آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

فے فے فیصل کی کی کدھر ہے؟بھولے نے بے تابی میں اٹکتے ہوئے پوچھا۔بھولے کو فیصل کے حادثے کا پتا چلا تو وہ بھی سول اسپتال پہنچ گیا تھا۔وہ ان کے غمگین چہرے پڑھ سکتا تھا۔حاجی رضوان نم آنکھوں سے دعائیں کر رہے تھے۔

وہ اندر ہے۔ شیشے والے کمرے میں۔انور نے اسے ایمر جنسی روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا ۔فیصل کو آئی سی یو میں ا یک گھنٹہ ہونے کو تھا لیکن ابھی تک بلڈ کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ 

میں میں ان ان اندر جاو¿ں؟بھولا بلند آواز میں بول رہا تھا جیسے وہ گلی میں بولا کرتا تھا۔وہاں کھڑے سبھی کا دھیان لاشعوری طور پربھولے کی بچگانہ حرکتوں اور باتوں پر تھا۔

نہیں یار تجھے اند ر نہیں جانے دیں گے۔اسے مشینیں لگی ہیں۔حیدر نے پریشانی میں بھولے کو ٹالتے ہوئے چپ کروانا چاہا۔

مامامامشین؟بھولے نے پھر سے بلندآواز میں کہا۔ وہ وقت کی نزاکت نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کوئی اکتاہٹ سے اور کوئی صبر سے بھولے کی بھولی باتیں سن رہا تھا۔

بھولے !چپ کر۔ چپ کر کے دعا کر۔ فیصل کے لیے بلڈ مل جائے ۔حیدر نے اسے چپ کروانے کی پھر سے کوشش کی۔

با بابلڈ؟ “ 

خون۔خون۔حیدر نے وضاحت دی۔

خو خو خون؟

یار۔چپ کر جا۔انور نے بھولے کو تقریباً وارن کرتے ہوئے کہا۔وہ سبھی بھولے کی بچگانہ باتوں سے اکتا گئے تھے۔

مے مے میرا خو خو خون۔۔ لے لے لو۔بھولے نے معصومیت سے اپنا بازو حیدر کی طرف بڑھایا۔ ایک دم سے سارے بھولے کی طرف متوجہ ہوئے ۔نہ جانے کیوں سبھی کی نظروں میں امید سی ابھر آئی تھی۔

٭….٭….٭

بھولے کا بلڈ گروپ چیک کروایا گیا۔بھولے کا بلڈ گروپ فیصل سے میچ کر گیا تھا۔ لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر بھولے کا بلڈ فیصل کو لگایا گیا ۔ سبھی کو آج پہلی بار بھولے کا وجود بوجھ نہیں لگا تھا۔ 

ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ فیصل اب کافی حد تک خطرے سے باہر ہے، لیکن وہ ابھی بھی آئی سی یو میں تھا اور کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ حاجی صاحب کو بھولا نیکی کا فرشتہ لگا تھا۔ انہوں نے پیار سے بھولے کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔ 

بھولے۔ آج تو نہ ہو تا تو شاید میں اپنابیٹاکھو دیتا۔بھولا نیم کھلی آنکھوں سے حاجی صاحب کو دیکھتا رہا۔ وہ حاجی صاحب کی بات کا پورا مطلب سمجھ نہیں پایا تھا۔

ٹھی ٹھی ٹھیک ہے۔بھولے نے حاجی صاحب کی بات سمجھ میں نا آنے پرمختصر جواب دیتے ہوئے کہا۔اور بنچ پر بیٹھ کر پھر سے پاس پڑا جوس پینے لگا تھا۔ وہ بنچ پر بیٹھا ااپنی ٹانگیں متواتر ہلاتے ہوئے مزے لے لے کر جوس پی رہا تھا۔ یہ جانے بغیرکہ اس نے آج ایک انسان کی جان بچاکر اپنی زندگی کا قرض اتار دیا ہے ۔

٭….٭….٭

بائیک کی چابی کہاں ہے؟بڑے بھائی نے انور سے پوچھا جو ٹی وی دیکھنے میں محو تھا۔

ٹیبل کے دراز میں ہے۔اس نے ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔ بڑے بھائی نے چابی لینے کی غرض سے ٹیبل کا دراز کھولا ۔دراز سے چابی کے ساتھ ایک ہزار روپے کا نوٹ اور ایک عدد پاسپورٹ بھی بر آمد ہوا۔بڑے بھائی کو پاسپورٹ دیکھ کر جیسے زبردست جھٹکا لگا۔انہیں ایک بار تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیاتھا۔

