”ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ ان کا بہت خون بہ گیا ہے ۔ انہیں فوری بلڈ کی ضرورت ہے۔“ ڈاکٹرایمر جنسی روم سے باہر آکر حاجی صاحب سے کہہ رہا تھا۔
”ہم جلدی انتظام کر نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بلڈ بینک سے بلڈ مل جائے گا نا؟ ‘ ‘ حاجی رضوان نے بے حد بے چینی سے پوچھا۔
”دیکھیں آپ حوصلہ رکھیں۔اللہ خیر کرے گا۔اصل میں اے نیگیٹو بلڈ گروپ ریئر ہے۔اگر آپ اس وقت ایک بوتل کا انتظام کر لیں تو شاید ان کی جان خطرے سے نکل جائے۔“ ڈاکٹر کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔حیدر ،انور اور اسی طرح محلے کے اور بھی نوجوان وہاں موجود تھے۔انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر فوراً بلڈ بینک سے بلڈ کا پتا کروایا، لیکن پھر جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ بلڈ بینک میں اے نیگیٹو گروپ کا بلڈ موجود نہیں ہے۔وہ اس امید پر اپنے سارے رشتے داروں کو باری باری کالز کرنے لگے کہ شاید کسی کا بلڈ گروپ اے نےگیٹو ہو، لیکن ہر کال کے بعد ان کی مایوسی مزید بڑھتی جا رہی تھی۔
وہ سبھی آگے بڑھ کر اپنا بلڈ دینے کے لیے تیار تھے، لیکن ان میں سے کسی کا بھی بلڈ گروپ اے نیگیٹو نہیں تھا۔
”اگر فیصل کو کچھ ہو گیا تو میں خود کو معاف نہیں کر پاو¿ں گا۔“ حاجی رضوان نے بھرائی آواز میں کہا۔
”اس میں آ پ کا کیا قصور؟“ انور نے ان کو حوصلہ دینے کی کوشش کی۔
”یار میں نے اسے مارکیٹ بھیجا تھا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اس کے ساتھ یہ سب ہو جائے گا۔ میرا بیٹا آئی سی یو میں زندگی موت کی کشمکش میں ہے۔میں کیا کروں ؟میں بہت بے بس ہوں۔“ حاجی رضوان ہمت سمیٹتے ہوئے بولے۔
”آپ حوصلہ رکھیں۔بلڈ کا انتظام ہو گیا ہے۔“ حیدر حاجی صاحب کی طرف آتا ہوا بولا۔وہ کافی دیر سے موبائل پر کسی سے بات کررہا تھا۔
”وہ کیسے؟“ حاجی صاحب خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”میں نے اپنے دوست کو اسپتال بلایا ہے۔اس کا بلڈ گروپ اے نیگیٹو ہے۔ “ حیدر نے چمکتی آنکھوں سے کہا۔
”یاللہ تیرا شکر ہے۔“ حاجی صاحب نے سکھ کا سانس لیا کیوں کہ انہیں ایک امید کی کرن نظر آنے لگی تھی۔وہ اب سارے حیدر کے دوست کا بے چینی سے انتظار کر نے لگے تھے۔
٭….٭….٭
”I have a surprise for you.“ زوئی نے ایکسائٹمنٹ میں زین سے کہا۔زوئی اسے ایک بہت اچھے ریسٹورنٹ لے کر آئی تھی۔وہ ابھی ریسٹورنٹ سے باہر گاڑی میں بیٹھے بات کر رہے تھے۔
”surprise….? “ زین نے کچھ حیرانی سے آنکھیں سکیڑتے پوچھا۔
”yes .surprise“ زوئی نے بات دہرائی۔
”اندر تو چلو نا۔‘ ‘ زوئی نے اسے ریسٹورنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔وہ دونوں اب ریسٹورنٹ کے اندر چلے گئے تھے۔زوئی نے زین کے لیے آج ایک اسپیشل کینڈل لائٹ ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ان کے ٹیبل کو سرخ پھولوں سے سجایا گیا تھا۔زین کی خوشی قابل دید تھی۔اسے زوئی سے اس سرپرائز کی امید نہیں تھی۔
