”تمہاری پھوپھو کی کال آئی تھی۔“ شازیہ نے زارا کو بتایا جو پاپ کارن کھاتے ہوئے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔زارا کی پھوپھو اسلام آباد رہتی تھیں۔وہ شروع ہی سے زارا سے بہت لگاو¿ رکھتی تھیں۔ان کی اپنی کوئی بیٹی نہیں تھی۔ عاصم ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔شاید اسی لیے وہ زارا سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتی تھیں۔
”پھر کیا بات ہوئی؟ “ زارا نے استفسار کیا۔
”تمہارا حال چال پوچھ رہی تھیں۔ کہہ رہی تھیں زارا کے بغیر اداس ہو گئی ہوں۔“
”so sweet .۔ آپ کی پھو پھو سے اور کیا بات ہوئی؟ “ زارا نے پاپ کارن اچھال کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”کہہ رہی تھیں۔ زارا کو کچھ دنوںکے لیے اسلام آبادبھیج دو۔“
”میں چلی تو جاو¿ں لیکن اتنے دن میں وہاں کروں گی کیا؟“ زارا نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
”عاصم آج کل پاکستان آیا ہوا ہے۔تم وہاں بور نہیں ہو گی۔“
”Oh really پھر تو میں ضرور جاو¿ں گی۔“ زارا نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
”زوئی تم یہاں ہو؟ میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا۔ “ زین نے اسے مخاطب کیا جو لان میں اپنے خیالوں میںگم صم کھڑی تھی۔
”Yes I am here“ زوئی نے پلٹ کر زین کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں پاکستان کیسا لگا؟“ زین نے استفسار کیا۔ زین بار بار زوئی سے بات کر تا اور ایک لمبی گفتگو شروع کر لیتا۔ شاید اس کی وجہ زوئی کی خوب صورتی تھی۔
”Its a great place.but still I wanna go back to America.“ زوئی نے بے ساختہ کہا۔
”Why you wanna go back to America.? Is there any problem in Pakistan?“ زین نے سوالیہ آنکھیں لیے کہا۔
”yes“ زوئی نے بے ساختہ کہا۔
”whats the problem?“
”موم ۔یہاں میری شادی کے لیے آئی ہیں۔“
”What…?‘ ‘ زین نے بے ساختہ کہا۔
”موم چاہتی ہیں میں کسی پاکستانی لڑکے سے شادی کروں because Pakistani boys have some values that the American boys don’t have.“ زوئی کی بات سن کر زین اس کی الجھن سمجھ گیا تھا کہ اس کی ماں اسے یہاں شادی کر و انے کی غرض سے لائی ہے اور زوئی یہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔
”خالہ کی بات ٹھیک بھی تو ہوسکتی ہے؟ “ زین نے بے ساختہ کہا۔
” I don’t think so.“ زوئی نے جواباً کہا۔ پھرزوئی لان میں ٹہلنے لگی۔ زین بھی اس کے ساتھ لان میں ٹہلنے لگا۔
٭….٭….٭
آج فنی تعلیمی فاو¿نڈیشن کی افتتاحی تقریب تھی اور چیف گیسٹ کے بارے میں بھلا کون نہیں جانتا تھا۔ سیٹھ صاجب کو اسٹیج پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ سیٹھ صاحب نے بھرپور تالیوں کی گونج میں اپنی نشست سے اسٹیج تک کا سفر طے کیا تھا۔سیٹھ صاحب اب اسٹیج پر پہنچ کر مائیک میں بولنے لگے۔
”یہاں موجود سبھی معزز مہمانوں اور معزز لوگوں کو سیٹھ سیف اللہ کا سلام۔اس خوشگوار دن کا آغاز ایک بہت شاندار اور بامقصد کام سے کرنا واقعی میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔“ زوردار تالیوں کی گونج سے فضا پھر سے جھوم اُٹھی تھی۔
