”بھولے۔ یہ میں تمہارے لیے جوتا لایا ہوں۔ پہن کر دیکھ ۔“ بڑے بھائی نے اس کی طرف جوتا بڑھایا۔
”ما ما میرا جوجو تا؟ “ اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں یار ۔پہن کر دیکھ فٹ ہے کہ نہیں؟“ اس نے خوشی خوشی جوتا پہن کر دیکھا جو اس کے پاو¿ں میں بالکل فٹ تھا۔ وہ خوشی سے مسکراتے ہوئے بڑے بھائی کو دیکھنے لگا۔
”جوتا اچھا ہے؟“ بڑے بھائی نے پوچھا۔
”بو بو بہت اچھا ہے۔برے (بڑے ) بھا بھا بھائی۔“
”پہلے والاپرانا جوتا چھوڑ دے۔یہ نیا جوتا پہنا کر۔“ بڑے بھائی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”جو پو پو پرانا ہو ہو جائے وہ چھو چھو چھو ڑ دیتے ہیں؟ “
”ہاں جو چیز پرانی ہو جائے اسے چھوڑ کر نئی چیز لے لیتے ہیں۔“ بڑے بھائی اسے بچوں کی طرح سمجھا رہے تھے ۔ کیوں کہ ان کے لیے وہ بچہ ہی تھا۔
”میں میں میں بھی پو پو پرانا ہو ہو گیا تھا؟ جو جو وہ….مجھے چھو چھو چھوڑ گیا ۔“
”کون بھولے۔ کون چھوڑ گیا تجھے؟“ بڑے بھائی نے بے ساختہ کہا۔
”آآابا۔“ بڑے بھائی نے اسے چونک کر دیکھا۔ اسے بھولے سے ایسی بات کی امید نہیں تھی۔بھولا چاہے بھولا ہی تھا لیکن وہ اتنا بھولا نہیں تھا۔وہ بھی زندگی کے غم اپنے سینے میں دبائے ہوئے تھا۔ بڑے بھائی چاہ کر بھی اسے کوئی جواب نہیں دے پائے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہارے ہوئے رشتوں کی وکالت بے سود ہوتی ہے۔بڑے بھائی اس کی کمر پر تھپکی دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکے تھے۔
٭….٭….٭
”تمہاری ایسی کون سی مصروفیت ہے جو تمہیں مجھ سے بات کرنے نہیں دیتی؟“ زارا نے کال پر زین سے کچھ چبھتے لہجے میں کہا۔ زارا کو اسلام آباد گئے کچھ دن گزر گئے تھے۔
” یار ایسی کوئی بات نہیں۔میں تمہارے لیے کبھی مصروف نہیں ہو سکتا ۔ تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہو۔ “ زین نے تحمل مزاجی سے کہا۔
”میں جانتی ہوں، لیکن میں جب بھی کال کرتی ہوں۔ تم زیادہ تر مصروف ہوتے ہو۔ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔“
”تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ “ زین نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مجھے تمہاری مصروفیت سے کوئی غرض نہیں۔بس تم مجھے میرا وقت دیا کرو۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔“ زارا نے شکوہ کیا۔
”سوری یار۔ میں کچھ مصروف تھا، لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں تھا کہ میں تم سے بات نہیں کرناچاہتا۔“ زین نے اپنی صفائی میں کہا۔
”ہوں معلوم ہے۔“ زارا نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”تم جانتی ہو نامیں تم سے بات نہ کروں تو میرا دن نہیں گزرتا۔“ زین نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔زارا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”جھوٹ بہت بولتے ہو۔“ زارا نے ہنستے ہوئے کہا۔زین بھی ہنسنے لگا۔
٭….٭….٭
”بڑے بھائی! مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔“ انور بڑے بھائی کے کمرے میں آیا تھا جب بڑے بھائی رجسٹر پر کچھ حساب کتاب لکھ رہے تھے۔
”ہاں کہو ۔انور کیا بات ہے؟ “
”بھائی۔ میں بی کام کر چکا ہوں ۔میں اب مزید پڑھنا نہیں چاہتا۔“ بڑے بھائی نے بے ساختہ انور کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”کیوں کیوں نہیں پڑھنا؟ “
”بھائی پڑھ لکھ کر پیسے ہی کمانے ہیں وہ میں اب بھی کما سکتا ہوں۔“ انور نے بے ساختہ کہا۔
”تم تعلیم کو ہمیشہ پیسوں میں کیوں تولتے ہو؟ پیسہ زندگی کی ضرورت ہے اور کچھ نہیں۔تعلیم شعو ر ہے جو دولت بھی نہیں دے سکتی۔اس لیے تعلیم کو پیسوں میں مت پرکھا کرو۔“ بڑے بھائی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”جو بھی ہے۔ پیسہ کمانے کے لیے ہر کوئی پڑھتا ہے۔کیوں کہ ہر کوئی جاب کی تلاش میں ہے۔“ انور نے اپنا مدعا واضح کیا۔
”تو اب کیا چاہتے ہو؟ “ بڑے بھائی نے استفسار کیا۔
”میں جاب کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کے کندھوں پر مزید اپنی تعلیم کا بوجھ ڈالنا نہیںچاہتا۔“ انور نے دوٹوک کہا۔
”لیکن مجھے یہ بوجھ نہیں لگتا۔ میں چاہتا ہوں تم مزید پڑھو اور پڑھ لکھ کر افسر لگ جاو¿ جس دن تم افسر لگو گے اس دن اصل میں، میں افسر لگوں گا۔“ بڑے بھائی نے آنکھوں میں امیدیں سجائے کہا۔
”لیکن میں جاب کرنا چاہتا ہوں۔پیسہ کمانا چاہتا ہوں۔“
” مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں تمہیں بی کام کے بعد بہت اچھی جاب مل سکتی ہے؟“ بڑے بھائی نے اپنا چشمہ اتارتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں پاکستان میں جاب کرنا ہی نہیں چاہتا۔“ انور آخر دل کی بات منہ پر لے آیا تھا۔
”تو پھر؟“
”میں باہر جانا چاہتا ہوں۔“
”لیکن تم باہر جانا کیوں چاہتے ہو؟“بڑے بھائی نے بے ساختہ پوچھا۔
”میں اس لیے باہر جانا چاہتا ہوں تا کہ پیسہ کما سکوں۔پھر ہمارے حا لات بھی بدل جائیں گے۔ اورپھر سوچ سوچ کر پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔“ انور نے دوٹوک کہا۔
”میں نے آج تک تمہیں پیسے کی کمی نہیں ہونے دی۔پھر کس لیے تم باہر جانا چاہتے ہو؟“
”بڑے بھائی پلیز۔ ایک بار باہر جانے دیں۔بس ایک بار۔“ وہ بڑے بھائی کے پہلو میں بیٹھا منت کر رہا تھا۔بڑے بھائی نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
٭….٭….٭