سیٹھ صاحب فنی تعلیمی فاو¿نڈیشن کی افتتاحی تقریب سے واپس آرہے تھے ۔ جب ٹریفک جام دیکھ کر ڈرائیور بولا۔
”صاحب جی ٹریفک بند ہے۔ انتظار کرنا پڑے گا۔“
”انتظار کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں ۔“ سیٹھ صاحب نے موبائل پر نظریں جمائے کہا۔ سیٹھ صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنے موبائل میں انہماک تھے جب ایک پھول بیچنے والے بچے کا میلا کچیلا ہاتھ ان کی طرف بڑھا۔سیٹھ صاحب نے اپنے موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوئے بچے کو دیکھا جس کی عمر دس بارہ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ اس بچے کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی اور اس کے ہاتھ میں پکڑے وہ چند پھول اس کی کل کائنات تھے۔
”صاحب جی پھول لے لو۔“ بچے نے معصومیت سے کہا۔سیٹھ صاحب نے تلخی سے اسے دیکھتے ہوئے سائیڈ ویو مرر اوپر چڑھایا اور سر جھٹک کر پھر سے موبائل میں مگن ہو گئے۔وہ بچہ متواتر گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتا رہا ۔سیٹھ صاحب حقارت سے اسے دیکھ کر تلخی سے بولے۔
”اسے یہاں سے ہٹا دو۔ مجھے disturbکر رہا ہے۔“ سیٹھ صاحب نے اپنے ڈرائیور سے کہا ۔اس نے بچے کو ڈانٹتے ہوئے وہاں سے جانے کو کہا۔بچہ جان گیا تھا کہ اس کے لیے گاڑی کا دروازہ ہر گز نہیں کھلے گا وہ مایوس کن آنکھیں لیے واپس پلٹ گیا تھا۔ٹریفک ابھی بھی جام تھی۔ اس بچے کے جانے کے بعدیکے بعد دیگرے کئی بچوں نے سیٹھ صاحب کی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا تھا لیکن کسی کے لیے بھی دروازہ نہیں کھلا تھا۔
٭….٭….٭
”تمہاری خالہ کیسی ہیں؟“ زارا نے پیزے کی بائٹ لیتے ہوئے کہا۔وہ زین کے ساتھ باہر گھومنے آئی ہوئی تھی۔
”ٹھیک ہیں۔ موم توآج کل بہت خوش ہیں۔ان کی بہن اتنے سالوں بعد جو آئی ہے۔“ زین نے کولڈ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
”یار تم آج کل کافی مصروف رہنے لگے ہو۔“ زارا نے ایک اور بائٹ لیتے ہوئے کہا۔
”بس یار مہمانوں کی وجہ سے مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ “ زین نے بے ساختہ کہا۔زارا اثبات میں سر ہلانے لگی۔
”ہاں یار مجھے یاد آیا۔ میں کچھ دنوں کے لیے پھوپھو کو ملنے اسلام آباد جا رہی ہوں۔“
”کون سی پھو پھو؟ “ زین نے استفسار کیا۔
”یار میری ایک ہی پھوپھو ہے جو اسلام آباد رہتی ہیں۔“ زارا نے وضاحت دی۔
”اچھا اچھا۔ سیدھا کہو نا کہ عاصم کے گھر جا رہی ہوں؟ “ زین نے زارا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟ “ زارا نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
”کچھ نہیں یار ۔ ایسے ہی تنگ کر رہا تھا۔“ زین نے کندھے اُچکاتے ہوئے شرارت سے کہا۔ زارا دبی سی مسکراہٹ لیے زین کو دیکھتی رہی۔
”میں اسلام آباد جا کر تمہیں مس کروں گی۔“ زارا نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
”یار مس تو میں بھی بہت کروں گا۔ہم روز فون پر بات کیا کریں گے۔“ زین نے حل نکالتے ہوئے کہا۔زارا مسکرانے لگی۔
”کال سے یاد آیا ۔میں کل تمہیں اتنی کالز کرتی رہی لیکن تم نے کال پک ہی نہیں کی۔“ زارا نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
”وہ….میں….“ زین نے گلا صاف کیا۔
”سو رہا تھا۔“ زین نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”Its ok“ زارا نے بے سا ختہ کہا۔
٭….٭….٭
”بڑے بھائی میری اتنی مہنگی دوائیاں آپ کیسے پوری کر تے ہیں؟“ انور نے بڑے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
”چل چھوڑ یار۔یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں۔ میرے لیے انور سے مہنگی کوئی چیز نہیں ہے۔بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاو¿۔“ بڑے بھائی نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”بھائی میں جب پیسے کماو¿ں گا تو آپ کا بینک بھر دوں گا۔ پھر آپ جہاں دل چاہے خرچ کیا کرنا۔“ انور نے پر امید لہجے میں بے ساختہ کہا۔بڑے بھائی اس کی بات پر ہنسے تھے۔
”یار۔پڑھو لکھو گے تو کماو¿ گے۔ اس لیے پہلا کام پڑھنا ہے ۔ اس لیے ٹھیک ہوجاو¿ پھر دل لگا کر پڑھنا۔ “
”جب میں پیسے کمانے لگ گیا تو پھر آپ کوئی کام نہیں کریں گے۔“ انور نے بڑے بھائی کو چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔جیسے تم کہو ویسے ہی کریں گے۔“ بڑے بھائی نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔وہ بڑے بھائی کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔
٭….٭….٭
”بھو لا اپنے بستر پے لیٹا بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ وہ پھر سے اپنی چین سے باتیں کرنے لگا تھا۔
”تو توتجھے پتا ہے۔حیدراتا( اتنا )با با برا (بڑا) کتا لا یا ہے۔ فیصل مو مو مجھے کہتا تھا کو کوکتے کو ہا ہاہڈی ڈال کے آو¿ ۔ پھی پھی پھر میں نے کو کو کتے کو ہا ہا ہڈی ڈالی تھی۔کو کو کتا مو مو مجھے کا کا کٹنے لگا تھا۔ او او اس کے با با برے برے (بڑے) دا نت تھے۔ ‘ ‘ وہ چین کو دیکھتا ہوا یوں بول رہا تھا جیسے وہ کسی انسان سے مخاطب ہو۔چین سے بات کرنے کے اسے دو فائدے ضرور تھے کہ اس کی تنہائی ختم ہوجاتی تھی اور دوسرا چین اس کی بات سے ہمیشہ اتفاق کرتی تھی۔
”میں میں بچ گیا۔ہاں حیدرا ٓ آ آگیا تھا۔ تو تو تجھے پتا ہے ۔کتا کا کا کاٹے توتو کیا ہو ہو ہو تا ہے؟ “
”تو تو تجھے نئی( نہیں )پتا؟“ وہ سوالیہ آنکھوں سے چین کو دیکھتا ہوا بولا۔
”خو خو خون نکلتا ہے۔اتا (اتنا )خو خو ن نکلتا ہے۔“ وہ اپنے ہاتھ کو فضا میں لہراتے ہوئے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تو توتجھے پا پا پتا ہے۔ میرے خو خو خون نکل آتا تو کسی نے مجھے دا دا دوائی بھی نئی(نہیں) دے دے دینی تھی۔ میں میں نے پھی پھی پھر وے ویسے ہی ما ما مر جانا تھا۔ پھی پھی پھر حے حے حیدر آگیا۔ میں میں بچ گیا۔“ رات کے اندھیرے میں وہ اپنے بستر پر لیٹا خود کلامی سے اپنا دل ہلکا کرتا رہا پھر نیند کی وادی میں کھو گیا۔
٭….٭….٭