مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

لائبہ!“ جی میں پیچھے مڑی آج میں دوسرے دنوں کی نسبت بہت بہتر حلیے میں تھی۔ حوریہ کی نیچرل سی لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی اور سفید دوپٹے کی جگہ میچنگ اسٹول باندھ رکھا تھا۔ حسنین کو پیچھے دیکھ کر میں قدرے حیران ہوئی۔

کیسی ہیں آپ؟ جی میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟ میں بھی ٹھیک ہوں۔پھر وہ جلدی سے بولا۔

لائبہ آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔“ 

کون سی بات؟میں قدرے انجان بن کر بولی۔

اس کا مطلب ہے آپ کو میری بات پسند نہیں آئی۔

نہیں نہیں! میں نے ایسا تو نہیں کہا۔میں جلدی سے بولی اور اپنی جلدی پر خود ہی شرمندہ بھی ہوگئی۔

اس کا مطلب ہے آپ کی طرف سے میں ہاں سمجھوں۔وہ دھیرے سے ہنسا اور میں مسکرادی۔

٭….٭….٭

اب میرے سارے غموں کا ازالہ ہوجائے گا اور مجھے اب تک جتنی نفرتیں ملی ہیں ان سب کا بھی۔ میں آسودگی سے مسکرائی۔ آج مجھے نہ آخری سانسیں لیتا ہوا پنکھا برا لگ رہا تھا نہ کمرے کا حبس۔ بلکہ اب میری آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہورہی تھیں۔

وہ مکروہ مسکراہٹ لیے ہوئے سوچ رہا تھا بس تھوڑے دن اور یہ تو آگ کا کھیل ہے ہاتھ تو ضرور جلیں گے۔ اس نے اپنے ہاتھ مسلے۔ 

٭….٭….٭

دوسرے دن میرا باقاعدہ تعارف ہوا گھر کے سب لوگوں کے ساتھ۔ اس بڑے سے گھر میں میرے ابا، تایا ابا اور ایک بیوہ پھوپھو کی فیملی رہائش پزیر تھی۔

ارے یہ کون ہیں؟مجھے دیکھ کر ایک لڑکے اور ایک پیاری سی لڑکی نے تجسس کا اظہار کیا۔ 

تمہارے چچا کی بیٹی ہیں اب یہیں رہیں گی۔تائی نے کچھ بے زاری سے میرا تعارف کرایا۔ دادی کے آگے نشست سنبھالنے پر سب مو¿دب ہوکر بیٹھ گئے۔

بہو تم نے اس لڑکی کو اس کی ڈیوٹی بتادی ہے؟

نہیں اماں ابھی سمجھادوں گی۔تائی نے مو¿دب لہجے میں جواب دیا۔

ڈیوٹی؟میرے حلق میں توس کا نوالہ پھنسنے لگا۔

کیا یہاں میں کسی ضرورت کے تحت لائی گئی ہوں؟یہ سوال میرے چاروں طرف چکرا رہا تھا۔

٭….٭….٭

میری ڈیوٹی مجھے سمجھادی گئی کہ دادی جو ایک ہاتھ سے معذور تھیں مجھے ان کی ہاتھ کی مالش اور ایکسرسائز کرانی ہوگی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا پھر آہستہ آہستہ میرے سر پر دادی کے پرہیزی کھانے کی ذمے داری بھی ڈال دی گئی اور دادی رج کے شوقین مزاج تھیں۔ منہ میں دانت اور پیٹ میں آنت نہ ہونے کے باوجود انہیں ہر قسم کے چٹ پٹے کھانے بہت پسند تھے جس کے نتیجے میں ان کی شوگر اور بی پی آٹ ہوجاتا اور اگر انہیں کھانا پسند نہ آتا، تو وہ کھانا سامنے والے کے منہ پر الٹ دیا کرتیں۔ ایسے میں میری جان عجیب عذاب میں پھنس گئی تھی۔ اب میری سمجھ میں آرہا تھا کہ ابا کو میری اتنے عرصے بعد یاد کیوں آئی تھی۔ دادی کی بدمزاجی کے آگے کوئی بھی ملازمہ ہفتے بھر سے زیادہ ٹک نہیں پاتی تھی اور اب ابا لے آئے تھے سگی نوکرانی کو اوہ! معاف کیجیے گا سگی بیٹی کو۔

٭….٭….٭

تمہاری ماں طوائفوں سے بھی بدتر تھی۔یہ سن کر میرے خون میں اُبال سا اٹھا، لیکن میں ضبط کرگئی۔ یہ الفاظ تھے میری دادی کے میری ماں کے بارے میں۔

دادی آپ یہ سوپ لیں بہت مزے کا ہے۔میں نے ایک چمچہ بھر کے ان کی طرف بڑھایا۔ 

تم بھی اس کی طرح ہوگی اب تک کتنے چکر چلا چکی ہو؟ نویں جماعت میں ہونا تم؟ان کی سرد آنکھیں میرے اوپر جمی تھیں اور ہاتھ مسلسل تسبیح کے دانے گرا رہا تھا۔ ان کی یہ بات بھی میں ضبط کرگئی کیوں کہ گرم گرم سوپ سے مجھے اپنا چہرہ جلوانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔

