”روبی مجھے خوشی ہے کہ تم میرے ساتھ کالج پڑھ رہی ہو۔ورنہ مجھے لگا تھا ہماری دوستی بس اسکول تک ہے۔مجھے یقین نہیں تھا کہ تم بھی کالج آو¿ گی۔“ روبی کی دوست سارانے خوشی کن لہجے میں کہا۔
”کیوں، تمہیں کیوں لگتا تھا کہ میں کالج نہیں آو¿ں گی؟“ روبی نے استفسار کیا۔
”مجھے معاف کرنا، لیکن تمہارے والد ین نہیں ہیں۔مجھے نہیں لگتا تھا کہ تمہارے بڑے بھائی تمہیں کالج بھیجیں گے۔“
”نہیں بڑے بھائی ایسے نہیں ہیں۔وہ بہت اچھے انسان ہیں۔انہوں نے ہمیں باپ کی طرح پالا ہے۔“
”ہاں میں اندازہ لگا سکتی ہوں۔ورنہ ایک چھوٹا سا جنر ل ا سٹور چلانے والا انسان اپنے بچوں کی تعلیم پوری کر لے تو بہت ہے، لیکن وہ تم دونوں بہن بھائیوں کی تعلیم پر بھی خرچ کر رہے ہیں۔“ سارا کی باتیں سن کر روبی نے فخریہ انداز میں کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”ہاں ایسا ہی ہے۔ ویسے کافی ٹائم ہو گیا ہے۔چلتے ہیں۔“ روبی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاںیار چلو۔مجھے لینے آگئے ہوں گے۔“ سارا نے بیگ کندھے پر جماتے ہوئے کہا۔
”کون لینے آتا ہے تمہیں؟“ روبی نے استفسار کیا۔وہ باتیں کرتی ہوئی گیٹ کی طرف بڑھی تھیں۔
”مزمل بھائی لینے آئیں گے اور تم کیسے جاو¿ گی؟ “
”بڑے بھائی آئیں گے۔“ وہ چلتے چلتے اب گیٹ پر پہنچ گئی تھیں۔
”مزمل بھائی آگئے۔میں چلتی ہوں۔اوکے کل ملتے ہیں۔“ سارا یہ کہہ کر باہر نکل گئی۔ روبی نے گیٹ کی اوٹ سے مزمل کو دیکھا جو ایک پر کشش نوجوان تھا۔ روبی نظریں ہٹائے بغیر مزمل کو دیکھتی رہی۔
٭….٭….٭
بھولے پتر! بس کر تھک جائے گا۔“ اماں نیفاں نے اسے اپنے گھر کے کچے صحن میں جھاڑو لگاتا دیکھ کر کہا۔صحن میں ایک نیم کا درخت تھا جس کے پتے صحن میں بکھر کر جنگل بیاباں کا منظر کھینچتے تھے۔
”میں میں نہیں تھ تھ تھکا۔آ آاماں بس تھو را(تھوڑا) سا رہ گیا۔“
”اللہ تیرا بھلا کرے۔ تو میرے گھر کی روز صفائی کر دیتا ہے ورنہ اب مجھ سے صفائی کہاں ہوتی ہے۔“ بھولا ابھی بھی جھاڑو لگا رہا تھا۔
”میرے کپڑے تو نے کب دھوئے؟“ اماں نیفاں نے کمرے میں ایک طرف رکھے کچھ دھلے ہوئے کپڑو ں کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”آ آ اماں جب تو کل سو سو گئی تھی نا۔ تب دھ دھ دھوئے تھے۔“ بھولا اب جھاڑو دے کر فارغ ہو گیا تھا اور اماں نیفاں کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ وہ چارپائی پر بیٹھا اپنی ٹانگیں متواتر ہلا رہا تھا۔
”اللہ تجھے خوش رکھے پتر۔“ اماں نیفاں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”آآاماں ۔میں طا طا طار و کی دو دو دکان بھی صا صا ف کر تا ہوں۔ حا حا حاجی صا صاب (صاحب) کے گھر کے بابار(باہر) بھی میں صفائی کر کر تا ہوں۔مو مو مجھے نا۔۔جھاڑو دینی آ آآتی ہے۔“ بھولے نے اپنا ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے بتایا تھا۔
”اچھا پتر تیرا بھلا ہو۔“
”آ آاماں تو تو اب ٹھیک ہے؟ بو بو بخار ختم؟“ بھولے نے ہاتھ نفی میں ہلاتے ہوئے معصوم لہجے میں پوچھا۔ ا ماں اس کی معصوم بات پر مسکرادی۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں بھولے۔ میں نے کھانا بھی پکایا ہے آج۔ تونے کھانا کھا یا ہے؟“ بھولے نے کچھ کہے بغیر بس نفی میں سر ہلایا تھا۔
