
جمی بیچارہ
لڑکیوں کو منہ دکھائی میں کنگن ملتے ہیں، لاکٹ ملتے ہیں اور مجھے ملا ”جمی بے چارہ”۔ جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تو دروازے
لڑکیوں کو منہ دکھائی میں کنگن ملتے ہیں، لاکٹ ملتے ہیں اور مجھے ملا ”جمی بے چارہ”۔ جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تو دروازے
گائے کے سینگ باذلہ سردار ایران کے کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ اُس کے دو بچے تھے۔ بیٹی کا نام نور اور بیٹے
چی چی کی توبہ زاہدہ عروج شہر سے بہت دور ایک باغ تھا جس میں ایک ننھی چیونٹی رہتی تھی۔ اُس کا نام چی چی
” شکر ہے بھئی نکل آئے دکان سے۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ توبہ کتنا رش تھا۔”فائزہ نے اپنے
”سنو! مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو؟” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں
سبزی منڈی کے ایک جانب گلی سڑی سبزیوں کے ڈھیر تھے، جن پر مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے ۔ ارد گرد ناقابلِ برداشت بد
”میز پر پڑے لوازمات سے انصاف کرتے ہوئے ہر ایک اپنی رائے دینے میں مشغول تھا ”تم نے اچھا نہیں کیا بلال…” ”کتنی صابر بچی
دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اس کا سامنا ممی سے ہوا تھا… اس کا چہرہ دیکھتے ہی وہ ٹھٹکیں۔ ”کیا ہوا ہے؟” وہ بے
عالیشان محل جیسے گھر میں رہنا کس کی آرزو نہیں ہوتی ؟بڑی لاگت اور مشقت کے بعد یہ مکان تعمیر تو کر لیے جاتے ہیں
تحریر:مدیحہ شاہد ”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ) ”لاہور لاہور ہے” باب8 ہم مقررہ وقت پر استنبول سے جدہ جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