بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سکون آور ادویات سے بھری ہوئی تھی۔ بیڈروم میں نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی تھی اور پورے کمرے میں ہلکی سی ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی۔ ماحول بہت ہی خواب آور سا تھا، لیکن بیڈ پر لیٹی ہوئی لڑکی کو نیند مشکل سے ہی آتی تھی اور آتی بھی تھی تو اس کے ڈراﺅنے خواب اسے جگا دیتے تھے۔
ابھی بھی ایسا ہی ہوا تھا اسے سوتے میں اپنی گردن پر دباﺅ محسوس ہوا اور پھر کسی نے اس کے بال نوچنا شروع کردیے۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور غٹاغٹ پانی کا گلاس چڑھا گئی۔
”تم ساری عورتیں ایک جیسی ہوتی ہو۔“ کوئی زور سے اس کے کان میں چلایا تھا اس نے اپنے کان دونوں ہاتھوں سے ڈھک لیے اور گٹھڑی بن کر بستر میں لیٹ گئی تھی۔
٭….٭….٭
”ہمیں کسی اور سائیکاٹرسٹ کو دکھانا چاہیے ماریہ کو!“وہ خاتون اپنے شوہر سے بولیں۔
”اب کتنے سائیکاٹرسٹ بدلیں اس کے دل سے خوف ہی نہیں نکلتا۔“ وہ بارعب سے شخص اب کہ ذرا پریشانی سے بولے۔
”میری پھول سی بچی کا چند مہینوں میں ہی اس نے کیا حال کردیا۔ اب بھی یاد آتا ہے، تو خون کھول جاتا ہے تم اسے اپنے ساتھ کلب وغیرہ لے جایا کرو نا۔“ ان کے شوہر نے مشورہ دیا۔
”میں کہتی تو ہوں مگر وہ راضی ہی نہیں ہوتی۔“
”اب کوئی پارٹی ہو تو زبردستی لے جانا اس طرح تو وہ گھر بیٹھے بیٹھے پاگل ہوجائے گی۔“
”کہتے تو آپ ٹھیک ہیں مسز خواجہ کے گھر اسی ہفتے پارٹی ہے اس کو میں ضرور لے کر جاﺅں گی۔“ انہوں نے اپنی بیٹی کو دیکھا جو ہفتے بھر سے ایک ہی لباس میں ملبوس تھی۔ کسی زمانے میں ان کی یہ بیٹی دن میں تین تین دفعہ لباس بدلتی تھی اور اس کے پاس فیشن سے متعلق بہت معلومات ہوتی تھیں۔
٭….٭….٭
”آپی فالودہ کھانے چلتے ہیں کتنے دن ہوگئے۔“ حوریہ میرے برابر میں دھپ سے بیٹھتے ہوئے بولی۔
”اور ویسے بھی پھر تو میں چلی ہی جاﺅں گی۔“ اس نے مجھے مزید جذباتی کیا۔
”ہاں ہاں چلو کیوں نہیں۔“ میں فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ابھی تین دن پہلے ہی تو تم نے فالودہ کھایا ہے۔“ ممانی جو وہیں بیٹھی دوپٹے پر بیل ٹانک رہی تھیں انہوں نے اسے چشمے کے اوپر سے گھورا۔
”میرا مطلب تھا آپی کے ساتھ فالودہ کھائے ہوئے کتنے دن ہوگئے ہیں۔“ اس نے جلدی سے اپنے بیان میں ترمیم کی۔
”چپ چاپ بیٹھو گھر میں اور کام میں ہاتھ بٹاﺅ بس کھانے اور کپڑوں کی پڑی رہتی ہے۔“ ممانی نے اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی۔ حوریہ نے اس عزت افزائی پر مجھے منہ بسور کر دیکھا اور میں نے ہنستے ہوئے کندھے اچکا دیے۔
”ممانی شادی کے حوالے سے اور کوئی کام باقی ہیں تو مجھے بتائیں۔“
