”ہم تو روبی کو دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔اللہ نے اتنی پیاری بہو دی ہے ہمیں۔“ مزمل کی ماں چائے کا کپ ہاتھ میں لیے تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی۔روبی پاس بیٹھی مسکرا رہی تھی اور وہ کیوں نہ مسکراتی جب ہر کام اس کی خوہش کے مطابق ہو رہا تھا۔
”جی جی۔ آپ بسکٹ بھی لیں نا۔“ رابعہ نے مزمل کی ماں کی طرف بسکٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”شادی میں بیس دن رہ گئے ہیں۔ پتا بھی نہیں چلے گا اور شادی سر پر آ جائے گی۔“ اس کی ساس نے بسکٹ لیتے ہوئے کہا۔
”جی ایسا ہی ہے۔“ رابعہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ہاں مجھے یاد آیا مزمل فرمائش کر رہا تھا۔میں نے اسے کہابھئی میں روبی کو بتا دوں گی۔ باقی روبی جانے اور اُس کے گھر والے جانیں۔“ اپنی ساس کی بات سن کر روبی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ خوشی سے چمکتی آنکھوں سے اپنی ساس کی طرف متوجہ ہوئی۔ رابعہ بھی چوکنا ہو گئی تھی۔مزمل کی ماں روبی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
”مزمل کی فرمائش ہے کہ روبی کو جہیز کے ساتھ ساتھ سات آٹھ تولے سونا بھی پہنائیں ۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہا تھا کہ روبی کا بھائی باہر گیا ہوا ہے۔ ان کے لیے تو گاڑی دینا بھی مشکل نہیں ہے۔‘ ‘ روبی اور رابعہ کی نظریں بے ساختہ ملی تھیں۔وہ دونوں ہکا بکا مزمل کی ماں کو دیکھتی رہیں۔
”کافی ٹائم ہو گیا۔اب میں چلتی ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے مزمل کی ماں اُٹھ کھڑی ہوئی۔
٭….٭….٭
رات کو بڑے بھائی گھر آئے تو روبی کے جہیز کا کچھ سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہ سامان رابعہ کو تھما دیا۔ رابعہ نے سنجیدگی سے وہ سامان پکڑ کر ایک طرف رکھ دیا۔
”کیا بات ہے؟ کوئی بات ہوئی ہے؟ “ بڑے بھائی نے رابعہ سے پوچھا جو کچھ فکرمند لگ رہی تھی۔
”آپ پہلے کھانا کھا لیں ۔ پھر بتاتی ہوں۔ “
”اس کا مطلب ہے کہ واقعی کوئی بات ہوئی ہے۔“
”انور نے کچھ کہا؟“ بڑے بھائی بات کا سراغ لگانے لگے ۔
”نہیں۔روبی کی ساس آئی تھی آج۔“
”تو پھر؟ “ بڑے بھائی نے بے ساختہ پوچھا۔
”کہہ رہی تھیں کہ روبی کے جہیزکے ساتھ ساتھ سات آٹھ تولے سونا بھی پہنائیں اور گاڑی کی بھی فرمائش کر کے گئی ہیں۔“ بڑے بھائی پانی پیتے پیتے ایک دم سے رک گئے تھے۔
”روبی کی ساس نے یہ سب کہا؟“
”جی۔ آج وہ یہی فرمائش کرنے آئی تھیں۔“ رابعہ نے وضاحت دی۔بڑے بھائی ہکا بکا اسے پتھرائی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔
٭….٭….٭
بڑے بھائی نے انور کو کال کی ۔حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے پہلی بار گھر کا مسئلہ انور سے ڈسکس کیا تھا۔بڑے بھائی نے اسے روبی کی ساس کی فرمائش بتاتے ہوئے یاد دلایا کہ اس نے روبی کا زیور واپس لٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ بڑے بھائی کی باتیں سن کر انور کہنے لگا۔
”بڑے بھائی! آپ کو کیا لگتا ہے کہ مجھے روبی کے زیور کی فکر نہیں ہے؟ میں مجبور ہوں۔ میں ابھی زیور نہیں بنا سکتا۔ جب گنجائش ہو گی اس کا زیور اسے لٹا دوں گا۔ آپ کو نہیں پتایہاں بہت مہنگائی ہے۔ کھانا پینا رہائش سب کچھ بہت مہنگا ہے؟“ انور نے اُلٹا اپنے مسائل کی لمبی چوڑی فہرست بتادی۔
”روبی کے سسرا ل والوں سے کیا کہیں؟ “ بڑے بھائی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”ان سے کہیں کہ شریفوں کی طرح روبی کو بیاہ کر لے جائیں۔ جتنا شادی پر ہم کر سکتے ہیں وہ ہم کریں گے۔ اب جہیز کے پیچھے وہ شادی روکیں گے؟“ انور نے بے ساختہ کہا۔
”اگر وہ نہ مانے تو؟“ بڑے بھائی نے اگلا سوال کر ڈالا۔
”پھر آپ قرض اُٹھا لیں۔ “ انور نے دوٹوک کہا۔ بڑے بھائی نے خدا حافظ کہہ کر کال بند کردی تھی۔
٭….٭….٭