جمی بیچارہ

لڑکیوں کو منہ دکھائی میں کنگن ملتے ہیں، لاکٹ ملتے ہیں اور مجھے ملا ”جمی بے چارہ”۔
جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تو دروازے کی چوکھٹ پر میرا غرارہ پیروں تلے آیا اور میں لُڑکھڑا گئی۔ ساتھ چلتے جمشید نے بے ساختہ میرا بازو تھام کر مجھے گرنے سے بچایا اور اگلے ہی لمحے میرا بازو چھوڑ دیا۔ میری ساس نے ٹھنڈی آہ بھری اور فرمایا: ”بس اب یہی کچھ کرے گا جمی بے چارہ”
اگلے چند ہفتوں میں مجھے اس قسم کے جملے اتنی مرتبہ سننے کو ملے کہ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو جمی کی بے چارگی پر اس کا دل پھٹ جاتا۔ لیکن میں سخت جان تھی، بچ گئی۔
”دفتر جارہا ہے جمی بے چارہ” صبح صبح وہ روہانسی ہوکر فرماتیں۔
”پتا نہیں کیا کررہا ہوگا جمی بے چارہ!” وہ فون ہاتھ میں لے کر دفتر کا نمبر گھماتے ہوئے غم گین ہوتیں۔
”آگیا ہے جمی بے چارہ!” شام کو آہ بھر کر اعلان ہوتا۔
”بیوی کی ڈیوٹی دے رہا ہے جمی بے چارہ!” جمی کو میرے ساتھ بیٹھا دیکھ کر ملامت سے کہا جاتا۔
”بس جی جارہا ہے بیوی کے کمرے میں تھکا ٹوٹا جمی بے چارہ!” آدھی رات کو میرے سوتے جاگتے کانوں میں تلملائی آواز پڑتی۔ جمی بے چارہ رات کے دو بجے کمرے میں آتا اور آتے ہی مدہوش ہو جاتا۔ اگلے دن اس کی اُتری شکل اور نیند سے بند ہوتی آنکھیں دیکھ کر غم و غصے سے بھرا بیان جاری ہوتا۔ ”جب سے شادی ہوئی ہے، کم زور ہوگیا ہے جمی بے چارہ۔”
شادی کے مہینے بعد جمی بے چارے کو دفتر سے چھٹی ملی اور وہ مجھے ہنی مون پر لے گیا۔
”لے جارہا ہے جمی بے چارہ” میری ساس رفعت آراء نے ہمیں رخصت کرتے وقت آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ اس وقت تک میں جمی کی مستقل بے چارگی سے تنگ آچکی تھی اور میرا ارادہ تھا کہ اس بے چارے کو اس کا کھویا ہوا اعتماد لوٹاؤں گی اور اسے اس کی مردانگی، ہمت اور احساس ذمہ داری سے روشناس کراؤں گی۔ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں… کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ جمی لاڈ کا بلبلہ تھا۔ احساس ذمہ داری کی تیز دھوپ نہ سہ سکا، پھوٹ گیا۔، ہنی مون کے تیسرے دن اس نے کونے میں چھپ کے رفعت آراء کو فون کیا اور دو گھنٹے تک کھسر پھسر کرتا رہا۔ کبھی کبھی کن انکھیوں سے مجھے دیکھ لیتا اور پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر سرگوشیاں کرنے لگتا۔ فون بند کرکے آدھے گھنٹے تک تکیہ سر پر رکھ کر بستر پر پڑا رہا۔پھر اٹھ کر منہ لٹکا کر بولا: ”سامان پیک کرو ہم پنڈی جارہے ہیں۔”
میں حیران رہ گئی، پریشان ہوکر پوچھا: ”کیوں؟ ہم تو ایک ہفتے کے لیے آئے تھے۔”
”میرے پیٹ میں اینٹھن سی ہے، کھانا ہضم نہیں ہورہا مجھے یہاں کا۔” ارشاد ہوا۔
”کوئی دوا لے لیں۔” میں نے کہنے کی کوشش کی۔
”پانی بھی اچھا نہیں ہے یہاں کا۔”
”منرل واٹر خرید لیتے ہیں۔”
”تکیے ٹھیک نہیں یہاں کے۔”
”منیجر سے کہہ کر بدلوا لیتے ہیں۔”
”میں تھک گیا ہوں۔”