پاسپورٹ؟بڑے بھائی حیرانی لیے منہ میں بڑبڑائے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ انور یہ سب کر سکتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ چند دن پہلے جو ان کے پیسے گم ہوئے تھے وہ کہاں گئے تھے۔بڑے بھائی شاکڈ تھے اور خود کو بہ مشکل قابو میں رکھتے ہوئے بلند آواز بولے۔ وہ غصے کے عالم میں کمرے سے باہر آئے۔

انور…. “

انور….“ انور ایک دم سے ان کی آواز سن کر ڈر گیا۔ اسے ایک دم سے یاد آیا کہ اس کا پاسپورٹ بھی ٹیبل کے دراز میں رکھا تھا۔

اوہو۔ میرا پاسپورٹ۔ مر گیا۔اس نے سر پکڑتے ہوئے افسوس سے کہا۔

میں نے کہا باہرآو¿۔انور۔انور ناخن چباتے ہوئے باہر گیا۔

یہ….یہ کیا ہے؟بڑے بھائی نے اسے گھورتے ہوئے نہایت غصے میں پوچھا۔

تمہیں منع بھی کیا تھا۔تم باز نہیں آئے؟بڑے بھائی نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پے ایک تھپڑ رسید کیا ۔بڑے بھائی نے زندگی میں پہلی بار انور پر ہاتھ اٹھایا تھا۔انور ہکا بکا بڑے بھائی کو دیکھنے لگا۔رابعہ اور روبی بھی صحن میں آگئی تھیں۔رابعہ بڑے بھائی کو آگے بڑھ کر روکنے لگی ۔

اچھا ہوا آپ نے دیکھ لیا۔ میرا پاسپورٹ۔ میں ہر حال میں باہر جاو¿ں گا اورمجھے کوئی نہیں روک سکتا ۔انور نے اپنا گلا پھاڑکربڑے بھائی کو دوٹوک کہا تھا۔

تمہیں پیسے اٹھا کر چوری پاسپورٹ بنوا نے کی کیا ضرورت تھی؟رابعہ نے غصیلی آنکھوں سے انور کو دیکھتے ہوئے کہا۔وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ چند دن پہلے جو پیسے گم ہوئے تھے وہ آخر کہاں گئے تھے۔ بڑے بھائی اپنا سر پکڑے چارپائی پر بیٹھ گئے۔بڑے بھائی کو ٹینشن کی وجہ سے گھبراہٹ ہورہی تھی۔روبی نے بڑے بھائی کی حالت دیکھتے ہوئے فوراً انہیں پانی کا گلاس دیا۔

میں کیا کرتا؟ میں کئی بار بڑے بھائی سے کہہ چکا ہوں کہ مجھے باہر بھیج دیں۔زندگی میں پہلی بار میں نے بڑے بھائی سے کوئی فرمائش کی ہے۔میں سب سمجھتا ہوں۔ یہ میرے لیے اتنا پیسہ کیوں لگائیں گے؟ میں کون سا ان کی اولاد ہوں۔ میرا باپ زندہ ہوتا تو میرے ساتھ یہ سب نہ ہوتا۔انور کی بات پر بڑے بھائی نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔وہ ہکا بکا اسے کچھ کہے بغیر بے بسی سے دیکھتے رہے۔

اپنی حرکتوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے باتیں سنا رہے ہو؟رابعہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

میںجانتا ہوں مجھے بڑے بھائی سے پوچھے بغیر پیسے نہیں اٹھانے چاہیے تھے، لیکن میں مجبور تھابھابی ۔آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہمارے گھر کے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ بس ایک بار مجھے باہر جانے دیں۔میں اتنا پیسہ کما لوں گا کہ ہماری ساری فکریں ختم ہو جائیں گی۔انور ایک ہی سانس میں بولتا گیا۔

چلے جاو¿ یہاں سے…. چلے جاو¿۔بڑے بھائی نے اسے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ انورپاو¿ں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ روبی بھی چلی گئی تھی۔ رابعہ کی نظر اب انور سے ہٹ کر بڑے بھائی پر گئی تھی۔ گھبراہٹ کی وجہ سے ان کے چہرے کا رنگ بدلا محسوس ہو رہا تھا۔

مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔رابعہ نے ان کی پیشانی پر پھیلا پسینہ صاف کرتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔

نہیں…. میں ٹھیک ہوں۔بڑے بھائی نے نفی میں سر ہلایا۔

آپ ضد مت کریں ۔آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اٹھیں ا ور چلیں میرے ساتھ ۔رابعہ بڑے بھائی کو زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی۔ ڈاکٹر کا کلینک ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!