شام کا وقت تھا۔ خالد حسین، سیٹھ صاحب کے گھر آئے تھے۔ وہ آج پھر سے سیٹھ صاحب کے گھر کسی مقصد کے تحت آئے تھے۔ ان کی این جی او غریبوں کے لیے فنی تعلیمی ادارہ کھولنا چاہتی تھی۔اسی مقصد کے لیے خالد اپنے پروجیکٹ کی detailلیے سیٹھ صاحب کے سامنے موجود تھے۔ خالد حسین بولے ۔
”سیٹھ صاحب۔آپ کو بھلا ہمارے شہر میں کون نہیں جانتا اور آپ اب تک غریبوں کے لیے اتنے فلاحی کام کر چکے ہیں کہ آپ کا نام تاریخ میں لکھنے کے لائق ہے۔“
”بس اللہ جس کو توفیق دے۔ باقی آپ کی محبت ہے۔“ سیٹھ صاحب نے جواباً کہا۔
”ہم غریبوں کے لیے ایک فنی تعلیمی فاو¿نڈیشن کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔یہاں ہم غریبوں کو مفت فنی تعلیم دے کر انہیں ہنر مند بناناچاہتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ بہت سی عورتیں ہنر اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دھکے کھارہی ہیں۔ہم ایسی ماو¿ں کو ہنر دینا چاہتے ہیںتاکہ وہ اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دے سکیں۔“ خالدصاحب نے لمبی تمہید باندھی تھی۔
”بہت اچھی کاوش ہے۔ اگر غریب عورتیں ہنر سیکھ لیں گی تو واقعی ان کی زندگی بدل…. “ سیٹھ صاحب اپنی قیمتی آرا دینے ہی والے تھے کہ ایک عورت بری طرح بے بسی میں روتی ہوئی اپنے چار سالہ بیٹے کو با زوو¿ں پے لٹائے سیٹھ صاحب کے پاس آئی تھی ۔ اس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی تھیں جن کی عمر سات آٹھ سال سے زیادہ نہیں تھی۔سیٹھ صاحب کے گھر کا چوکیدار سرور اس عورت کے پیچھے بھا گا بھاگا آرہاتھا تا کہ وہ عورت سیٹھ صاحب کے کام میں خلل نہ ڈالے۔
”بی بی! بی بی ! بات سنو۔باہر چلو۔بی بی….“ سرور چلاّتا ہوا اس عورت کو واپس جانے کا کہہ رہا تھا، مگر وہ ایک بھی لفظ سننے کو تیار نہ تھی۔وہ روتی ہوئی سیٹھ صاحب کے پاس آئی تھی۔سرور چاہ کر بھی اسے روک نہیں پایا تھا۔خالد بھی اس لاچار عورت کو دیکھنے لگے۔سیٹھ صاحب نے آنکھوں میں شفقت لیے اسے دیکھا۔
”صاحب جی۔میں بی بی کو کب سے کہہ رہا ہوں کہ سیٹھ صاحب مصروف ہیں، مگر یہ ڈھٹائی سے اندر آ گئی۔“ سرور نے اپنا پتا صاف کرنے کی کوشش کی۔
”کوئی بات نہیں۔ بی بی کیا مسئلہ ہے؟“ سیٹھ صاحب عورت سے مخاطب ہوئے۔
”وہ جی میرے بیٹے کو کینسر ہے۔کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے ۔ڈاکٹر کہتا ہے اس کی فیس دو گی تو علاج کروں گا۔ صاحب جی میرے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں۔“ وہ بیٹے کو لان کی نرم نرم گھاس پر لٹاتے ہوئے بولی۔
”تمہارا شوہر کیا کرتا ہے؟“ سیٹھ صاحب نے دل چسپی اور طمانیت سے سوال کیا۔
”وہ جی مزدوری کرتا تھا اور ایک بم دھماکے میں مارا گیا۔ اس کے بعد میں ہی اپنے بچوں کو پالتی ہوں جی۔“ سیٹھ صاحب طمانیت سے اس کی روداد سنتے رہے۔
