آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ مکمل ناول

روبی نے بہت سوچ بچار کے بعد مزمل کو کال کی تھی۔ رسمی سلا م دعاکے بعد روبی اصل موضوع پے آئی۔

تمہاری امی کل ہمارے گھر ملنے آئی تھیں تو بتا رہی تھیں کہ مزمل نے سات آٹھ تولے سونے کی فرمائش کی ہے بلکہ گاڑی کی بھی۔روبی ڈرتی ڈرتی دھیمے لہجے میں بول رہی تھی۔وہ مزمل کو ناراض بالکل نہیں کرنا چاہتی تھی۔

یار….دنیا اپنی بیٹیوں کو دس دس تولے سونا پہنا دیتی ہے۔ہم نے تو پھر سات آٹھ تولے کہا ہے۔ میرے بھی کچھ ارمان ہیں۔میں اپنی بیوی کے لیے زیور کی فرمائش بھی نہیں کر سکتا ۔میں نے تمہارا زیور چاٹنا تھوڑی ہے۔وہ تمہارے ہی کام آئے گا۔مزمل نے لمبی تمہید باندھتے ہوئے ٹیڑھی بات سیدھی کرنے کی کوشش کی تھی۔ 

لیکن مزمل۔تم سمجھ کیوں نہیں رہے۔ میں…. “ روبی کچھ کہتے کہتے رک گئی۔مزمل اس کی بات سمجھنا نہیں چاہتا تھا ، لہٰذا اس کی بات نظر انداز کر گیا۔

میں تم سے محبت کرتا ہوں۔میں تمہیں خود سے الگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔مجھے نہیں پتا تھا کہ میری چھوٹی سی خواہش کو تم اتنا سر پر چڑھا کر مجھے ذلیل کرو گی۔مزمل نے بے ساختہ کہا۔

نہیں…. نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں بڑے بھائی سے دوبارہ بات کروں گی۔میں تمہیں ذلیل کیوں کرنے لگی۔؟روبی ہونٹ کاٹتے ہوئے بے حد شرمندگی سے بولی۔

میں دن رات تمہارے خواب دیکھتا ہوں۔ایک تم ہو کہ چند تولے سونے کے پیچھے مجھے باتیں سنا رہی ہو۔بڑے بھائی ویسے تو تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔اب ان کی محبت کہاں گئی؟ وہ بہن کو چند تولے سونا نہیں پہنا سکتے۔آخر خاندان میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔مزمل نے دو ٹوک کہا۔ روبی بات کر کے مزید پریشان ہو گئی تھی۔

مزمل۔تم غصہ مت کرو۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔میں سمجھ سکتی ہوں۔روبی نے معاملہ ٹھیک کرنے کی کو شش کی۔مزمل بھی خود کو قابو میں رکھتے ہوئے بولا۔

تمہیں کیا معلوم کہ میں یہ دن کیسے گن گن کر گزار رہا ہوں۔شادی کے لیے بہت انتظار کیا ہے میں نے۔مزمل نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔روبی مسکرانے لگی تھی۔اس کے بعد وہ کافی دیر تک ایک دوسرے سے محبت کے دعوے کرتے رہے۔

اس رات وہ سو نہیں پائی تھی۔ مزمل کی باتوں نے اسے سونے ہی نہیں دیا تھا۔ 

بڑے بھائی ویسے تو تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔اب ان کی محبت کہاں گئی؟ وہ بہن کو چند تولے سونا نہیں پہنا سکتے۔آخر خاندان میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔وہ رات گئے تک مزمل کی باتیں سوچتی رہی تھی۔ 

٭….٭….٭

یار، میں اس دن غصے میں تھا۔ نہ جانے تم سے کیا کچھ کہہ گیا۔زین نے ہار مانتے ہوئے کہا۔زارا اس کے اسرار پر باہر اس سے ملنے آئی تھی۔

