آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

بڑے بھائی رات کے ایک بجے روبی کے پاس آئے۔ وہ پیپر کی تیاری میں مگن تھی۔سب سو چکے تھے سوائے ان دونوں کے ۔روبی نے چونک کر بھائی کو دیکھا۔

آجائیں بھائی۔“ 

پیپر کی تیاری ٹھیک ہو رہی؟

جی بھائی جان اچھی ہو رہی ہے۔ مجھے امید ہے میرا پیپر بہت اچھا ہو گا جو سوال سمجھ نہیں آئے وہ میں نے نوٹس سے دیکھ لیے۔

بیٹا! ساتھ ان شا اللہ بھی کہتے ہیں۔“ 

ان شا اللہ بھائی جان۔وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔

مجھے ریاضی آتی ہوتی تو تمہیں پڑھا دیتا۔اب تو بس مجھے جمع، تفریق، تقسیم اور ضرب آ تی ہے۔وہ بھی میں کیلکولیٹر سے کر لیتا ہوں۔روبی اس بات پر بے ساختہ ہنسی تھی۔ بڑے بھائی بھی مسکرانے لگے۔

تم لوگوں کو میں پڑھتاہوا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے میں خود پڑھ رہا ہوں۔تم دونوں میرے بچوں کی طرح ہو۔بڑے بھائی نے پیار سے روبی کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ بڑے بھائی کے لیے روبی اور انور واقعی بہت خاص تھے۔بڑے بھائی نے انہیں اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔

بڑے بھائی! آپ کو میری وجہ سے چوٹ لگی ہے نا۔ آپ میرے نوٹس لینے مین روڈ پر نہ جاتے اور نہ آپ کو یہ تکلیف ہوتی۔روبی افسردگی سے بولی۔

نہیں بیٹا چوٹ کی کوئی بات نہیں۔ یہ میرے مقدر میں لکھی تھی۔ میں وہاں تمہارے نوٹس لینے نہ جاتا تو کسی اور بہانے چلا جاتا۔ مجھے کوئی تکلیف کوئی درد نہیں ہے۔ فکر مت کرو۔ “ 

بھائی آپ کو درد نہیں ہوتا؟ روبی نے زخموں کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے معصوم لہجے میں پوچھا۔

نہیں…. مجھے ا ن ز خموں سے درد نہیں ہوتا کیوں کہ یہ زخم بھر جاتے ہیں۔بڑے بھائی نے کچھ سوچتے ہوئے گہرا سانس لیا۔ روبی معصومیت سے اُنہیں کو دیکھتی رہی۔

چلو ۔تم اب دل لگا کر پڑھو۔میں تمہیں گرم گرم دودھ لا کر دیتا ہوں۔“ 

نہیں بھائی میں خود د پی لوں گیں۔آپ آرام کریں۔

کوئی بات نہیں بیٹا۔ میں لا دیتا ہوں۔وہ بھائی کو کمرے سے جاتا دیکھتی رہی۔ایک لمحے کو اسے لگا کہ اس نے بھائی سے نہیں اپنے باپ سے باتیں کی ہیں جو فرشتہ بن کر ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ 

٭….٭….٭

وہ گیند اٹھا کے لا۔فیصل نے سامنے کھڑے بھولے سے کہا۔

آ آاچھا۔بھولا بھاگا گیا اور گلی کی دوسری نکڑ سے گیند اٹھا کے لے آیا۔

یار۔بال کروا ۔فیصل نے حیدر کو بلند آواز میں کہا۔ 

میں بھی کھے کھے لوں گا۔بھولا ضد کرنے لگا۔

کیا کہا۔ بھولے؟انور نے شرارت سے کہا۔

میں میں بھی کھے کھے۔ کھے لوں گا۔فیصل،حیدر اور انو ر اس کے اس طرح اٹک اٹک کر بولنے پر ہنس دیے۔

کیا کہا؟ دوبارہ کہہ۔انورکو مذاق سوجھ گیا تھا۔

میں میں نے کہا۔ میں میں بھی کھے کھے ….کھےلوں گا۔وہ سبھی دوبارہ قہقہہ لگانے لگے۔

بھولے بات سن۔ اگر تو یہ کہے گا تو ہم تجھے کھیلنے دیں گے ۔کہہ میں بھولا تھا۔ میں بھولا ہوں۔ میں بھولا رہوں گا۔فیصل کی اس بات پر سارے پھر سے کھل کر ہنسے تھے۔بھولا غصیلی آنکھوں سے انہیں دیکھتا رہا۔ پھر غصے میں پھٹ پڑا۔