”مجھے کسی نے بتایا یہاں ایک سیٹھ رہتا ہے جو غریبوں کی بڑی مدد کرتا ہے۔صاحب جی ۔ہم غریبوں کی کوئی نہیں سنتا۔ہم مجبورہیں، میرے بچے کا علاج کروا دیں ورنہ یہ مر جائے گا۔ “ وہ عورت بار بار اپنے پلو سے تو کبھی آستین سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بول رہی تھی۔سیٹھ صاحب نے اس کی بات سنتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالااور گنے بغیر ہی ہزاروں کے چند نوٹ عورت کی طرف بڑھا دیے اور کہنے لگے۔
”جا بی بی ۔اپنے بچے کا علاج کروالے۔“
”صاحب جی ۔اللہ تیرا بھلا کرے۔اللہ تیرا بھلا کرے۔ تیرے بچے جیون۔اللہ تجھے باگ لگاوے۔“عورت دعائیں دیتے ہوئے چلی گئی۔
خالد حسین سیٹھ صاحب اور عورت کی گفتگو دل چسپی سے سنتے رہے۔
”سیٹھ صاحب بہت بڑا دل ہے آپ کا۔ “ خالد حسین نے بے ساختہ کہا۔
”بھئی اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ کیا، تو کیا ،کیا۔“ سیٹھ صاحب نے عاجزانہ انداز میں کہا۔
”پھر بھی سیٹھ صاحب ایسے غریب تو آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔آپ کس کس کی مدد کریں گے؟“
”اللہ کو پتا ہوتا ہے کس بندے نے کس وقت کس کے کام آنا ہے۔یہ سب تو اللہ کرواتا ہے۔میری کیا مجال ہے۔ ویسے بھی میں تو ایک حقیر سا انسان ہوں۔میں کسی کی کیا مدد کروں گا۔جو نیکیاں خود چل کر پاس آئیں انہیں چھوڑنا خود سے زیادتی کرنا ہے۔ “ سیٹھ صاحب ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے بولے۔
”اللہ نے اسی لیے آپ کے مال میں اتنی برکت رکھی ہے ۔سیٹھ صاحب۔“ خالد حسین نے متاثر ہو کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ سیٹھ صاحب مسکرنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے وہ پھر سے اپنے پروجیکٹ کے بارے میں بات کرنے لگے تھے۔
٭….٭….٭
محلے میں کافی افسردہ ماحول تھا کیوں کہ آج اماں نیفاں صبح چھے بجے انتقال کر گئی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ کافی بیمار رہنے لگی تھی۔بخار سے لڑنے کی جیسے اس کے جسم میں مزید سکت نہ تھی۔ اسی لیے بھولا کچھ عرصے سے بلا ناغہ اماں کے گھر کی صفائی کیا کرتاتھا اوراماں کو دکان سے سودا سلف لا دیتا تھا۔ بھولا آج بھی حسب معمول صبح کے وقت اماں کے گھر صفائی کی غرض سے گیا تھا۔ اس کے بار بار آواز دینے کے با وجود اماں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔پھر جلد ہی اماں نیفاں کی موت کی خبر پورے محلے میںپھیل گئی تھی ۔
سارے محلے کے لوگ اماں نیفاں کی وفات پر اماں کو یاد کرتے ہوئے اماں پر تبصرے کر رہے تھے۔
”بڑی اچھی عورت تھی۔ساری زندگی شرافت سے گزاری۔“
”بس جی عمر ہی ایسی تھی۔بڑھاپا جو آگیا تھا پھر مرنا تو ہر انسان کو ہی ہے۔“
”نیک عورت تھی۔محلے داروں کا خیال کرتی تھی۔“
”اللہ کو پیاری ہوگئی ہے۔اللہ اس کے گناہ معاف کرے۔“
”اس کے گھر کا کیا ہو گا؟ “
” ایک دکان بھی ہے جہاں سے اماں کو کرایہ آتا تھا۔“
”اماں کی دکان کدھر جائے گی؟ “
”گھر کیا رشتے دار اپنے نام کر لیں گے؟“
”رشتے داروں نے ساری عمر اس کو مڑ کر نہیں پوچھا ۔اب گھر کس منہ سے اپنے نام کریں گے؟“
”جو بھی ہو ۔حق تو رشتے داروں ہی کا ہے۔محلے داروں کا تھوڑی ہے۔“
”اماں کو چاہیے تھا مرنے سے پہلے اپنی جائیداد کسی کے نام کر جاتی ۔“
