روبی کے لیے دوبارہ انہی لوگوں نے رشتہ بھیجا تھا جنہیں اس نے مسترد کیا تھا۔ وہ لوگ ابھی بھی روبی سے اپنے بیٹے کی شادی کرنے کے خواہش مند تھے۔لڑکا بینک میں اچھی ملازمت کرتا تھا۔اس رشتے کو اب دوبارہ ٹھکرانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ روبی کے پاس بھی دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا ۔لہذا بڑے بھائی اور رابعہ نے روبی کی خاموشی کو رضامندی سمجھتے ہوئے ا س رشتے کے لیے ہاں کر دی تھی۔ روبی کا جہیز تو پہلے ہی تیار تھا۔اگلے دو ماہ کے اندر اندر روبی کی شادی ہو گئی۔ لڑکا بہت قدر کرنے والا اور سلجھا انسان تھا، لیکن روبی ذ ہنی طور پر ابھی بھی وہیں اٹکی تھی۔وہ مزمل کو بھلا نہیں پائی تھی۔ اس لیے نئے آنے والے انسان کو زندگی میں جگہ دینا اسے نہایت دشوار لگ رہا تھا۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ اکھڑی اکھڑی سی رہتی تھی۔ بہت جلدی باتوں پر غصہ کرتی تھی۔ روبی کی شادی کو ایک ماہ گزر گیا تھا۔ روبی کا شوہر کاشف صبح صبح روبی کو نیند سے جگارہا تھا۔
”کافی ٹائم ہو گیا ہے۔اٹھ جاو¿۔آٹھ بج رہے ہیں۔“ کاشف کی آواز کانوں میں جانے کی دیر تھی روبی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”کیا مصیبت ہے۔“ روبی نے دل میں سوچا۔
”آج بڑی آپا آرہی ہیں۔گھر میں کافی کام ہو گا۔امی کا ہاتھ بٹا دینا۔“ کاشف بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ اب بیڈ پر بیٹھی اپنی آنکھیں مسل رہی تھی۔
”کرتی ہوں…. سارا دن کام ہی کرتی ہوں۔ آپ کا حکم ضروری نہیں ۔“ روبی نے بالوں کو سمیٹتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔
”میں حکم نہیں دے رہا۔ میں تو بس بات کر رہا تھا۔ “ کاشف نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔وہ کاشف کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے بال سمیٹتی رہی۔
”امی بتا رہی تھیںکہ تم دوپہر تک کمرے سے نہیں نکلتی۔ گھر کا دھیان کیا کرو ۔آج بڑی آپا نے بھی آنا ہے۔ویسے بھی تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ گھر میں کون آ رہا ہے۔ “ کاشف نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
”میں سارا دن کام کرتی ہوں۔اگر کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں آرام کر لیتی ہوں تو اس پر بھی اعتراض ہے؟ “
”اعتراض نہیں کر رہا۔ بس یہ کہہ رہا ہوں کہ امی کا ہاتھ بٹا دیا کرو۔ان کی عمر اب کام کرنے کی نہیں ہے۔“
”آپ کی ماں کو کام والی چاہیے تھی تو کام والی رکھ لیتی نا۔مجھے بہو بنانے کی ضرورت کیا تھی۔؟“ روبی نے بیڈ سے اترتے ہوئے جوتا پہنا اور باہر چلی گئی۔کاشف خاموشی سے اسے باہر جاتا دیکھتا رہا۔وہ کاشف سے اس لہجے میں اتنی بار بات کر چکی تھی کہ اب وہ اس کی عادت سمجھنے لگا تھا۔
٭….٭….٭
انور کو باہر گئے دو سال ہونے کو تھے۔اس نے روبی کی شادی پر کچھ پیسے گھر بھیجے تھے۔ بڑے بھائی کو اس سے اتنے پیسوں کی بھی امید نہیں تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہو گا کہ بڑے بھائی نے انور سے کبھی کوئی امید رکھی ہی نہیں تھی۔ وہ انور کے باہر جانے کے باوجود گھر کا ایک ایک خرچ اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورا کرتے تھے۔ان کی خودداری انہیں دوسروں کے سامنے جھکنے نہیں دیتی تھی چاہے وہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے گھر کے مسائل انور سے کبھی ڈسکس نہیں کیے تھے ۔انہوں نے اسے ایک طرح سے آزاد پرندے کی طرح چھوڑ دیا تھا جس کی واپسی یقینی نہیں ہوتی۔بڑے بھائی اور رابعہ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب رابعہ نے کہا۔