میں سمجھ گئی نہ کھانا خراب تھا نہ پانی، نہ ہی تکیوں میں کوئی مسئلہ تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ جمی بے چارہ ماں کی گود سے نکل آیا تھا۔ اس کی طبیعت نہیں، تربیت خراب تھی۔
دوپہر کو پنڈی پہنچے، رشتے داروں کے یہاں ٹھہرے۔ شام تک رفعت آرا بھی پہنچ گئیں۔ پندرہ منٹ تک مجھے ملامتی نظروں سے گھورتی رہیں، پھر آہ بھر کر بولیں: ”وہی میں نے کہا جمی بے چارہ”
اس رات میں قالین پر سوئی اور رفعت آرا جمی بے چارے کے ساتھ ڈبل بیڈ پر۔ رات کو اٹھ اٹھ کر کبھی اس کا تکیہ ٹھیک کرتیں، کبھی کمبل، صبح جمی بے چارہ چہک رہا تھا اور میں خاموش تھی۔ جمی کے کپڑے، جمی کی چیزیں، جمی کا ناشتا، ان سب کا اہتمام رفعت آرا نے کیا۔ وہ نخرے دکھاتا رہا، یہ نخرے اٹھاتی رہیں۔ ناشتے کے بعد رشتے دار ہمیں بس اڈے پر چھوڑ آئے۔ رفعت آرا اور جمی ساتھ ساتھ بیٹھے، مجھے پچھلی سیٹوں پر ایک میلی سی خاتون کے ساتھ بٹھا دیا۔ سارا راستہ وہ میلی خاتون نیند میں مجھ پر لڑھکتی رہیں اور میرے کان میں خراٹے لیتی رہیں۔ مجھے ایک مکھن لگا سینڈوچ تھما کر جمی اور رفعت آرا تمام راستہ کھاتے پیتے، چہکتے، سوتے، مزے کرتے آئے۔ گھر پہنچ کر رفعت آرا نے مجھے سامان کے ساتھ دروازے میں کھڑا کیا اور فٹافٹ جمی کو اپنے کمرے میں لے گئیں۔
”آپ صوفے پر سوئیں۔” انہوں نے کڑے تیوروں سے میرے سسر کو کہا :
”آج ادھر رکھوں گی میں جمی کو، تھک گیا ہے جمی بے چارہ۔”
”عائشہ کہاں ہے؟” سسر صاحب نے پوچھا۔
”آرہی ہے۔” رفعت آرا جمی کا تکیہ ٹھیک کرتے ہوئے بے نیازی سے بولیں۔
”عائشہ میرے لیے چائے بنا دو۔” سسر نے آواز لگائی۔
”جمی کے لیے دودھ میں اوولٹین ڈال کر لا دو۔” رفعت آرا نے آواز دی۔ پھر بڑ بڑا کر بولیں۔ ”وہی میں نے کہا، جمی بے چارہ۔”
٭…٭…٭
میں جو سمجھتی تھی کہ جمی کی مردانگی اور غیرت جگانے کی ضرورت ہے، تو وہ میری خام خیالی تھی۔ جمی کو کسی بات پر غصہ آجاتا تو وہ ایسا طوفان اٹھاتا کہ میں ششدر رہ جاتی۔ رفعت آرا دوڑی آتیں اور ڈپٹ کر پوچھتیں: ”کیا کہہ رہی ہو تم جمی کو؟”
”میں تو کچھ نہیں کہہ رہی، یہی چلا رہے ہیں مجھ پر۔” میں روتے ہوئے کہتی۔
”ضرور تم نے غصہ دلایا ہوگا، ورنہ ایسے تو نہیں کرتا جمی بے چارہ۔” وہ کہتیں اور جمی کو بازو سے پکڑ کر لے جاتیں۔ اگلے دو دن جمی کمرے میں نہ آتا۔ میں جا کر معافی مانگتی، وہ سو سو نخرے دکھاتا، میں سو سو وعدے کرتی، پھر جمی کمرے میں آنے پر راضی ہوتا۔ رفعت آرا تنفر سے مجھے دیکھتیں اور منہ پھیر کر بُڑبڑاتیں۔ ”جارہا ہے جمی بے چارہ۔”
پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ پتا نہیں انہیں صدمہ بیٹی پیدا ہونے پر تھا یا اس بات پر کہ وہ ہو کیسے گئی؟ دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو انہیں سکتہ ہوگیا۔ جب سکتہ ٹوٹا تو انہوں نے ایک آہِ سرد کھینچی اور آنکھوں میں آنسو لا کر بولیں: ”ابھی تو خود چھوٹا سا ہے جمی بے چارہ اور دو بیٹیوں کا باپ بن گیا ہے۔” میں نے بتیس سالہ چھوٹے سے جمی بے چارے کو دیکھا جو بیٹی کو گود میں لیے نہایت مسکین اور مظلوم شکل بنائے رفعت آرا کے فرمودات سن رہا تھا۔