”نہیں بیٹا ہر کام میں تو تم نے برابر کا ہاتھ بٹایا ہے اور پھر ان لوگوں نے جہیز تو منع ہی کردیا ہے۔ اب تو بس چھوٹے موٹے چند ایک کام ہی رہ گئے ہیں۔“
”تم مجھے یہ بتاﺅ تم نے اپنے کپڑے بنوالیے؟
”نہیں ابھی تو نہیں بس آج کل میں جاﺅں گی۔“ میں نے قمیص کو تہ لگاتے ہوئے ممانی کو بتایا۔
٭….٭….٭
”بی بی جی ناشتا کرلیں۔“ ملازمہ ناشتا لیے بہت مو¿دب سی کھڑی تھی۔ ماریہ نے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔
”تم جاﺅ نذیراں میں کرلوں گی۔“ بہت دیر بعد اس کے منہ سے نکلا۔
”جی۔“ اس نے ناشتا ٹیبل پر سجایا اور چلی گئی۔ اس نے تھوڑا سا جوس اپنے گلا س میں نکالا اور سست روی سے پینے لگی اس کا ذہن پھر کہیں پیچھے چلا گیا تھا۔
”یو بچ! مجھے تم پے پہلے ہی شک تھا۔“
”چھوڑو میرے بال چھوڑو میں نے کچھ نہیں کیا۔“
”نہیں تم ہو ہی ایسی۔“ حسنین نے اس کے بالوں کو جھٹکا دیا اور اسی وقت گلاس ٹوٹنے کی آواز اسے ماضی سے حال میں لے آئی۔
”بیٹا آج ہمیں مسز خواجہ کی پارٹی میں جانا ہے تیار رہنا۔
”میں نہیں جانا چاہتی۔“
”بیٹا تمہیں چلنا چاہیے آخر کب تک اس طرح گھر میں بند رہوگی باہر نکلوگی تو دل بہلے گا تمہارا۔“
”اوکے ماما۔“ اس نے کچھ سوچ کر ہامی بھرلی۔
”اچھا سا تیار ہونا بلکہ ہم شاپنگ پر چلیں گے ٹھیک ہے؟“
”اوکے مام۔“ اس نے یونہی بے زاری سے سرہلایا۔ وہ کوئی اور وقت تھا جب وہ دل لگاکر ہزاروں روپے کی شاپنگ کیا کرتی تھی اب تو بس بے زاری ہی بے زاری تھی۔
٭….٭….٭
میں اپنے لان میں بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی۔ یہ میری پسندیدہ جگہ تھی جب بھی فارغ ہوتی میں ضرور یہاں آکر بیٹھ جاتی تھی۔ زندگی بڑی پرسکون گزر رہی تھی۔
شکیلہ چائے کے برتن اٹھانے آئی تو میرے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا۔
”شکیلہ تمہاری بیٹی کی شادی ہوگئی؟“
”جی ! بی بی جی آپ نے سارے انتظامات تو اپنے سر لے لیے تھے سب کچھ بڑے اچھے طریقے سے ہوگیا۔اللہ کا بڑا کرم ہے جی۔“
”اور دونوں چھوٹے والے ٹھیک سے پڑھ رہے ہیں نا؟“
”ہاں جی اب تو بہت دل لگا کر پڑھ رہے ہیں جب سے آپ نے سمجھایا ہے۔“ شکیلہ نے بہت احترام سے اپنی مالکن کو دیکھا جس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک روشنی سی رہتی تھی۔
”عبدالہادی آنے والے ہوں گے میں پسندے بنالوں کتنے دنوں سے فرمائش کررہے ہیں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے خود کلامی کی۔
”بی بی! میں بنالیتی ہوں؟“
”نہیں شکیلہ تمہارے صاحب کھانا میرے ہاتھ کا ہی پسند کرتے ہیں تم نے صبح کوٹ تو دیے تھے نا بس اب کام ہی کتنا ہے اور اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہے تو تم بھی جاسکتی ہو۔“
”جی ! بی بی جی ۔“ شکیلہ خوشی خوشی بولی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!