آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

یہ تمہارے بازو کو کیا ہوا؟بڑے بھائی نے بھولے سے پوچھا جو بائیں بازو پر وزن ڈالے بغیر دائیں بازو سے بھاری چیزیں اٹھا اٹھا کر ایک طرف رکھ رہا تھا۔وہ دکان پر کوئی سودا لینے گئے تھے۔ طارو دکان میں موجود نہیں تھا۔

مے مے میرے با با زو میں اتا(اتنا) درد ہو ہوتا ہے۔“ 

درد کیوں ہوتا ہے؟بڑے بھائی نے بے ساختہ پوچھا۔

مے مے میں نا ….سا سا ئیکل سے گی گی گر گیا تھا۔“ 

کب گرے تھے سائیکل سے؟ “ 

اتے (اتنے ))د ن ہو ہو گئے۔بھولے نے معصومیت سے کہا۔

تم نے د وائی کھائی ہے۔“ 

دا دا دوائی؟ نئی (نہیں)۔“ 

میں تمہیں دوائی لا دوں گا۔ دھیان سے کھا لینا۔پھر بازو میں درد نہیں ہو گا۔بڑے بھائی نے بھولے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔بھولا خوشی سے مسکرایا تھا۔

٭….٭….٭

ساجدہ کی شادی آخر آن پہنچی تھی۔رضیہ نے حاجی رضوان صاحب کو اپنی بیٹی کا نکاح پڑھوانے کے لیے بلایا تھا۔اس نے حاجی صاحب کو واضح بتایا تھا کہ اس کی بیٹی ساجدہ کو اس کے سسرال کی طرف سے پہنایا جانے والا دو تولے سونا حق مہر میںلکھنا ہے۔حاجی صاحب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

فکر مت کرو رضیہ جیسے کہہ رہی ہو ویسا ہی ہو گا۔“ 

مہربانی! حاجی صاحب۔“ 

بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔اللہ اسے بہت خوشیاں دے۔“ 

آمین۔حاجی صاحب آپ جیسے نیک بندوں کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں جی۔رضیہ نے بے ساختہ کہا۔

میں گناہگار سا بندہ ہوں۔تم مجھے نیک کہہ رہی ہو؟

نہیں حاجی صاحب ۔آپ تو اللہ کے گھر کا دیدار کر چکے ہیں۔آپ نے تو کبھی ایک نماز بھی نہیں چھوڑی۔تسبیح ہاتھ میں لیے آپ ہمیشہ ا للہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔آپ گناہگار کیوں ہونے لگے؟رضیہ نے بے ساختہ کہا۔

اللہ کی یاد میں ہی بھلائی ہے۔مر تو جانا ہی ہے۔اللہ کو یاد کر لینا چاہیے۔حاجی صاحب نے بے حد عاجزی سے کہا۔

بس حاجی صاحب ۔آپ میری بیٹی کی اچھی قسمت کی دعا کر دیا کریں ۔“ 

اللہ بیٹی کی قسمت اچھی بنائے۔ ا للہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔اس کی رحمت سے کبھی مایوس نا ہونا۔رضیہ عاجزی سے ہاں میں سر ہلاتی رہی۔

٭….٭….٭

انور اب دل لگا کر پڑھنے لگا تھا۔وہ بڑے بھائی سے کہی اپنی باتوں پر شرمندہ تھا ۔اسی لیے وہ دن رات پڑھنے میں مصروف رہنے لگا۔ وہ اسٹڈی کرنے میں مصروف تھاجب رضا اسے ملنے آیا۔

ارے یار کیسا ہے؟ رضا نے گرم جوشی سے کہا۔

میں ٹھیک ہوں ۔تو سنا کیسا ہے۔

آج کل کہاں مصروف رہتا ہے ؟ رضا نے استفسار کیا۔

یار! دو مضامین میں فیل ہو گیا تھا وہ اب کلیئر کرنے ہیں۔ اس لیے پڑھائی میں زیادہ وقت گزرتا ہے۔انور نے وضاحت دی۔

ہاں یاد آگیا۔رضا نے افسردہ لہجے میں کہا۔

چل چھوڑ، تو سنا۔ تو آگے کیا کرنے کا سوچ رہا ہے؟ انور نے استفسار کیا۔

میرا ایف اے ہو گیا۔میںآگے کمپیوٹر کے ساتھ بی اے کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ میں نے پاکستان تھوڑی رہنا ہے جو اتنی مغز ماری کروں۔ مجھ سے مشکل مضامین نہیں پڑھے جاتے۔رضا نے دوٹوک لہجے میں کہا۔

یار تو ہر وقت باہر جانے کی باتیں کیوں کرتا ہے؟ یہاں بھی تو اچھی جاب کر سکتا ہے۔‘ ‘انور نے تجسس سے پوچھا۔

پاکستان میں جاب کہاں ملتی ہے؟ میں تو باہر جا کر پیسے کماو¿ں گا۔یار باہر بہت پیسہ ہے۔ پاکستان میں تو بس ذلت ہے ۔رضا نے اپنا مدعا واضح کیا۔

تم جاب نہ کرنا۔ کوئی کاروبار کر لینا۔انور نے مشورہ دیا۔رضا بے ساختہ ہنسا تھا۔

کیا…. کاروبار؟ بس کر یار۔کس دنیا میں رہتا ہے؟ کاروبار کے لیے لاکھوں کی ضرورت ہے۔میرا باپ لاکھوں کہاں سے دے گا مجھے؟ اب تو اپنی مثا ل ہی لے لے۔بڑا بھائی یہاں سارا دن کام کرتا ہے لیکن ابھی تک تم لوگوں نے کیا بنایا؟ اتنی محنت بڑا بھائی باہر جا کر کرتا تو تم لوگوں کے گھر چار چار گاڑیاں کھڑی ہوتیں۔رضا نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔انور چاہ کر بھی اسے مزید کچھ کہہ نہیں پایا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا۔

اپنے بھائی کو چائے نہیں پوچھے گا؟رضا نے انور کو خیالوں سے باہر کھینچا تھا۔

ہاں کیوں نہیں۔انور نے بے ساختہ کہا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!