”Its for you.Do you like it.? “ زوئی نے گہری مسکراہٹ سجائے کہا۔
”I love it.Its amazing yaar.“ زین نے بے ساختہ کہا۔وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔اتفاق سے یہ وہی ریسٹورنٹ تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے زین کو زارا نے کینڈل لائٹ ڈنر کے ساتھ برتھ ڈے وش کی تھی۔اس نے سر جھٹک دیا تھا۔اسی لمحے زین کے موبائل کی گھنٹی بجی۔اس کی نظر بے ساختہ اپنے موبائل کی اسکرین پہ پڑی۔ وہ زارا کی کال تھی۔اس نے کال کاٹ دی۔
”تم نے میرے لیے اتنا سب کیا۔ مجھے بہت اچھا لگا۔“ زین نے پیار بھری نظروں سے زوئی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم میرے لیے بہت اسپیشل ہو۔ پھر میں تمہارے لیے یہ سب کیوں نہ کرتی؟ زوئی۔ تم بھی میرے لیے بہت اسپیشل ہو۔“ زین نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جانتے ہو۔ مجھے لگتا ہے مجھے تمہاری عادت ہو گئی ہے۔ ‘ ‘ زین نے بے ساختہ زوئی کی طرف دیکھا جو گہری نظروں سے زین کو دیکھ رہی تھی۔
”تم دنیا کی سب سے خوب صورت لڑکی ہواور تم۔“ زوئی اس کی طرف دیکھ کر دھیمے انداز میں مسکراتی رہی۔ زین اس کی خوب صورتی کو لفظوں میں پروتا رہا۔
٭….٭….٭
”زرینہ ۔بہت اچھا کیا جو ملنے چلی آئی۔“ سیٹھ صاحب نے خوش کن لہجے میں اپنی بہن سے کہا۔زارا کی پھو پھو عاصم کے ساتھ کراچی آئی تھی۔
”میں نے سوچا کراچی آئے کافی عرصہ گزر گیا ۔ملنے چلی آو¿ں ۔“
”آپ کے آنے سے بہت خوشی ہوئی۔“ شازیہ نے لقمہ دیا۔
”یہ عاصم آج کل کیا کر رہا ہے؟ “ شازیہ نے استفسار کیا۔
”تعلیم مکمل کرنے کے بعد بزنس کر نے کا سوچ رہا ہے۔“ زرینہ نے جواب دیا۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔بہت لائق بچہ ہے۔“ سیٹھ صاحب نے چائے پیتے ہوئے لقمہ دیا۔
”یہ زارا اور عاصم نظر نہیں آرہے؟ “ زرینہ نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
”دونوں باہر گھومنے گئے ہیں۔کہہ رہے تھے کچھ وقت لگ جائے گا۔“شازیہ نے جواباًکہا۔
٭….٭….٭
حاجی صاحب حیدر اور اس کے دوست کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ دونوں بلڈ بینک سے واپس آ رہے تھے۔
”بلڈ کا انتظام ہو گیا۔؟ حاجی صاحب نے بے چینی سے پوچھا۔ حیدر کا چہرہ لٹکا ہوا تھا اور ان کا دوست پریشان حال لگ رہا تھا۔
”نہیں۔“ حیدر نے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”کیوں؟“ حاجی صاحب نے بے ساختہ پوچھا۔
”بلڈ اسکریننگ میں ہیپاٹائٹس کا انکشاف ہوا ہے۔اس کا بلڈ فیصل کو نہیں دے سکتے۔“ حیدر نے بے بسی سے کہا۔ حاجی صاحب مایوسی سے اسے دیکھنے لگے۔
”اللہ بہتر کرے گا۔“ حاجی صاحب نے اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا اور پھر حاجی صاحب بے چینی سے ایمر جنسی وارڈ میں ٹہلنے لگے۔ ان کے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے متواترگر رہے تھے۔محلے سے لے کر رشتے داروں اور دوستوں تک اے نیگیٹو بلڈ کا پوچھ لیا گیا، لیکن ابھی بھی بلڈ کا کہیں سے انتظام نہیں ہو اتھا۔
٭….٭….٭