آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
خدیجہ شہوار
سارا محلہ اسے اس کی معصومیت اور بھولے پن کی وجہ سے بھولا کہہ کر پکارتا۔اس کا اصل نام کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھایا شاید جاننے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس کی عمر اٹھارہ انیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کی ماں کا اس کے بچپن میں انتقال ہو گیا تھا اور اس کا باپ نشہ کرتا تھا۔ بھولے کے باپ نے اسے کبھی پیار کی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ گیارہ برس کا تھا تو اس کا باپ اسے وہیں چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا گیا تھا۔وہ پورا محلہ اس کی فیملی کی طرح تھا۔ طاہر عرف طارو کی گلی کی نکڑ پر کریانے کی دکان تھی اور وہ دکان ”طارو کی دکان“ کے نام سے پورے علاقے میں مشہور تھی۔طارو نے بھولے کو اپنی دکان میں کام پے رکھ لیا تھا۔ بھولا طارو کی دکان پے کام کر کے روز کچھ پیسے کما لیتا اور اپنا گزارا کر لیتا تھا۔ محلے کے لڑکے اکثر اپنے وہ کپڑے جو ان کے کام کے نا رہتے بھولے کو دے دیتے۔بھولا وہ کپڑے خوش دلی سے پہن لیتا۔ وہ سارا دن طارو کی دکان پے تو کبھی محلے میں گھوم پھر کر گزار تا۔ بس رات سونے کے لیے اپنے گھر جاتا تھا اور اسی طرح اس کی زندگی کے سات آٹھ سال گزر گئے تھے۔بھولے کو ثواب کی نیت سے محلے کے لوگ اکثر کھانا کھلا دیتے تھے جن میں حاجی رضوان صاحب،بڑے بھائی اور اماں نیفاں سرِفہرست تھیں۔اسی لیے بھولا ان گھروں کے چھوٹے موٹے کام خوش دلی سے کیا کرتا تھا۔
اس کے گلے میں ہمیشہ ایک سنہرے رنگ کی چین ہوتی جس سے وہ بے حد لگاو¿ رکھتا تھا۔ وہ چین اسے اپنے باپ کی جیب سے ملی تھی۔ اپنی چین سے اس کی دوستی بہت گہری تھی۔ اس کے زبان میں ہکلاہٹ بھی تھی ۔وہ جب بھی بات کرتا تو اٹک اٹک کر بہ مشکل اپنی بات سمجھاتا تھا۔
ایک دن وہ ایک ہاتھ میں امرود پکڑے اور دوسرے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی گردن میں پہنی چین میں ڈال کر دائیں بائیںگھماتے ہوئے اپنی گلی کی نکڑ مڑا ۔وہاں حاجی رضوان کے گھر کے سامنے اینٹوں سے لدی ایک گدھا گاڑی کھڑی تھی ۔ وہ اینٹیں ان کے صحن کا فرش ٹھیک کرنے کے لیے منگوائی گئی تھیں۔حاجی صاحب نے گلی میں کرکٹ کھیلتے چار نوجوانوں کو مخاطب کیا۔
”ادھر آو¿ یار! یہ ذرا اینٹیں اٹھا کر گھر تو رکھ دو۔“
”آئے حاجی صاحب۔“ ان میں سے ایک لڑکے نے بلند آواز میں کہا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ کرکٹ کھیلتے لڑکے غائب ہونے لگے۔اب کرکٹ کھیلنے والوں کی تعداد صرف دو رہ گئی تھی۔ان میں سے بھی ایک نے کہہ دیا بخار سے اٹھ کے آیا ہوں ڈاکٹر نے بھاری کام سے منع کیا ہے۔ایک نے کہہ دیا گھر مہمان آئے ہیں سودا لے آو¿ پھر آو¿ں گا۔بھولا اتنی دیر میں وہاں پہنچ گیا۔
”حاحا حاجی صا صاب(صاحب)….میں ا و او اٹھا دےتا ہوں۔“ بھولے کی بات پے حاجی صاحب نے پیار سے اس کے سر پے ہاتھ پھیرا۔ پھر اس نے چہرے پے کوئی شکن لائے بغیر وہ ساری اینٹیں حاجی رضوان کے گھر رکھی تھیں۔
٭….٭….٭
عزیز جسے سارے بڑا بھائی کہہ کر پکارتے تھے۔ دن بھر کی تھکن کے باوجود گاہکوں کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا۔ وہ ایک جنرل اسٹور چلاتا تھا۔ صبح چھے بجے گھر سے نکلتا اور رات دس بجے گھر لوٹتا تھا۔ وہ اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ اس کے ماں باپ بہت عرصہ پہلے وفات پا گئے تھے۔اس کے بعد اس نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی بہن اور چھوٹے بھائی کی باپ کی طرح پرورش کی تھی۔ اس کا ایک بیٹا اوردو بیٹیاں تھیں۔لیکن اس نے خرچ کرتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں اور بچوں میں کبھی کوئی فرق روا نا رکھاتھا۔وہ اندر اور باہر سے اجلا انسان تھا اور اس کا اسٹور اس کے دل سے زیادہ بڑا نہیں تھا۔
عزیز گاہکوں سے فارغ ہو کر کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ سامنے دیوار پر لگی اپنے باپ کی تصویر پر اس کی نظریں ٹھہر گئیں۔ اسے اپنے باپ کے آخری الفاظ یاد آئے جو انہوں نے اسے اپنے بسترِ مرگ پر کہے تھے۔
”عزیز! تم صرف اپنے بہن بھائیوں میں بڑے نہیں ہو، تم واقعی بڑے ہو۔تم ایک پھلدار درخت ہو جو کسی کو بھی چھاو¿ں بن کر سایہ دے سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم انور اور روبی کو کبھی دھوپ کی تپش محسوس نہیں ہونے ….“
”ابا جی!ابا جی!“ عزیز اپنے باپ کا ہاتھ مزید تھامنا چاہتا تھا لیکن اُن کا ہاتھ عزیز کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا تھا۔
”بڑے بھائی ! “
گاہک کی آواز عزیز کو ایک جھٹکے سے ماضی کی یادوں سے باہر نکال لائی۔ وہ بے ساختہ گاہک کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
٭….٭….٭