٭….٭….٭

آج دادی کے ہاں میلاد تھا ایسی تمام تقریبات میں، میں کام کراکے اپنے کمرے میں آجاتی تھی کہ مجھے اپنی ماں اور اپنے بارے میں نازیبا گفت گو سننے کا کوئی شوق نہ تھا۔ ابھی بھی میں اپنی کتاب کھول کر پڑھنے میں لگی تھی کہ اپنے کمرے کے باہر سے مجھے تائی کی غصے بھری آواز آئی۔

خبردار! عثمان جو تم نے اس دو ٹکے کی لڑکی کی طرف داری کی تمہارے چاچا کو بھی اس کی ماں نے ایسے ہی اداں سے پھنسا لیا تھا۔

امی میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر وہ گھر کا فرد ہے تو میلاد میں بلالیں اسے کیا فرق پڑجائے گا؟

ارے جب اس کے باوا کو کوئی شوق نہیں اس کی طرف داری کا تو تمہیں کیوں بخار چڑھ رہا ہے؟وہ دونوں آپس میں گرم ہوتے ہوئے اب میرے کمرے سے آگے نکل گئے تھے۔

٭….٭….٭

میں کوچنگ سے آکر بیٹھی ہی تھی کہ میرا موبائل بجا۔ ماریہ ہوگی میں نے مسکراتے ہوئے سوچا، لیکن کسی ان جانے نمبر سے میسج تھا۔

کیسی ہو تم؟میں نے اگنور کردیا اور اپنے کمرے کی چیزیں سمیٹنے لگی۔

لائبہ آپی! بات سنیے گا؟مجھے باہر سے حوریہ کی آواز آئی۔

ہاں بولو کیا کام ہے؟

آپی یہ اسائنمنٹ بنانا ہے تھوڑی سی مدد چاہیے۔پھرحوریہ کے ساتھ اس کا کام کراتے، گھر کے کام سمیٹتے مجھے کافی دیر ہوگئی۔

میرے خیال سے اب میں تھوڑا سا پڑھ لوں۔سونے سے پہلے میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ اپنی پڑھائی کے معاملے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی تھی۔ جب پڑھتے پڑھتے میری آنکھیں بوجھل ہونے لگیں، تو کتاب سائیڈ پر رکھ کر میں نے یونہی سونے سے پہلے موبائل چیک کرنے کے لیے اٹھایا۔ تو اسی ان جانے نمبر سے دو تین اور میسجز آئے ہوئے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا۔ 

لائبہ میں حسنین ہوں۔اور میری نیند سے بند ہوتی آنکھیں پوری کھل گئیں۔ اس کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا؟ حالاں کہ اس کے پرپوز کرنے پر میں خوش ہوئی تھی، لیکن فون پے راہ و رسم بڑھانے کا میرا قطعی کوئی ارادہ نہ تھا۔

٭….٭….٭

دوسرے دن ماریہ کا برتھ ڈے تھا۔ میں نے اس کی پسند کا کیک اور تندوری چکن رات کو ہی پیک کرلیے تھے۔ چیزیں میں کوچنگ سے واپسی پر لیتی ہوئی آگئی تھی۔ حوریہ کو بھی تندوری چکن

بہت پسند تھا تھوڑی سا اس کے لیے بھی رکھ چھوڑا تھا۔

یونیورسٹی پہنچ کر میں نے ماریہ کو برتھ ڈے وش کی۔

آج بڑی چہک رہی ہو۔میں نے ماریہ کو چھیڑا۔

ہاں بھئی آج تو میرا برتھ ڈے ہے۔وہ اٹھلائی۔ 

دیکھو یہ میں نے نیا ڈریس لیا تھا ماما کے ساتھ جاکر یونیورسٹی میں پہننے کے لیے آج کے دن۔“ 

بہت اچھا لگ رہا ہے۔میں نے اسے سراہا۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں خیال آیا کہ کاش میں بھی ماریہ جیسی ڈریسنگ کرسکوں۔ مجھے نہیں پتا تھا میری یہ خواہش جلد پوری ہونے والی ہے۔

٭….٭….٭

کل حسنین کو ریپلائی نہ دینے کے باوجود آج بھی اس کے میسجز آئے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے فیصلہ کن طریقے سے بات کرنے کی ٹھانی۔

حسنین برا مت مانیے گا، لیکن مجھے اس طرح سے فون پر لڑکوں سے بات کرنا پسند نہیں ہے۔اس کا فوراً ہی ریپلائی آیا۔ 

مجھے بھی نہیں ہے لیکن آپ کو دیکھ کر مجبور ہوجاتا ہوں۔

آپ کو میرا نمبر کہاںسے ملا؟

اس بات کو چھوڑیں۔ لگن ہونی چاہیے۔وہ صاف مجھے ٹال گیا۔

اچھا! ٹھیک ہے۔ یونیورسٹی میں ملاقات ہوگی۔میں نے جلدی سے گفتگو کو لپیٹا۔ 

آہ! آج پھر وار خالی گیا میرا۔تھوڑے فاصلے پر موجود اس نے بے بسی سے ہاتھ ملے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!