”روبی کی شادی پر آپ نے کچھ قرض لیا تھا ۔وہ اتار دیا؟ “
”نہیں ابھی کچھ باقی ہے۔جلد اتار دوں گا، لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو؟“
”آپ نے انور کو بتایا تھا کہ آپ نے روبی کی شادی پر قرض بھی لیا ہے؟“
”نہیں، میں اسے کیوں بتاتا ؟ ویسے بھی قرض میں نے لیا تھا اور میں ہی اتاروں گا۔“
”آپ کب تک سارے بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالے رکھیں گے؟ انور کے سر پر بھی ذمہ داری ڈالا کریں۔ وہ بھی تو زندگی گزارنا سیکھے۔من مرضی کب تک چلے گی ؟“ رابعہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں اسے زندگی گزارنا نہیں سکھاپایا، لیکن وہ مجھے زندگی سکھا گیا۔ “ بڑے بھائی نے معنی خیز آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب ؟ “ رابعہ نے نہ سمجھنے آنے والے انداز میں پوچھا۔
”میں اسے جوان کر گیا اور وہ مجھے بوڑھا۔“ بڑے بھائی نے ساکن آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔رابعہ نے بے ساختہ ان کی طرف دیکھا تھا۔
”آپ ایسی باتیں مت کیاکریں۔انور اپنی من مانی کرتا ہے، لیکن ہے تو وہ آپ کا بھائی ہی۔آپ جب اسے گھر کے حالات ہی نہیں بتائیں گے تو وہ گھر کے حالات کیسے سمجھے گا؟ وہ اس گھر کا فرد ہے۔اسے گھر کے مسائل کا پتا ہونا چاہیے۔“ رابعہ نے سمجھاتے ہوئے کہا۔اسی لمحے موبائل پر گھنٹی بجی تھی۔وہ انور کی کال تھی۔رابعہ نے کال پک کی۔سلام دعا کے بعد رابعہ گرم جوشی سے بات کر تے ہوئے بولی۔
”تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے؟“
”بھابی۔ مت پوچھیں۔سارا سارا دن ہم آفس میں خوار ہوتے ہیں۔“ انور نے بے ساختہ کہا۔
” تمہیں وہاں کام کرتے ایک سال ہو گیا ہے۔انہوں نے تمہاری تنخواہ نہیں بڑھائی؟ “
”تنخواہ توبڑھائی ہے، لیکن یہاں مہنگائی ہی اتنی ہے کہ تنخواہ نہ جانے کہاںاڑ جاتی ہے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ بس بھابی۔جو عیش کرنے تھے پاکستان کر لیے۔یہاں تو گن گن کر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔“ انور نے دکھ بھری داستان سناتے ہوئے کہا۔بڑے بھائی رابعہ کے پاس بیٹھے سب خاموشی سے سن رہے تھے۔
”روبی کی شادی پر تم نے پیسے بھیجے تھے، لیکن پھر بھی قرض پکڑنے کی نوبت آ گئی تھی۔ عزیزنے قرض پکڑ کر روبی کی شادی تو کر دی، لیکن اب ….“
”بھابی۔ میرے دوست آئے ہیں۔مجھے ضروری کام سے ذرا باہر جانا ہے۔آپ سے پھر بات ہو گی۔“ انور نے رابعہ کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔رابعہ ایک دم سے چپ ہو گئی تھی۔
”اور ہاں۔ مجھے یاد آیا۔بڑے بھائی کو بتا دینا کہ میں کچھ مسائل کی وجہ سے اس مہینے پیسے نہیں بھیج سکوں گا اور میرا سلام بھی کہنا۔“ انور نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا تھا۔
”کہہ دوں گی۔“ رابعہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”ویسے بڑے بھائی ہیں کہاں؟ “ انور نے جلدی میں رسمی سا سوال کیا۔
”باہر گئے ہیں۔“ رابعہ نے یہ کہہ کر کال بند کر دی۔ بڑے بھائی نے بے ساختہ رابعہ کی طرف دیکھا تھا۔
٭….٭….٭