”دکان اور گھر ایسے ہی چھوڑ کر مر گئی ہے۔کسی کے نام ہی کر جاتی ہے۔اب پتا نہیں یہ چیزیں کس کے ہاتھ لگتی ہیں۔“
محلے داروں نے اماں نیفاں کے بارے میں ہر وہ تبصرہ کیا تھا جو انہیں محلے دار ہونے کی حیثیت سے کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ تبصرے اماں نیفاں کی تدفین سے پہلے ہی کر لیے تھے۔انہوں نے اماں کی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک ساری زندگی کا ایک ایک واقعہ یاد کیا تھا۔ اس کی دکان سے آنے والا کرایہ، اس کی شوہر کے ساتھ گزری زندگی، وہ دودھ دہی والے سے کیا باتیں کرتی تھی،طارو کی دکان پر جاتی تو کن موضوعات پر گفتگو کرتی تھی،گویا اماں کی ساری زندگی ایک فلم کی طرح نظروں سے گزر گئی تھی۔ محلے کے سارے مرد اماں نیفاں کے جنازے میں شریک تھے۔ حاجی صاحب نے جنازہ پڑھایا تھا۔اماں کی تدفین کے بعد سبھی اپنی اپنی زندگی میں ایسے مشغول ہو گئے جیسے اماں نیفاں اس محلے میں کبھی آئی ہی نہیں تھی۔ گویا اماں کی تدفین کی دیر تھی محلہ اسی شکل میں لوٹ آیا جس شکل میں وہ اماں کی وفات سے پہلے تھا۔لڑکے جہاں روز بیٹھ کر قہقہوں کے سنگ گپیں ہانکتے تھے آج بھی وہیں بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔ طارو کی دکان پر محلے کے مردوں اور لڑکوں کی بلا ناغہ جمتی محفل بھی آج ویسے ہی جمی ہوئی تھی۔ کسی نے بھی اماں نیفاں کے بچھڑجانے کے غم میں چند آنسو تک نہیں بہائے تھے۔سوائے ایک انسان کے۔وہ اپنے گھر کے ایک کونے میں بیٹھا اماں نیفاں کے لیے چپ چاپ آنسو بہا تا رہا اور وہ تھا ”بھولا۔“
٭….٭….٭
بڑے بھائی بے حد پریشانی کے عالم میں چارپائی پر آ کر بیٹھے تھے۔رابعہ نے انہیں پانی کا گلاس دیا اور پاس بیٹھ کر فکرمندی سے پوچھنے لگی۔
”آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ آپ تو انور کی کھانسی کی دوا لینے گئے تھے نا؟“
”اچھی خبر نہیں ہے۔“ بڑے بھائی نے مایوس کن لہجے میں کہا۔
”کیوں کیا ہوا؟“ رابعہ نے بے ساختہ کہا۔اتنی دیر میں روبی بھی ان کے پاس آگئی۔
”انور کو ٹی بی ہے۔“ بڑے بھائی نے حوصلہ سمیٹتے ہوئے کہا۔
”کیا….“روبی نے پریشانی سے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔ رابعہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
”ڈ اکٹر نے بتایا ۔یہ مرض اندرہی اندر انسان کو کھاجاتا ہے اور اس کا مرض پہلے ہی کافی بڑھ چکا ہے۔ اس کا بر وقت علاج ضروری ہے ۔“ بڑے بھائی نے وضاحت کی۔
”ہمیں لگا تھا موسمی کھانسی ہے خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ “ رابعہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
”بڑے بھائی انور کا ڈاکٹر نے علاج شروع کر دیا؟“ روبی نے بے چینی سے پوچھا۔
”ہاں ڈاکٹر نے انور کا علاج شروع کر دیا ہے۔یہ زندگی موت کے فیصلے ہیں۔ان میں دیر نہیں کر سکتے ۔بس انور کی صحت کی دعا کیا کرو۔“بڑے بھائی نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے حوصلہ دیا۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
٭….٭….٭