آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

یار موسم بہت اچھا ہے۔باہر گھومنے چلیں؟زارا نے زین سے کال پر بات کرتے ہوئے مشورہ دیا۔

یار پھر کسی دن چلیں گے۔“ 

تم کچھ دنوں سے میری ہر بات ٹال دیتے ہو۔آخر تمہیں مسئلہ کیا ہے؟ ‘ ‘ زارا نے بے ساختہ کہا۔

یار بس کرو۔ تم آخر چاہتی کیا ہو؟ کبھی کسی کا موڈ نہیں بھی ہوتا۔“ 

تم مجھ سے ایسی باتیں پہلے تو نہیں کرتے تھے؟زارا نے سنجیدگی سے کہا۔

ایک تو تم بات کو پتا نہیں کہاں لے جاتی ہو۔ میں نے تمہیں کیا کہہ دیا جو تم مجھے اتنی باتیں سنارہی ہو؟ یہی کہا ہے کہ پھر کبھی چلیں گے۔زین نے کچھ تلخی سے کہا۔

لیکن تم بدل گئے ہو۔زارا نے آخر اپنے دل کی بات کہہ ڈالی تھی۔

ہاں مجھے پتا تھا تمہارا۔اب ایک یہی بات رہ گئی تھی۔تم کہنا کیا چاہتی ہو کہ میں اب تم سے محبت نہیں کرتا؟زین نے کچھ غصیلے لہجے میں محبت جتائی تھی۔

میں نے ایسا کب کہا؟زارا نے دھیمے لہجے میں کہا۔

تم جب جانتی ہو کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم سے جلد شادی بھی کرنے والا ہوں پھر تم مجھ سے ایسی باتیں کیوں کرتی ہو؟زین نے بے ساختہ کہا۔زارا نے خود کو کچھ لاجواب پایا تھا۔

سوری زین۔ میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا۔مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو۔زارا نے معاملہ سلجھاتے ہوئے کہا۔

سوری؟سوری سے کیا ہو گا؟ تم تو میری محبت پر شک کرنے لگی ہو۔زین نے اسے اس کی غلطی کا مزید احساس دلایا ۔

سوری یارپلیز معاف کردو۔زارا نے پیار سے معافی مانگی تھی۔

ٹھیک ہے ۔معاف کیا ،کیا یاد کرو گی۔زین نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔زارا بے ساختہ مسکرادی۔

٭….٭….٭

وہ مجھے نظر انداز کیسے کر سکتا ہے؟زارا اپنے کمرے میں شدید بے چینی سے ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔

مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ اسے میری ذرا بھی پروا نہیں رہی۔وہ بے قراری سے کھڑکی کے پاس گئی اور باہر دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں ڈوب گئی۔اسے زین کی کہی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔

نہیں، میں غلط سوچ رہی ہوں۔مجھے زین کے بارے میں یہ سب نہیں سوچنا چاہیے۔وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔زوئی اس کی کزن ہے اور کچھ نہیں ۔اس نے خود کو تسلی دی تھی۔

یہ سارے میرے وہم ہیں اور کچھ نہیں۔وہ الجھی نظروں سے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔

اسی لمحے کمرے کا دروازہ کسی نے ناک کیا تھا۔

جاو¿ یہاں سے۔مجھے disturbمت کرو۔ ‘ ‘ زارا نے دروازہ کھولے بغیر تلخی سے جواب دیا تھا۔

اوکے۔ چلا جاتا ہوں۔عاصم نے بلند آواز میں کہا۔ وہ ایک دم سے چونکی اور تیزی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

”I am so sorry.۔مجھے لگا ملازمہ ہے۔زارا نے شرمندگی سے کہا۔

غصہ بتا رہا ہے کہ حالات کچھ خراب ہیں۔عاصم نے شرارت سے کہا۔

ایسا کچھ نہیں ہے۔زارا نے مسکراتے ہوئے بے ساختہ کہا۔ 

میں کیسے مان لوں کہ سب ٹھیک ہے؟ چہرہ دیکھو کیسے مرجھایا ہوا ہے ؟عاصم نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

اگر مجھے کوئی پرابلم ہو گی بھی تو تمہیں اس سے کیا؟زارا نے کچھ بےپروائی سے کہا۔

مجھے مسئلہ ہے۔ تمہارامرجھایا چہرہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ تم مجھے ہنستی ہوئی اچھی لگتی ہو۔عاصم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ کہے بغیر عاصم کو دیکھتی رہی۔

