آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

روبی روتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور مزمل کو کال کرنے لگی ۔مزمل نے کال پک کی۔

آنٹی نے رشتہ توڑ دیا۔مزمل ….یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟روبی بے بسی سے خودکو کنٹرول کرتے ہوئے بولی۔

میں نے ہی اماں سے کہا تھا کہ یہ رشتہ ختم کر دیں۔مزمل کی بات پے روبی ساکت ہو گئی۔

تم….نے؟روبی حیرانی میں رک رک کر بولی۔

ہاں میں نے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا، لیکن میں اپنی ماں کو ذلیل نہیں کروا سکتا ۔ ہمارا خاندان میں نام ہے۔ تمہارے بڑے بھائی تمہیں سات آٹھ تولے سونا نہیں پہنا سکے۔ان کا گریبان پکڑو۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ۔مزمل نے بے ساختہ کہا۔

لیکن ….مزمل….یہ نہیں ہو سکتا ۔روبی ابھی بھی شکست خورد ہ لہجے میں بول رہی تھی۔

میں مجبور ہوں۔میں اپنی ماں کی خوشی رد نہیں کر سکتا۔ ان کی آخر خاندان میں کوئی عزت ہے۔ ویسے مجھے تمہارے بڑے بھائی سے یہ امید نہیں تھی۔ انہیں اپنی بہن کی خوشی ذرا نظر نہیں آئی۔ وہ تمہیں چند تولے سونا نہیں پہنا سکے؟مزمل نے اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے کہا۔

لیکن میں کہاں جاو¿ں؟ بڑے بھائی کو کیسے سمجھاو¿ں؟روبی نے تلخ لہجے میں چیختے ہوئے کہا۔

تمہارے بڑے بھائی نے ہم دونوں کو جدا کیا ہے۔ ان کی اپنی اولاد ہوتی تو سونا دل کھول کر پہناتے۔ ویسے بھی میری ماں کی خوشی سب سے اہم ہے۔میں تمہارے پیچھے اپنی ماں کو ناراض نہیں کر سکتا۔ میں نے اللہ کو بھی جواب دینا ہے۔مزمل نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔ روبی بہتے آنسوو¿ں سے موبائل کی مدھم ہوتی اسکرین کو ساکت بیٹھی تکتی رہی۔اس کے بعد روبی خاموش ہو گئی تھی۔مزمل نے اس کے بعد روبی کو مکمل نظر انداز کردیا۔ بڑے بھائی اور رابعہ نے بھی روبی سے ابھی کسی دوسرے رشتے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ اسے وقت دے رہے تھے۔بڑے بھائی اور رابعہ لوگوں کے روبی کی طرف چھوڑے گئے تیروں کا مقابلہ سیسہ پلائی دیوار بن کی طرح رہے اور اسی طرح کچھ عرصہ گزر گیا تھا۔

٭….٭….٭

تمہاری خالہ انگلینڈ جانے سے پہلے تمہاری اور زوئی کی شادی کرنا چاہتی ہیں۔ مجھے اور تمہارے پاپا کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں

زین کو جیسے جھٹکا لگا۔

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیںموم۔؟زین نے ٹی وی سے نظریں ہٹاتے ہوئے بے ساختہ کہا۔

تم تو ایسے حیران ہو رہے ہو جیسے تمہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔“ 

کیا مطلب ؟زین نے استفسار کیا۔

تمہاری خالہ زوئی کی تم سے شادی کرنے کی غرض ہی سے پاکستان آئی تھیں۔کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟زین کچھ کہے بغیر چپ چاپ کسی گہری میں سوچ میں ڈوبا رہا۔

میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔ تمہیں اس رشتے پر کوئی اعتراض ہے؟اس کی ماں نے اپنے الفاظ دہرائے۔

نہیں….موم….“ زین نے گلا صاف کیا۔

مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔زین نے دھیمے لہجے میں کہا۔

مجھے معلوم تھا تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔آخر تم دونوں کی اتنی دوستی ہے۔ویسے بھی زوئی بہت اچھی لڑکی ہے ۔ تم دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگو گے۔ “ 

ہاں زوئی بہت خوب صورت ہے۔ میں اسے اپنانے کے لیے تیار ہوں۔زین نے بے ساختہ کہا۔ اس کی ماں خوشی سے مسکرائی تھی۔

٭….٭….٭

تمہاری شادی ختم ہونے کا سن کر بہت دکھ ہوا۔انور نے روبی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا۔

میرے گھر والے میرا ساتھ دیتے تو میرے ساتھ یہ سب نا ہوتا ۔روبی نے افسردگی سے کہا۔

کاش میں پاکستان ہوتا تو کوئی نہ کوئی حل نکال لیتا، لیکن میں مجبور تھا۔انور نے فکرمندی ظاہر کی۔

ہاں جانتی ہوں۔تم یہاں ہوتے تو شاید یہ حالات نہ بنتے۔روبی نے بے ساختہ کہا۔

بڑے بھائی کو سوچنا چاہیے تھا۔وہ تو پاکستان تھے نا؟ اور کچھ نہیں تو قرض ہی پکڑ لیتے ۔ایسے شادی ختم ہونے پر کتنی بدنامی ہوئی ہے۔“ 

لیکن تم اور کچھ نہیں تو زیور تو پورا کر سکتے تھے نا؟روبی نے شکوہ لیے کہا۔

میرے حالات کا تو تمہیں پتا ہی ہے۔باہر رہنا آسان نہیں ہے۔یہاں بہت مشکلات ہیں، لیکن پھر بھی جب گنجائش ہوئی میں تمہارا زیور تمہیں لوٹا دوں گا۔روبی انور کی باتیں چپ چاپ سنتی رہی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!