آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

اماں حنیفاں عرف نیفاں دن میں کئی بار چھوٹے موٹے کاموں کے لیے گھر سے نکلتی جیسے طارو کی دکان سے کوئی سودا لینے یا دودھ دہی کی دکان پر یا سبزی لینے۔ وہ ستر سالہ بے اولاد بوڑھی عورت تھی۔ اس کے شوہر کا دس سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ اماں نیفاں کے شوہر کی ایک چھوٹی سی دکان بھی تھی جو کرائے پر دی ہوئی تھی۔ اسی دکان سے ملنے والے کرائے سے اماں نیفاں اپنا گزارا کرتی تھی، لیکن آج بھولے نے محسوس کیا تھا کہ اماں نیفاں کسی کام کے لیے گھر سے نہیں نکلی۔ بھولا کچھ فکر مند ہوا تو خود ہی اماں نیفاں کے گھر چلا آیا۔

آ آاماں ….! اما ں نی نی نیفاں….! میں، میں بھو بھو لا۔اس نے زور سے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔

آجا پتر۔اندر آجا۔اماں نے کمرے سے جواب دیا۔ وہ فوراً اندر گیا اور دیکھا اماں بخار میں تپ رہی تھی۔وہ بے یارومددگار اپنے بستر پے لیٹی تھی۔وہ بھاگ کر اماں کے پاس گیا۔

ک ک کیا ہوا اماں؟ تو تو تجھے کیا ہو ہو ہوا؟ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔

پتر بخار ہے اورسر درد سے پھٹ رہا ہے۔اماں سر پر دوپٹا باندھے لیٹی تھی۔

کو کو کچھ کھا کھا کھا یا۔ اماں؟

نہیں پتر۔ مجھے کس نے دینا تھا؟اماں نیفاں زور زور سے کھانستے ہوئے بولی۔ 

رو رو رک ۔میں دے دے دیتا ہوں۔وہ بھاگ کر کچن میں گیا۔وہاں سارے برتنوں کے ڈھکن اتارنے لگا ۔ 

چھوٹے جگ میں تھوڑا دودھ رکھا ہے ۔وہ لا دے۔اماں نے کھانستے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ اماں جانتی تھی کہ باورچی خانے میں دودھ کے سوا کچھ کھانے کے لیے نہیں ہے۔بھولے نے جلدی سے جگ دیکھا۔ اس میں تھوڑا دودھ موجود تھا، لیکن دودھ کے ساتھ کھانے کے لیے کچھ نا تھا۔ اس کے پاس بیس روپے تھے۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے دکان کی طرف بھاگا۔

کدھر جا رہا ہے۔بھولے؟اماں نے اپنی پوری اعصابی طاقت جمع کرتے ہوئے پوچھا مگر بھولا گھر سے نکل چکا تھا۔وہ بھاگتا ہوا طارو کی دکان پر گیا اور کچھ کیک لے آیا۔پھر اس نے دودھ کے ساتھ وہ کیک خود اپنے ہاتھوں سے اماں کو کھلائے۔ پھر اس کے بعد وہ ا ماں کے پاس بیٹھا رہا ۔ اماں کی تلقین کے باوجود وہ اماں نیفاں کو اکیلا چھوڑ کر اپنے گھر نہیں گیا تھا۔

کب تک جاگے گا ۔گھر جا کرسو جا ۔پتر۔

آآماں ۔ با بابس کر ۔سو سو سو جا۔ میری فی فی فکر نا کر۔اس نے اماں کو ٹالتے ہوئے کہہ دیا تھا۔ پھراسی طرح اس نے ساری رات اماں کے سرہانے گزار دی۔ لوگ اسے بھولے پن اور کبھی پاگل پن کے ترازو کی بجائے اسے اگر احساس کے ترازو میں تولتے تو شاید وہ دنیا کا سب سے امیر انسان تھا۔ 

٭….٭….٭

پڑھائی ٹھیک جا رہی ہے؟ بڑے بھائی نے لقمہ لیتے انور سے پوچھا۔ وہ سبھی رات کا کھانا کھا رہے تھے۔

جی بھائی۔اچھی جا رہی ہے۔“ 

میں پڑھ نہیں پایا۔ابا جی کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ مجھے پڑھا پاتے۔اب میں تم لوگوں کو پڑھا کر اونچے عہدوں پر دیکھنا چاہتا ہوں۔بڑے بھائی نے پر امید لہجے میں کہا۔

میں آپ کی خواہش پوری کروں گا بڑے بھائی۔آپ فکر نا کریں۔میں باہر جا کر اتنا کماو¿ں گا کہ آپ کو…. “ بڑے بھائی نے اسے وہیں ٹوک دیا۔ انور بھی اپنی کہی بات پر ٹھٹک سا گیا تھا۔اسے لگا کہ اس نے باہر جانے کی بات کر کے غلطی کی ہے۔