موسم بہت اچھا ہے۔ آو¿ باہر گھومنے چلتے ہیں۔تم فریش محسوس کرو گی۔عاصم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔عاصم نے بے ساختہ کہا۔

”good girl“ 

٭….٭….٭

بڑے بھائی انور کے رویے سے کافی اپ سیٹ تھے ۔وہ پارک میں اکیلے بنچ پر بیٹھے تھے۔ آج پہلی بار وہ پارک کے اسی بنچ پر تنہا بیٹھے تھے ۔ انور نے بڑے بھائی سے انگلینڈ کے ویزے کے پیسے مانگے تھے اور وہ بے بس تھے ۔کیوں کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ انور کی یہ خواہش پورے کر دیتے ۔ وہ کھلم کھلا اسے انکار بھی نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ وہ انور کے رویے سے بہ خوبی اندازہ لگا چکے تھے کہ اب وہ اپنی ضد پورے کر کے دم لے گا۔ اگر اس کی بات سے انکار کیا تو معاملہ مزید بگڑ جائے گا۔انور یہ جانتے ہوئے بھی کہ بڑے بھائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں ،وہ پھر بھی اپنی بات پر بضد قائم تھا۔انہیں انور سے اس رویے کی امید قطعی نہ تھی۔

انہیں رہ رہ کر انور کی کہی باتیں یاد آرہی تھیں۔وہ چاہ کر بھی انور کی باتیں بھلا نہیں سکے تھے۔

میں سب سمجھتا ہوں۔ یہ میرے لیے اتنا پیسہ کیوں لگائیں گے؟وہ مرجھائی آنکھوں سے پارک میں کھیلتے بچوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے۔اس کی یہ بات بڑے بھائی کو اندر سے توڑ گئی تھی۔

افسوس تم نے اپنے بڑے بھائی کوکھو دیا۔بڑے بھائی نے دل میں سوچا تھا۔

میں کون سا ان کی اولاد ہوں۔میرا باپ زندہ ہوتا تو میرے ساتھ یہ سب نہ ہوتا۔انور کی ساری باتیں بڑے بھائی کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں۔

ہاں۔انور میں تمہارا باپ نہیں بن سکا۔ میں تمہارا بھائی ہی تھا اور بھائی ہی رہا۔تم نے ٹھیک کہا۔بڑے بھائی نے دل میں سوچا۔

بڑے بھائی کو پھر اپنے ابا جان کے الفاظ یاد آئے تھے۔

عزیز تم صرف اپنے بہن بھائیوں میں بڑے نہیں ہو۔ تم واقعی بڑے ہو۔تم ایک پھل دار درخت ہو جو کسی کو بھی چھاو¿ں بن کر سایہ دے سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم انور اور روبی کو کبھی دھوپ کی تپش محسوس نہیں ہونے دو گے ۔ کیوں کہ آج سے تم ان کے بڑے بھائی نہیں بلکہ باپ ہو۔“ 

ابا جی مجھے باپ کا رتبہ دیتے ہوئے یہ تو بتایا ہوتا کہ باپ کی زندگی کسی کٹھن سفر سے کم نہیں ہوتی۔مجھے یہ تو بتایا ہوتا کہ باپ ہمیشہ دیتا ہے۔ بدلے میں کچھ نہیں مانگتا سوائے احساس کے۔ مجھے یہ تو بتایا ہوتا کہ باپ کو ہر حال میں اولاد کی خواہشات پوری کرنی ہوتی ہیں چاہے وہ اس کام میں اپنی زندگی ہی خرچ کیوں نہ کر ڈالے۔بڑے بھائی نے نم آنکھوں سے سوچا تھا ۔پھر چپ چاپ اٹھ کر گھر کی طرف چل دیے۔

بڑے بھائی نے جب سے آنکھ کھولی تھی تب سے زندگی میںبس مشقت کی تھی۔ماں باپ کی وفات کے بعد اپنے بہن بھائیوں اور پھر بیوی بچوں کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ خرچ کیا تھا۔ وہ زندگی میں اتنی مشقت کر چکے تھے کہ پینتیس سال کی عمر میں بھی پچپن سال کے لگتے تھے۔ جیسے اپنوں کی فکروں نے انہیں بہت جلد بوڑھا کر دیا تھا۔ان کے چہرے پر جو کبھی خوشی ہوا کر تی تھی وہ اب وقت گزرنے کے ساتھ مدھم پڑنے لگی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!