”ہمارے ملک میں غریب لوگ پس رہے ہیں۔زندگی جینے کے لیے ترس رہے ہیں۔ غریب آخر کب تک یوں جیتے جی مرتے رہے گے۔ آئیں آج ہم سب مل کر ایک ایسا بیج لگائیں جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک پھلدار شجر بن کر ابھرے۔ “ پھر سے بے تحاشا تالیاں گونجنے لگیں۔
”میں اس بیج کو شجر بننے تک پانی دیتا رہوں گا۔میں کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔“ تالیوں کی پھر سے گونج ابھری۔
”مجھے فخر ہے کہ اللہ نے مجھے فلاحی کاموںکے لیے چنا ہے ۔ میں پہلے بھی غریبوں کے لیے بہت کام کر چکا ہوں اور اللہ کے فضل سے آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ میں اس فاو¿نڈیشن کے تمام ممبران کو داد دیتا ہوں کیوں کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے اور میں….“ اور اسی طرح سیٹھ صاحب اسٹیج پر کھڑے اپنے قیمتی الفاظ کا ضیاع کرتے رہے۔ لوگ ان کے ہر ایک جملے پر تالیاں بجاتے رہے ۔ گویا انہوں نے ہمیشہ کی طرح آج کی تقریب میں بھی سبھی لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔
٭….٭….٭
بڑے بھائی گھر آئے تو ہاتھ میں شاپر پکڑ رکھے تھے ۔وہ آج بازار سے گھر والوں کے لیے موسم گرما کے لیے کپڑوں کی خریداری کر کے لائے تھے۔انہوں نے ایک شاپر روبی کو اور ایک رابعہ کو تھما دیا تھا۔
”بڑے بھائی اس میں کیا ہے؟“ روبی نے شاپر پکڑتے ہوئے کہا۔
”اس میں تمہارے اور انور کے لیے کچھ کپڑے ہیں۔“ بڑے بھائی نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
وہ کپڑے دیکھ کر بے حد خوش ہوئی تھی اور شکریہ ادا کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ رابعہ شاپر سے کپڑے نکال نکال کر بیڈ پر رکھنے لگی۔ شاپر میں سے ایک جوتا بھی نکلا تھا۔رابعہ جوتاہاتھ میں پکڑے بولی ۔
”یہ جوتا کس کے لیے ہے؟ “
”او ہاں ۔ بھولا کب سے ٹوٹا جوتا پہن کر گھومتا رہتا ہے۔آج میں بازار گیا تو بھولے کا خیال آگیا۔سوچا اس کے جوتا لیتا جاو¿ں۔“ رابعہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ رابعہ پھر سے کپڑے دیکھتے ہوئے حیرانی سے بولی۔
”آپ نے اپنے لیے کپڑے نہیں لیے؟“
”میں نے نئے کپڑے کیا کرنے ہیں؟ میرے پاس اتنے سوٹ تو ہیں۔“ بڑے بھائی نے جوتا اتارتے ہوئے کہا۔
”آپ کو کس نے کہا کہ آپ کے پاس اتنے سوٹ ہیں؟ “
”زیادہ نہیں ہیں تو تھوڑے بھی کب ہیں ۔ ویسے بھی میں نے اپنے کپڑوں پر خرچ کر کے کیا کرنا تھا۔“ بڑے بھائی نے چارپائی کے پاس پڑی چپل پہنتے ہوئے کہا۔
”آپ کی باتیں مجھے سمجھ نہیں آتیں۔میرے چار سوٹ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ میرے لیے دو لے آتے ۔دو آپ اپنے لیے لے آتے۔“ رابعہ نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”مجھے جب ضرورت ہی نہیں تھی تو کیا کرتا خرید کر۔ چلو چھوڑو۔تم کھانا گرم کرو ۔بھوک بہت لگی ہے۔“ بڑے بھائی فریش ہونے کے لیے باہر چلے گئے۔ رابعہ بیڈ پر بکھرے اپنے اور اپنے بچوں کے کپڑے گم صم سی بیٹھی دیکھتی رہی۔ پھر اُٹھ کر انہیں سمیٹنے لگی۔
٭….٭….٭