باہر؟ بڑے بھائی پانی پیتے ہوئے وہیں ٹھہر گئے ۔

کیا کہا…. باہر؟بڑے بھائی نے دوبارہ تصدیق چاہی۔

بڑے بھائی ۔میرا مطلب ہے کہ پاکستان میں اگر مجھے اچھی جاب نا بھی ملی تو باہر تو جا سکتا ہوں نا۔اس نے چور نظروں سے بڑے بھائی کو دیکھا۔

باہر کا خیال اپنے ذہن سے نکال دو۔ انور….یہ بات میں تمہارے منہ سے دوبارہ نا سنوں اور تم ابھی اتنے بڑے نہیں ہو کہ خود فیصلے کرنے لگو۔بڑے بھائی نے معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

بڑے بھائی میں تو بس بات کر رہا تھا۔میں باہر جا کر کیا کروں گا؟ میں تو ابھی پڑھ رہا ہوں۔اس نے بات دبانے کی کوشش کی۔

روبی بیٹا ۔تم نے میٹرک کے بعد کیا کرنے کا سوچا ہے؟ بڑے بھائی نے انور کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ انور چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔

بڑے بھائی میری دوست ایف ایس سی کرنے لگی ہے۔میں بھی اس کے ساتھ ایف ایس سی کرنا چاہتی ہوں۔روبی نے نوالہ لیتے ہوئے کہا۔

اچھا ٹھیک ہے۔ایف ایس سی کا داخلہ کب بھرنا ہے؟ 

بڑے بھائی میڑک کے بعد ہی داخلے ہونے لگتے ہیں۔اب تو آخری تاریخ بھی آنے والی ہے۔“ 

تو تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟بڑے بھائی نے بے ساختہ کہا۔

بڑے بھائی آپ کے سر پر پہلے ہی بہت بوجھ ہے۔میں آپ کو کہنا چاہتی تھی مگر….“ روبی نے دھیمے لہجے میں کہا۔

بوجھ ….کون سا بوجھ؟ تم لوگوں کو کیسے سمجھاو¿ں کہ تم لوگ میرے لیے بوجھ نہیں ہو۔میرے بچے ہو تم دونوں…. اورباپ کے لیے بچے کبھی بوجھ نہیں ہوتے۔میں مصروف رہتا ہوں۔تمہیں یاد دلانا چاہیے تھا۔بڑے بھائی نے پیار بھرے انداز میں ڈانٹا۔

بڑے بھائی اب ایسا نہیں کہوں گی۔روبی نے کچھ شرمندگی سے کہا۔

صبح یاد کروانا میں تمہارا داخلہ بھر دوں گا۔روبی کے چہرے پے بے پناہ خوشی پھیل گئی تھی۔انور ابھی بھی چپ چاپ کھانا کھانے میں مصروف تھا۔

٭….٭….٭

آج میری بیٹی کو بابا کی یاد کیسے آ گئی۔ورنہ تو روز چپ چاپ د وستوں کے ساتھ باہر گھومنے چلی جاتی ہے۔سیٹھ صاحب لان میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جب زارا چائے لے کر اُن کے پاس آئی تھی۔

میں اپنے بابا کو بھلا کیسے بھول سکتی ہوں؟اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور چائے بنانے لگی۔

شازیہ کہاں ہے؟ اس کے ساتھ آج چائے پی کر اس کا بھی گلہ دور کردو۔سیٹھ صاحب نے بیٹی کو چھیڑتے ہوئے کہا۔وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔

ماماآرہی ہیں۔ میںماما کو بتا کر آئی ہوں۔زارا نے سیٹھ صاحب کی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا۔ اتنی دیر میں شازیہ بھی پیشانی پے بل ڈالے لان میں آئی تھی۔

کیا ہوا ماما؟زارا نے شازیہ کاغصہ بھانپتے ہوئے پوچھا۔

رضیہ نے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے میرا قیمتی گلدان توڑ دیا ۔شازیہ نے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے کہا۔

بس یہ غریب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔کم عقل۔انہیں پیسے کی کیا قدر۔ اب اگر اس گلدان کی قیمت دیکھی جائے تو اس کی تنخواہ سے تین گناہ زیادہ ہے۔شازیہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔

تو ماما رضیہ سے گلدان کے پیسے نکلوا لیں۔خود ہی آئندہ دھیان کرے گی۔زارا نے بے ساختہ کہا۔

ہاں اس کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ لی میں نے۔ کہتی رہی میری چھوٹی بیٹی بیمار ہے، مگر ہم کیا کریں۔ غریبوں کے تو مسئلے ختم ہی نہیں ہوتے۔شازیہ نے بے پروائی سے کہا۔

بیگم! غصہ اتر گیا ہے تو ہمارا بھی حال پوچھ لیں۔سیٹھ صاحب نے اخبار سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔ شازیہ ان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔

دیکھو بیگم!آج زارا ہمارے ساتھ چائے پی رہی ہے۔سیٹھ صاحب نے زارا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ زارا بے ساختہ مسکرائی اور پھروہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے تھے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!