دیارِ خلیل – فرحین خالد

عالیشان محل جیسے گھر میں رہنا کس کی آرزو نہیں ہوتی ؟بڑی لاگت اور مشقت کے بعد یہ مکان تعمیر تو کر لیے جاتے ہیں مگر ان کو ”گھر ” بنانے کے لیے مزید قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔گھر کے مکینوں کی اطراف میں کھنچی ان کی محافظ کہیے یا رکاوٹ، ایک دیوار بھی حائل رہتی ہے جس کو مزّین اور آراستہ تو خوب کیا جاتا ہے مگر اس کی نفسیات کو نہیں سمجھا جاتا ۔آیئے آج ایک ایسی ہی دیوار سے اس کی بپتا سنتے ہیں۔





مجھ سے ملئے …میں، دیارِ خلیل میں کھڑی ایک ساکت دیوار ہوں جو خود کو اس گھر کا اہم جز سمجھتی ہے ۔میں ہوں تو پتھر جیسی مگر دل میرا ، آپ ہی کی طرح نرم ہے۔ یہ بات سن کے آپ کو حیرت ہوئی ؟ کیوں..؟ جب آپ یہ مانتے ہیں کہ دیواروں کے کان ہوتے ہیں، جب آپ یہ مانتے ہیں کہ روز جزا ہر ہر پتھر گواہی دے گا تو یہ ماننے میں بھی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ میرا ایک دل بھی ہے جو اپنے مکینوں کے لیے دھڑکتا ہے۔ ہاں ، مجھے ان سے سچی محبت ہے ۔ جب یہاں حزن بسیرا کرتا ہے تو میرا گریہ نہیں رکتا اور جب یہاں شادیانے بجتے ہیں تو میں ان کے قہقہوں کی گونج ہوتی ہوں۔میں جب تک اپنے مکینوں کو نہیں اپناتی ان کی اجنبیت دور نہیں ہوتی ۔
پچھلے دنوں جب مجھ پہ روغن ہوا تو یہ اندازہ ہوا کہ میرا پھر سے سودا ہوگیا ہے… سوچتی ہوں کہ یہ کیسے سپنوں کے بیوپاری ہیں کہ جب اتنے چاؤ سے میری ایک ایک اینٹ میں خلوص و وفا کا گارا لگا کر مجھے بلندکرتے ہیں تو آخر مجھے بیچ کیوں جاتے ہیں ؟ میں، اپنے خمیر میں گندھی خصلتوں سے مجبور… اپنے ہر ایک باسی سے پیماں نبھاتی ہوں۔بہرحال آج میں خوش ہوں کہ میری ویرانی دور ہو رہی ہے ۔