میں تم سے بات کرنے کے بعد کافی اپ سیٹ رہی، لیکن مجھے معلوم تھا کہ تم وہ سب دل سے نہیں کہہ رہے۔زارا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ہماری دوستی کو تین سال ہو گئے ہیں ۔ہم نے زندگی کا ایک ایک لمحہ انجوائے کیا ہے۔پھر ہم دونوں میں کوئی تیسرا بھلا کیسے آ سکتا ہے؟ یہ نا ممکن ہے۔میں نے تم پے شک کیا ۔مجھے معاف کردو۔زین نے سنجیدگی سے کہا۔ 

تمہیں اپنی غلطی کا ا حساس ہے۔میرے لیے یہی کافی ہے۔ مجھے بھی غصہ آ گیا تھا۔میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے۔زارا کی بات پر زین کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

یار مجھے تم پر کوئی غصہ نہیں ۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں تمہیں دل سے چاہتا ہوں۔ہمارے درمیان کبھی کوئی نہیں آ سکتا۔

میں چاہتی ہوں ۔ہم دونوں جلد ایک ہو جائیں۔“ 

خالہ کچھ دنوں میں واپس انگلینڈ جا رہی ہیں۔

میرے بات کا یہ جواب نہیں تھا۔۔‘ ‘ زارا نے بے ساختہ کہا۔

 ”خالہ کے جانے کے بعدموم کوتمہارے گھر بھیجوں گا۔ مجھ پر یقین کرو۔زارا بے ساختہ مسکرائی تھی۔زارا جب بھی زین سے ایسی ویسی بات کرتی تو وہ خوبصورتی سے ٹال دیتا تھا۔

٭….٭….٭

انور کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے رابعہ نے حوصلہ نکال کر روبی کی ساس کو کال کی۔رسمی سلام دعا کے بعد رابعہ موضوع پر آئی تھی۔

روبی کا جہیز تو ہم بنا رہے ہیں ، لیکن سات آٹھ تولے سونا….“ رابعہ کی بات پورے ہونے سے پہلی ہی اس کی ساس نے بات کاٹ دی تھی۔

بھئی سیدھی بات ہے۔ میرے بیٹے کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے۔اگر ہم نے روبی کو مزمل کے لیے چنا ہے تو لوگوں کو پتا تو چلے کہ ہم شان سے بہو بیاہ کر لائے ہیں۔ہم نے بھی دنیا والوں کو منہ دکھانا ہے۔ روبی کو دو کپڑے دے کر رخصت کردو گے تو ہماری کیا عزت رہ جائے گی خاندان میں؟اس کی ساس نے دوٹوک کہا۔

لیکن…. آپ سمجھنے کی کوشش تو کریں۔ شادی میں صرف دس دن رہ گئے ہیں۔ زیور کا کیا ہے جب گنجائش ہوئی ہم بنا دیں گے۔رابعہ نے بے بس لہجے میں سمجھانے کی بے کار کوشش کرتے ہوئے کہا۔

شادی میں دس دن ابھی رہتے ہیں۔شادی ہوئی نہیں ہے۔ویسے بھی میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے۔اس کے لیے ہزاروں رشتے ہیں۔ تم لوگ روبی کا کوئی اور رشتہ ڈھونڈ لو۔ ہماری طرف سے جواب ہے۔اس کی ساس سے یہ کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔ 

آپ یہ رشتہ کیسے ختم کر سکتی ہیں۔بات تو سنیں….“ رابعہ کو اس قدر ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا اسے اندازہ نہیں تھا۔وہ یہ سب روبی کے ہاتھوں مجبور ہو کر کر رہی تھی۔ رابعہ معاملہ

سلجھاتی سلجھاتی بگاڑ بیٹھی تھی۔ اب تو کھیل ہی ختم ہو گیا تھا۔روبی پیچھے کھڑی رابعہ کو فون پر بات کرتا سنتی رہی۔ رابعہ نے پلٹ کر دیکھا تو روبی روتی ہوئی سر جھٹک کر وہاںسے چلی گئی۔ رابعہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

شاہ ماران ۔ افسانہ

Read Next

صحرا کی بلبل؛ ریشماں ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!