے پا پاپتا ہے برے(بڑے)بھابھائی کو دل کا درد ہو ہو ہوا ہے۔ بھا بھا بھائی کو اچھپتال(اسپتال) لے لے گئے۔“ وہ تقریباً بھرائی آوزا میں کہہ رہا تھا۔
”برا(بڑا) بھا بھا بھائی کہتا تھا جو جو دو دوسروں کو ما ما رتا ہے نا ۔او او اسے پھر آ آ اللہ ما مارتا ہے۔ تو تو تجھے پا پا پتا ہے ۔فے فے فیصل مو مو مجھے مارتا تھا نا اس لیے او اواس کا اتا(اتنا) خو خوخون نکلا تھا۔“ وہ اندھیری رات میں اپنے ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”لے لے لیکن برا (برا) بھا بھا بھا ئی نے تو کسی کو نئی( نہیں) ما مارا تھا…. پھی پھی پھر برے بھابھابھائی کو دردکیوں ہو ہوہوا؟ “ وہ رک رک کر کچھ حیرانی کے ساتھ خود سے سوال کر رہا تھا۔پھر کوئی جواب نا پاتے ہوئے موضوع بدل کر کہنے لگا۔
”تو تو تجھے پاپا پتا ہے۔ برے بھا بھائی کو اتی(اتنی) دیر سے درد ہوہو ہوتا تھا۔ کی کی کسی کو نئی(نہیں ) پا پا پتا۔ مومومجھے پاپاپتا تھا۔ ان ان انور با بار (باہر) گیا تھا نا تب سے برے بھابھائی کو درد ہو ہوتا ہے۔ ان ان انور برے بھا بھائی کو ملنے جو نئی (نہیں) آ آآیا۔ برے بھا بھائی کا درد اب زے زے زیادہ ہو ہو گیا اس لی لی لیے بھا بھائی کو اچھپتال لے لے گئے ۔ “ بھولا افسردہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”مے مے میں نا کل جا جاو¿ں گا برے بھا بھائی کے پا پاس جاجاو¿ں گا۔تو تو نے بھی….“ اور اسی طرح وہ باتیں کرتا کرتا سو گیا تھا۔
٭….٭….٭
بڑے بھائی سول اسپتال میں داخل تھے۔انہیں اسپتال میں آج پانچ دن گزر گئے تھے۔انہیں آئی سی یو سے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ وہ اب خطرے سے کافی حد تک باہر تھے لیکن وہ ابھی بھی زیادہ بات چیت نہیں کر سکتے تھے۔انہیں ہر لحاظ سے مکمل ریسٹ کی ضرورت تھی۔پچھلے تین دن سے بھولا اسپتال میں ٹھہرا ہوا تھا ۔وہ دن میں کئی چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسپتال سے باہر آتا جاتا تھا۔ بھولا جب بھی اسپتال کے صدر دروازے سے گزرتا تو چوکیدار کو سلا م کرتا۔چوکیدار کے لیے بھولا کوئی اجنبی انسان نہیں رہا تھا۔ بھولا پاپ کارن مزے سے کھاتا ہوا ہاتھ میں جوس اور کچھ فروٹ لیے اسپتال واپس آرہا تھا۔
واپسی پر اسپتال کے قریب اسے ایک لڑکے نے روک لیا۔
”بھائی بات سنو۔“ آدمی نے بھولے کا بازو پکڑ کر روکا تھا۔بھولے نے اسے پلٹ کر دیکھا۔
”بھائی میری مدد کر دو۔ ایک چھوٹا سا کام ہے۔اگر کردو گے تو بڑی مہربانی ہوگی۔“
”کا کا کیا کر کرنا ہے؟ “ بھولا معصومیت سے بولا۔
”بھائی۔ یہ بیگ اسپتال لے جاو¿۔ ادھر کو مڑو گے نا۔ دائیں جانب۔“اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے سمجھایا تھا۔
”وہاںگراو¿نڈمیں میرا بڑابھائی بیٹھا ہو گا۔ نیلے کپڑے پہنے ہیں اس نے۔بس یہ بیگ اسے دے دینا اور اگر میرا بھائی وہاں نا ہوا تو وہاں جو فوارہ ہے نا۔۔ وہاں رکھ دینا۔ بھائی خود آ کر وہاں سے لے لے گا ۔“ اس لڑکے نے عاجزانہ انداز سے منت کرتے ہوئے کہا۔بھولے نے سیاہ بیگ پکڑتے ہوئے معصومیت سے اثبات میں سر ہلایا ۔
”بھائی۔بڑی مہربانی ۔“ لڑکے نے شکریہ ادا کر کے اپنی راہ لی۔
اب جوس اور فروٹس کے شاپرز کے ساتھ بھولے کے ہاتھ میں ایک سیاہ بیگ کا اضافہ ہو گیا تھا۔بھولا پاپ کارن کھاتا ہوا مزے سے اسپتال میں داخل ہوا تھا۔چوکیدار کے لیے بھولا نامعلوم انسان نہیں تھا اس لیے چوکیدار نے بھولے پر زیادہ دھیان نہیں تھا۔ بھولا معمول کی طرح اپنی دھن میں مگن صدر دروازہ کراس کر کے دائیں جانب واقع گراو¿نڈ کی طرف چل دیا۔
٭….٭….٭