”اچھا میں تجھے کھانا دیتی ہوں، تو یہاں بیٹھ۔“ اماں اٹھ کر چلی گئی۔ وہ اماں کو آہستہ آہستہ چلتا دیکھتا رہا۔ وہ ابھی بھی اپنی ٹانگیں متواتر ہلا رہا تھا۔
٭….٭….٭
”بابا! مجھے شاپنگ پر جانا ہے۔ میراکریڈٹ کارڈ ختم ہو گیاہے ۔ “ زارا نے گھڑی دیکھتے ہوئے جلدی میں کہا۔ سیٹھ صاحب لاو¿نج میں بیٹھے لیپ ٹاپ پر مصروف تھے۔
” ارے ابھی پرسوں تو شاپنگ کر کے ڈھیروں کپڑے لائی ہو؟ “ شازیہ نے ٹی وی سے نظریں ہٹاتے ہوئے زارا کو دیکھا۔
”ماما….مجھے کپڑوں سے ہٹ کر بھی کچھ خریدنا پڑسکتا ہے۔“ زارا نے بے تابی سے کہا۔
”کچھ نہیں ہوتا بیگم۔میری بیٹی میرے لیے سب کچھ ہے۔بیٹا ! یہ میرا کارڈ رکھ لو۔۔“سیٹھ صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنا کریڈٹ کارڈ اس کی طرف بڑھایا تھا۔
”Thank you.You are the greatest father in the world“ سیٹھ صاحب اپنی بیٹی کی بات پر مسکرانے لگے۔
”اوکے۔پھر ملتے ہیں۔“
”دھیان سے جانااور جلدی آ جانا۔“ شازیہ نے بلند آواز سے کہا ۔
”جی ماما۔“ وہ یہ کہہ کر جلدی سے چلی گئی۔
اسی لمحے سیٹھ صاحب کے گھر کا چوکیدار لاو¿نج میں آیا ۔
”صاحب جی ۔“ سیٹھ صاحب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
”کیا بات ہے سرور؟ “
”صاحب جی۔میں یہ کہنے آیا تھا جی کہ….“ وہ ہچکچاتا ہوا بولا ۔
”ہاں کہو۔“سیٹھ صاحب کی نظریں لیپ ٹاپ پر مرکوز تھیں۔ شازیہ ٹی وی دیکھنے میں انہماک تھی۔
”وہ جی۔ آپ جانتے ہیںمیرے پانچ بچے ہیںاور بیوی بھی بیمار رہتی ہے۔اس کی دواکے لیے پیسے نہیں بچتے اور جی…. مہنگائی بھی بہت ہو گئی ہے۔۔ صاحب جی۔ اگر آپ میری تھوڑی تنخواہ بڑھا دیں، تو….“ اس نے سر جھکائے رک رک کر کہا۔
”ٹھیک ہے۔ دیکھتے ہیں۔“ سیٹھ صاحب نے لیپ ٹا پ پر نظریں جمائے کہا ۔وہ افسردگی سے سیٹھ صاحب کو دیکھتا رہا۔ پھر چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔شازیہ ابھی بھی ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔
٭….٭….٭
”آپ آج کس کی شادی پر گئے تھے؟ نکاح پڑھوانے۔“ حاجی صاحب کی بیوی نے ہاتھ میں پانچ ہزار کا نوٹ پکڑے پوچھا جو حاجی صاحب کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔اس نے موبائل جیب سے نکالنے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تھا ۔موبائل کے ساتھ پانچ ہزار کا نوٹ بھی باہر آیا تھا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ حاجی صاحب نے ضرور آ ج کسی کا نکاح پڑھوایا ہے۔
”ہاں، وہ رضیہ کی بیٹی کی شادی تھی۔اس کا نکاح پڑھوانے گیا تھا ۔“ حاجی صاحب نے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے کہا۔
”وہ غریب عورت ہے ۔گھر وں میں کام کرتی ہے۔اس نے آپ کو اتنا معاوضہ کیسے دے دیا؟“ حاجی صاحب کی بیگم نے کچھ تجسس میں پوچھا۔
”ایک تو تم سوال بہت کرتی ہو۔ رضیہ سیٹھ سیف اللہ کے گھر ملازمہ ہے۔وہ بندہ ولی اللہ ہے۔غریبوں پر بہت پیسہ خرچ کرتا ہے۔وہ بھلا اپنی ملازمہ کو کوئی کمی آنے دیتا ہو گا؟“ حاجی صاحب نے یہ کہہ کر کروٹ لی تھی۔ ان کی بیگم پانچ ہزار کا نوٹ دیکھتے ہوئے کچھ سوچتی رہی۔
٭….٭….٭