آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

یار یہ شاپنگ تو نے کی ہے ؟رضا نے بیڈ پر بکھرے نئے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔وہ چائے کا کپ تھامے کمرے میں آیا تھا۔

ہاں میں آج مارکیٹ گیاتھا۔انور بے ساختہ بولا۔

کافی مہنگے کپڑے ہیں۔ویسے اتنے مہنگے کپڑے خریدنے کی تجھے کیا ضرورت تھی؟ “ 

آفس میں سارے ورکرز اتنے مہنگے کپڑے پہنتے ہیں ۔میں نے مہنگے کپڑے لے لیے تو کیا غلط کیا؟انور نے لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے کہا۔

لگتا ہے اس ماہ کی ساری تنخواہ تو نے شاپنگ میں اڑا دی۔ گھر والوں کیا بھیجے گا؟رضا نے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

گھر والوں کو بھیجے تو تھے۔ پچھلے مہینے۔ جب گنجائش نکلی تو بھیج دوں گا ۔انور نے بےپروائی سے کہا۔

گھر تو بہن کی شادی رکھی ہے نا۔بھول گیا کیا ؟ گھر والوں کو پیسوں کی ضرورت ہو گی۔رضا نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔

ہاں ہاں یاد ہے۔ شادی اگلے مہینے ہے ۔ پیسے بھی اگلے مہینے بھیجوں گا۔ ویسے بھی گھر تو چاہے جتنابھی پیسہ بھیج دو گھر والوں کا کچھ نہیں سنورتا۔انور نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔ رضا بھی اب چائے پینے لگا تھا۔

٭….٭….٭

تمہیں عاصم زارا کے لیے کیسا لگا؟سیٹھ صاحب نے موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوئے پوچھا۔ شازیہ ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھی ہاتھوں سے نیل پالش اتار رہی تھی۔

اچھا لڑکا ہے۔ زارا بھی اس میں کافی دل چسپی دکھا رہی ہے ۔ دونوں کافی وقت ایک ساتھ گزارتے ہیں۔اب بھی باہر گھومنے گئے ہیں۔شازیہ نے شیشے میں سیٹھ صاحب کا عکس دیکھتے ہوئے کہا۔

اچھا ہے۔ایک دوسرے کو سمجھ لیں۔ممتاز صاحب نے بے ساختہ کہا۔

ہاں۔اب وہ دونوں بچے تو نہیں رہے۔ ویسے بھی انہوں نے زندگی گزارنی ہے۔پسند بھی انہی کی ہونی چاہیے۔ ویسے مجھے عاصم بہت اچھا لڑکا لگا۔زارا کو خوش رکھے گا۔شازیہ نے ہاتھوں پر لوشن لگاتے ہوئے کہا ۔

مجھے بھی عاصم پسند آیا،لیکن میں زارا پر اپنا فیصلہ مسلط کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر وہ عاصم کو پسند کرتی ہے تو مجھے خوشی ہوگی۔سیٹھ صاحب نے موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔

زرینہ آپا اور کب تک یہاں ٹھہرے گی؟شازیہ نے ڈریسنگ اسٹول سے اٹھتے ہوئے کہا۔

وہ کل اسلام آباد واپس جارہے ہیں۔ عاصم کہہ رہا تھا کچھ بزنس کے معاملات ہیں جو نبٹانے ہیں اس لیے جانا ضروری ہے۔

ٹھیک ہے۔ بزنس کو بھی تو دیکھنا ہے۔ہم انہیں دوبارہ جلد دعوت دیں گے۔شازیہ نے سیٹھ صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا۔سیٹھ صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔

٭….٭….٭

میںا سلام آباد واپس جا رہا ہوں۔عاصم نے زارا کو بتایا جو ٹیرس میں کھڑی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ زارا نے اسے بے ساختہ مڑ کر دیکھا۔زارا اور عاصم کی کافی دوستی ہو گئی تھی۔کیوں کہ انہوں نے کافی وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق میں گزارا تھا۔

پھر کب آو¿ گے؟زارا نے عاصم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

جب تم کہو۔عاصم نے زارا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

میرے کہنے پر کراچی چلے آو¿ گے؟ “ 

ہاں جب کہو گی ملنے چلا آو¿ں گا۔عاصم نے بے ساختہ کہا۔

اگر ایسا ہے تو، تو پھر تم میرے کہنے پر رک بھی جاو¿ گے؟زارا نے استفسار کیا۔

تمہارے کہنے پر رک تو نہیں سکتا، لیکن تم مجھے یہ تو کہہ سکتی ہو کہ تم میرا انتظار کرو گی؟عاصم نے گہری آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

زارا اس کی بات پر بے ساختہ ہنسی تھی۔زارا اسے ہمیشہ ایک اچھے دوست کی طرح ٹریٹ کرتی تھی۔اس لیے اس کی کہی باتیں سنجیدگی سے نہیں لیتی تھی۔

میں تمہارا انتظار کیوں کروں گی؟زارا نے اسے شرارت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 

ٹھیک کہا۔ تم میرا انتظار کیوں کروں گی، لیکن میں ہمیشہ تمہارا انتظار کر سکتا ہوں۔عاصم نے زارا کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

کیا مطلب؟زارا نے سوالیہ نظروں سے عاصم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 

کچھ نہیں یار۔اس نے بات ٹال دی۔

میں فون پر تم سے بات کرتا رہوں گا۔جانتی ہو۔ مجھے تم سے باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔“ 

میری باتوں میں کیا کوئی خاص بات ہے؟زارا نے شرارت سے پوچھا۔

بہت خاص۔ میرا دل چاہتا ہے تم بولتی رہو اور میں سنتا رہوں۔عاصم کی بات پر وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔

اچھا ۔میں کیسے یقین کر لوں؟ “ 

آزما کر دیکھ لو۔

میں صرف تمہیں آزمانے کے لیے سارا دن نہیں بول سکتی۔عاصم زارا کی بات پر ہنسنے لگا اور وہ بھی مسکرادی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!