میں میں با با بڑے بھائی کو بتاو¿ں گا۔ تم لولولوگ مجھے تنگ کرتے ہو۔اس کی ایک اور معصوم بات پر وہ پھر سے ہنس دیے۔ 

٭….٭….٭

حاجی صاحب ! مزاج کیسے ہیں؟ بڑے بھائی نے حاجی رضوان کو مسجد کی طرف جاتا دیکھ کر کہا۔بڑے بھائی بھی جمعہ پڑھنے جا رہے تھے۔ حاجی صاحب نے زندگی میں کبھی نماز نہیں چھوڑی تھی۔وہ پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔حاجی صاحب ہمیشہ سر پر سفید ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح رکھتے تھے۔انہوں نے ایک بار عمرہ بھی کیا تھا۔اُس کے بعد لوگ انہیں حاجی صاحب کہہ کر پکارنے لگے۔

اللہ کا شکر ہے۔تم سناو¿ کیا حال احوال ہیں؟ پورے ہفتے میں بس جمعے والے دن نظر آتے ہو۔ باقی دن کہاں غائب رہتے ہو؟حاجی صاحب نے پلٹ کر بڑے بھائی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

میں اسٹور پر ہوتا ہوں سارا دن ۔بس جمعے کو اسٹور بند ہوتا ہے تو پھر اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت مل جاتی ہے۔بڑے بھائی نے آستین کے کف چڑھاتے ہوئے کہا۔

نماز کی پابندی کرتے ہو اچھا کرتے ہو۔ہم نے تو مر ہی جانا ہے ۔ بس اعمال آگے جائیں گے۔حاجی صاحب نے اپنی ٹوپی درست کرتے ہوئے کہا۔

جی۔ بالکل حاجی صاحب۔بڑے بھائی نے اثبات میں سر ہلایا۔ 

تمہارا چھوٹا بھائی کدھر ہوتا ہے۔وہ مجھے مسجد میں کبھی نظر نہیں آیا؟

وہ آج اپنے دوست رضا کے ساتھ شہر سے باہر گیا ہے۔ اس لیے جمعہ پڑھنے نہیں آیا۔

ارے میاں۔میں روزانہ کی بات کر رہا ہوں۔“ 

وہ روزانہ مسجد میں نماز پڑھنے نہیں آتا؟بڑے بھائی نے کچھ حیرانی سے پوچھا۔

مجھے نظر آتا تو میں تمہیں تو نا کہتا۔غصہ مت کرنا لیکن تم باپ کی جگہ ہو۔اپنے بہن بھائیوں کی اچھی تربیت کرنا تم پر فرض ہے۔“ 

ٹھیک کہا آپ نے۔ میں اسے کہوں گا۔بڑے بھائی نے سر جھکائے عاجزی سے کہا۔اتنی دیر میں مسجد آگئی اور وہ دونوں مسجد میں داخل ہوگئے۔

مسجد میں تیس چالیس کے قریب نمازی موجود تھے۔مولوی صاحب اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ منبر پر براجمان تھے۔ مولوی صاحب نے خطبے کا باقاعدہ آغاز ایک حدیث سے کیا تھا۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا بار اٹھایااور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بندے کے لیے جنت کی وعید ہے ۔ “ (ابوداو¿دو تر مذی)

بے شک،بے شک۔حاجی صاحب تسبیح والا ہا تھ فضا میں لہراتے ہوئے ہلکی آواز میں بولے۔ سب خاموشی سے خطبہ سن رہے تھے۔مولوی صاحب نے یکے بعد دیگرے بیٹی کی اہمیت پر کئی احادیث سنائیں۔ حاجی صاحب احادیث سن کر بار بار اثبات میں سر ہلاتے۔ارد گرد بیٹھے لوگ سمجھ سکتے تھے کہ حاجی صاحب واقعی بہت دلجمعی سے خطبہ سن رہے ہیں۔

سبحان اللہ! سبحان اللہ!“ ایک اور حدیث سن کر حاجی صاحب نے بے ساختہ کہا۔ ارد گرد بیٹھے کچھ لوگوں کی نظریں پھر سے حاجی صاحب کے تسبیح والے ہاتھ پے اٹھی تھیں جو پھر سے فضا میں لہرایا جا رہا تھا۔ 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!