صبح سے چہل پہل تھی۔میں اپنی مقابل دیوار پہ بنتے ہیولے دیکھ رہی تھی۔ کچھ اندیشے تھے ، جو بڑھ رہے تھے کچھ آرزوئیں تھیںجو زور پکڑ رہیں تھیںکیوںکہ مزدور قطار در قطار سامان اٹھائے اندر چلے آ رہے تھے۔مجھے بھی اپنے مکینوں کو دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا کہ کون ہوں گے؟ کیسے ہوں گے ؟ اللہ کرے کہ بچوں والے ہوں، مجھے ننھے بچوں کی گونجتی کلکاریاں بہت اچھی لگتی ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ پہیے جیسی گول گول چیز بھی ہوا میں لہرائی ہے۔ضرور گھر کے کسی بزرگ کی سائیکل ہوگی جو صبح ہی صبح پارک لے کر جائیں گے اور واپسی میں سودا لیتے ہوئے گھر آئیں گے ۔آوازیں تو آ رہی ہیں مگر سمجھ نہیں آ رہا کس زبان میں بول رہے ہیں۔مجھے ایک لمحے کے لیے فکر ہوئی کہ میں اکیلی رہ جاؤں گی مگر دوسرے ہی لمحے میںنے تہیہ کر لیا کہ کوئی بات نہیں میں سیکھ لوں گی اسی ٹی وی لاؤنج میں تو بیٹھیں گے سارا دن یہ لوگ۔
اب سائے ڈھل گئے تھے اور آوازیں بھی مدھم ہو گئیں تھیں۔ مجھے ابھی تک کسی کی جھلک نہیں دکھائی دی تھی۔ اچانک گھٹنوں گھٹنوں رینگتا ہوا ایک بچہ دکھائی دیا۔میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ خدا نے میری سن لی ہے ۔میری ممتا اس بچے کو اپنی نگاہ میں بھرنے کی مشتاق تھی۔ اچانک ایک سایہ اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں نمودار ہوا اور اس نے آواز لگائی ….
” بیبو ..بیبو..ارے وہاں کہاں چلی گئیں ؟”
میںنے سوچا، بڑے فلمی لوگ ہیں!کیسا نام رکھا ہے منے بچے کا؟ مگر جیسے ہی روشنی کا جھماکا ہوا میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ اتنے دن ہو گئے تھے اندھیرے میں رہتے ہوئے۔ غور کیا تو نگاہوں پہ یقین نہیں آیا۔ زمین پہ ایک بزرگ خاتون بیٹھی سفید ریشمی بالوں والے بچے کو سہلا رہی تھیں۔ مجھے پانچ دن لگ گئے یہ یقین کرنے میں کہ یہ کوئی بچہ نہیں ایک پالتو بلی ہے، جو بڑی بی کی بے حد لاڈلی ہے۔ اگر وہ میاؤں میاؤں کی آواز نہ نکالتی تو میری ساتھی دیواریں مجھے اندھا کہہ کے ٹال دیتیں ۔
یہ تین لوگوں کی ایک چھوٹی سی فیملی ہے۔ سونیا گھر کی بہو ہے ،سمیر اس گھر کا واحد مرد اور تابع دار بیٹا ہے ، ایک بیوہ بوڑھی ماں اور ان کی ایرانی نسل کی خوبصورت بلی… بیبو۔ ممی جی اور سمیر کی تو اس میں جان اٹکی رہتی ہے۔ اس کی ایک ایک ادا کو محبت سے دیکھتے ہیں اور ناز نخرے اٹھاتے نہیں تھکتے۔ اسے جب بھی موقع ملتا، سونیا اور سمیر کے بیچ میں آ کے پسر جاتی ۔سونیا کی تو جان ہی جل جاتی تھی ۔ جتنا وہ بیبو سے الرجک تھی اتنا ہی بیبو اس کی التفات کی منتظر رہتی۔ در اصل سونیا گھر میں جانور رکھنے کی قائل نہیں تھی اور دوسرے اس کو سمیر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ مقابلہ منظور نہیں تھا، گویا ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ روز کا ایک ہی ٹنٹا تھا ، بیبو چیزیں لڑھکاتی ، گند مچاتی ، صبح صبح شور کر کے ان کو جگاتی ، فرنیچر خراب کرتی، ہر چیز میں مخل ہوتی مگر سمیر کو سب ”کیوٹ ”لگتا اور ممی جی ، وہ تو ا س کی ہر ہر ادا کو دس دس بار دہراتے نہ تھکتیں۔ سونیا پیج و تاب کھا کے رہ جاتی۔ میں یہ سلسلہ بہ غور دیکھ رہی تھی اور ان ماں بیٹے کے اس لگاؤ کی وجہ سمجھ رہی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ گھر میں کوئی بچہ نہیں تھا جو ان کا دل لبھاتا یا دھیان بٹاتا … مگر سونیا کو کون سمجھاتا اس کے اندر ایک لاوا پک رہا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ یہ گھر آباد ہونے سے پہلے نہ ٹوٹ جائے ۔





سونیا نے بارہا اور برملا سمیر سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار بھی کیا تھا مگر وہ ماں کی طرف دیکھتا تو مجبور ہو جاتا کیوںکہ ان کو اپنی بلی سے ایک لمحے کی دوری گوارا نہ تھی ۔دراصل وہ ان کی بارہ سالہ پرانی رفیقہ تھی، جس نے ان کی زندگی میں موجود خلا کو پُر کیا تھا اور اب وہ اس کی اتنی عادی تھیں کہ اس کو اپنا جزو لاینفک سمجھتی تھیں۔سمیر مخمصے کا شکار ہوگیا تھا۔ماں کو خوش کرتا تو بیوی ناراض ، بیوی کو خوش کرنے کا مطلب تھا کہ ماں کی دل آزاری ۔ بادی النظر میں رب کی رضا بھی مطلوب تھی۔کرتا تو کیا کرتا ۔میں دیکھ رہی تھی کہ وہ خاموش طبیعت تھا سگریٹ کے ساتھ ساتھ خود بھی سلگ رہا ہوتا تھا ۔
سونیا بری نہیں تھی۔مشیتِ ایزدی کے آگے مجبور تھی۔ ساس سے شکایت نہیں تھی ، بس ان کے شوق سے تھی ۔بیبو بھی تو نت نئے بہانے ڈھونڈتی تھی اس کو زچ کرنے کے ۔ایک روز جب سونیا نے اپنے کرسٹل کا سامان الماری میں لگانا شرو ع کیا تو میں نے خود دیکھا کہ بیبو صاحبہ آ کے اسی ڈبے میں براجمان ہو گئیں…سونیا کو صفائی اور سجاوٹ کا خبط تھا۔ ایک ہاتھ میں کپڑا اور دوسرے ہاتھ میں کرسٹل اٹھائے وہ جیسے ہی کچھ اور نکالنے جھکی تو بیبونے اندر سے باہر کی جانب چھلانگ لگا دی، اس اچانک حرکت سے سونیا کا توازن بگڑ گیا اور وہ دھڑام سے گر گئی … میرے منہ سے بھی چیخ نکل گئی ۔ آواز سن کے سمیر آیا تو سونیا کا پارہ اور چڑھ گیا اس نے کہا: ”تم کب اس عذاب سے میری جان چھڑاؤ گے! دیکھو ، کتنا نقصان کردیا اس نے میرا”سمیر نے کرسٹل کے ٹکڑوں کو دیکھ کر کہا ”کوئی بات نہیں اور آ جائے گا۔” سونیا کو اس کا اطمینان کو دیکھ کر آگ لگ گئی اس نے تو آؤ دیکھا نہ تاؤ اگلے پچھلے سارے حساب برابر کر دیئے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے چار سال ہو گئے ہیں اس بلی کو برداشت کرتے ہوئے اور اب اُسے کسی قیمت پہ بیبو کی حکمرانی منظور نہیں۔ اس بلی کی وجہ سے سونیا کو الرجی رہنے لگی تھی جو سخت تکلیف کا باعث تھی۔ جواب میں سمیر نے بس اتنا ہی کہا: ”ممی کے کمرے میں چھوڑ آتا ہوں۔” اس نے پیار سے بیبو کو گود میں بھرا اور باہر لے گیا۔سونیا نے اپنے گرد بکھرے کرسٹل کو دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کے رو دی ۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا ۔مجھے پتا تھا ان ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں میں وہ اپنا دل اور مان دیکھ رہی تھی، جو سمیر نے نہیں رکھا تھا ۔میں سوچ رہ رہی تھی کہ کیا جانور کو انسان پر فوقیت دینا درست ہے ؟ میں تو بس وہی جانتی تھی جس کا مجھے ادراک تھا ۔ باہر کی دنیا جانے کس طرح ایسی گتھی سلجھاتی ہوگی ..؟