”کیسے پالے گا؟ کیسے پڑھائے گا؟ کیسے بیاہے گا؟” رفعت آراء آنسو پونچھ کر بولیں۔
”جیسے باقی سب لوگ کرتے ہیں۔” میں نے کہا۔
رفعت آرا نے حقارت سے میری طرف دیکھا اور میری بے وقوفی پر ہونہہ کہہ کر منہ پھیر لیا۔ اوہ ہاں میں تو بھول ہی گئی تھی۔ دوسرے لوگ بے چارے تھوڑی ہیں۔ یہ اعزاز توصرف جمی کو حاصل تھا۔
جمی صرف گھر میں بے چارہ نہیں تھا، دفتر میں بھی بے چارہ تھا۔ اس کی باتیں سنو تو لگتا تھا کہ دنیا چل ہی اس کے کندھوں پر رہی ہے مگر تنخواہ بے چارے کی اتنی کم تھی کہ بچوں کا دودھ آسکتا تھا یا ڈائپر۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے رفعت آرا کی طرح سوچنا شروع کیا۔ ”کیسے پالیں گے؟ کیسے پڑھائیں گے؟ کیسے بیاہیں گے؟”
میں نے ملازمت کرلی۔ میں صبح سویرے اٹھتی، بڑی بیٹی کو تیار کرتی، چھوٹی کو کمبل میں لپیٹ کر ساتھ لیتی اور بڑی کو اسکول چھوڑ کر آتی۔ واپس آکر جمی کے کپڑے پریس کرتی، صفائی کرتی، ناشتا بناتی، چھوٹی بیٹی کو تیار کرتی، خود تیار ہوتی۔ جمی اس تمام عرصے میں سویا رہتا۔ میں چھوٹی بیٹی کو امی کے گھر چھوڑ کر دفتر چلی جاتی۔ دوپہر کو دفتر سے اٹھ کر بڑی کو اسکول سے لیتی۔ امی کے گھر چھوڑتی اور واپس آتی۔ اسی چکر میں لنچ ٹائم نکل جاتا۔ شام کو بچوں کو امی کے گھر سے لے کر واپس آتی۔ گھر آکر بچوں کی مصروفیت، ہوم ورک، دودھ، نیند کے چکروں میں پڑ کر کھانا بھول جاتی۔ صبح کے ناشتے کے بعد رات دس بجے جب کھانا کھانے بیٹھتی تو معلوم ہوتا کہ سالن تو سارا جمی کھا گیا ہے کیوں کہ وہ آفس گیا تھا اور پھر دیر سے واپسی پر کافی بھوکا ہوتا لہٰذا اس کی طاقت بحال کرنے کے لیے اسے میرے حصے کا کھانا بھی کھلا دیا جاتا۔ میں کبھی سالن کی دیگچی میں چکنائی کے ساتھ روٹی کھالیتی، کبھی دو چار بسکٹ کھا کر سوجاتی۔
جمی آئے دن چھٹیاں کرتا مگر اس سے اس کی بے چارگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ گھر بیٹھا بھی اتنا ہی بے چارہ تھا، جتنا دفتر میں اور چوں کہ وہ دفتر آنے جانے میں بہت تھک جاتا تھا اس لیے رفعت آرا نے ایک بیڈ اس کے لیے اپنے کمرے میں بچھا رکھا تھا تاکہ وہ سکون سے وہاں سوسکے اور رات کو بچوں کی وجہ سے اس کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ بچوں کی بیماریاں، ان کی تکلیفیں، ان کا راتوں کو وقت بے وقت جاگنا، سب میں دیکھتی کیوں کہ میں چارہ گر تھی اور جمی بے چارہ تھا۔
میری زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جب مجھے جمی کی بے چارگی پر ترس آتا تھا، پھر غصہ آنے لگا اور پھر وہ وقت آیا جب مجھے مطلق پروا نہ رہی۔ پہلے پہل جب بچے چھوٹے تھے اور کبھی کبھار شام کو بھولا بھٹکا جمی کمرے میں آنکلتا، تو فوراً ہی رفعت آرا کی آواز آتی: ”آجا جمی، میرا کا ڈانس آرہا ہے TVپر۔” اور جمی بے چارہ دوڑا دوڑا چلا جاتا، تو میں آدھی رات تک جلتی کڑھتی رہتی تھی۔ اب میں آرام سے اٹھتی اور پیچھے سے آواز دیتی ”کمبل لیتے جائیں۔” جمی خوشی خوشی کمبل لے جاتا اور میں جلے کڑھے بغیر دروازہ بند کرلیتی۔ سچ تو یہ تھا کہ میری زندگی جمی کی بے چارگی اور خباثت کے بغیر زیادہ اچھی گزر رہی تھی۔ دونوں بچیاں اسکول جانے لگی تھیں۔ زندگی کی افراتفری میں کچھ ٹھہراؤ سا آگیا تھا۔ دفتر میں میری ترقی ہوگئی۔ اسسٹنٹ ڈیزائنر سے میں چیف ڈیزائنر بن گئی اور دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ مجھے پرائیویٹ کانٹریکٹس بھی ملنے لگے تھے۔ اب میں فرنیچر اور چھوٹے گھر ڈیزائن کرنے سے بڑھ کر بڑے بڑے ولاز، آفس، اور شاپنگ مالز ڈیزائن کرنے لگی تھی۔ ایک دن میرے دفتر میں اخبار والے میرا انٹرویو کرنے آئے۔ انہوں نے میرا پورٹ فولیو دیکھا تو اپنے TVچینل کے لیے انٹرویو کا وقت مانگ لیا۔ یہ ایک لمبا پروگرام ہونا تھا جو وہ میرے گھر پر ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ انٹرویو والے دن جمی جلدی گھر آگیا اور لاؤنج کے کونے میں بیٹھ کر رفعت آرا سے کھسر پھسر کرنے لگا۔ میں کچن میں چائے کی تیاریوں میں مصروف رہی۔ مجھے اب کسی قسم کی سرگوشیوں کی پروا نہیں تھی۔ تھوڑی دیر میں گیٹ پر بیل ہوئی۔ جمی نے جلدی سے ٹی ویلگایا اور یوں ظاہر کیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا۔ چینل والے تھے۔ میں انہیں ڈرائنگ روم میں لے آئی۔ دو کیمرا مین، ایک ساؤنڈ ریکارڈسٹ اور ایک نوجوان لڑکا انٹرویو کرنے آیا تھا۔ وہ سب وہاں اپنے کیمرے، لائٹس اور دوسرا ایکوئپمنٹ سیٹ کرنے لگے۔ پروگرام کا ہوسٹ مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ وہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے کون کون سے سوال پوچھے گا اور مجھے ان کے کتنے منٹ پر مبنی جواب دینے ہوں گے۔ اس سے باتیں کرتے کرتے میری نظر ڈرائنگ روم کے دروازے پر پڑی۔ دروازے کا پردہ ذرا سا ہٹا کر جمی اندر جھانک رہا تھا۔ پردے کی درز اتنی تھی کہ اس میں سے صرف اس کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ اور کیا نہیں تھا اس کے چہرے پر… دبا دبا سا غصہ، جلتا ہوا حسد، طفلانہ تلملاہٹ… اور سب سے بڑھ کر بے چارگی، امڈتی، بلبلاتی، بے بس بے چارگی، اپنی ناکامیوں اور بیوی کی کامیابیوں کا احساس دلاتی بے چارگی، یہ دن دیکھنے پر مجبور ہو جانے پر ایک مجبور سی بے چارگی۔ میری نظروں کے تعاقب میں ہوسٹ نے دروازے کی طرف دیکھا اور پردے میں سے ایک ذرا سا منہ نکلا ہوا دیکھ کر کچھ حیران سا ہوگیا۔
”یہ کون ہیں؟” اس نے ملی جلی حیرت اور تمسخر سے پوچھا۔
”یہ جمی ہے” میں نے جمی کے چہرے سے نظریں ہٹا کر کہا۔
”جمی کون؟” اس نے پوچھا۔
میں نے ایک نظر جمی کے آئینہ بنے چہرے پر ڈالی اور بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ”جمی بے چارہ۔”

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

جھمکے —- ماریہ یاسر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!