بانو آپا کئی دن سے بیٹے کی گہری خاموشی اور سونیا کا اس سے الگ تھلگ رہنا دیکھ رہیں تھیں ۔ سونیا سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے رکھائی سے جواب دیا جس سے ان کا قلق بڑھ گیا۔ بیبو نے جب انہیں اُداس بیٹھا دیکھا تو پاس پڑی بال سے خوب کھیل کھیل کر دکھایا اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا مگر وہ گہری سوچ میں ڈوبی رہیں۔ ان کی آنکھوں سے جو مو تی جھڑ رہے تھے وہ اپنے دوپٹے میں سمیٹتی رہیں۔ بیبو بھی آزردہ سی ہو کے پیروں میں بیٹھ گئی ۔
شام جب سمیر گھر آیا تو نہ بانو آپا تھیں نہ بیبو۔اس نے سونیا سے پوچھا تو اس نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ وہ دونوں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے اور مجھے اچھا لگ رہا تھا، جب وہ کبھی کبھی ایک ساتھ کسی بات پہ ہنس دیتے ۔جونہی گھنٹی بجی مجھے لگا آ گئے کوئی مہمان کباب میں ہڈی بننے ، کم ہی ہوتا تھا جب وہ دونوں اتنے پرسکون دکھائی دیتے تھے مگر اندر آنے والی کوئی اور نہیں بانو آپا تھیں اور ان کے ہاتھ میں ایک پنجرہ تھا جس میں دو خوبصورت طائرِ محبت کی جوڑی تھی ۔ پوچھنے پہ چہک چہک کے بتانے لگیں کہ وہ اسلم بھائی کو بیبو دے آئیں ہیں، جو ان دنوں بالکل اکیلے تھے اور بدلے میں دو پنچھی لائی ہوں دیکھو تو… سمیر اور سونیا دونوں پنجرے پہ جھکے ہوئے ان کا چہچہانا اور پُھدکنا دیکھ رہے تھے ۔سونیا نے ان سے پوچھا کہ کیا نام رکھیں گی ان کے تو سوچ کے بولیں مشیل اور اوباما ۔ تینوں نے ایک ساتھ فلک شگاف قہقہہ لگایا اور میں بھی یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑی … ہنستے ہنستے بانو آپا کی آنکھیں چھلک پڑیں تو بہ مشکل میرے رُکے آنسو بھی رواں ہوگئے مگر آج میں نے ایک نئی بات سیکھی تھی کہ بڑا پن کیا ہوتا ہے۔بانو آپا نے گھر کی خوشیوں کی خاطر اپنی چاہت قربان کی تھی۔ گھر والوں کو جوڑے رکھنے کے لیے ایسی ہی ان گنت قربانیاں دینی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر وہ خوشیوں کا گہوارہ بنتا ہے ۔ خدا کرے کہ یہ گھر اور خوشیاں ان کو راس آ جائیں۔





Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 8

Read Next

عطش – میمونہ صدف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!