باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

اگلے دن ماں اور مُنی ناشتہ کر رہی تھیں کہ منی نے ڈرتے ڈرتے بات شروع کی۔
”اماں ایک بات کہوں؟ناراض تو نہیں ہوگی؟”
”ہاں بول۔”ماں نے پراٹھے کا نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
”اماں رات کو فوزیہ باجی کا فون آیا تھا۔” منی نے ہکلاہٹ سے کہا۔
” کیا فوزیہ کا فون… ” ماں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر سوال کیا۔ منی اس کے پاس آگئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
” تو سو رہی تھی۔ باجی بات کرنا چاہ رہی تھی۔”
”اب کیوں بات کرنا چاہ رہی تھی وہ؟جب ہم سب مر جاتے تب بات کرتی۔تو نے بتایا نہیں اس کے جانے کے بعد ہم کتنی مصیبتوں میں ہیں۔”ماں نے دکھی لہجے میں کہا۔
”ہاں اماں باجی کہہ رہی تھی کہ میں مُنے اور گھر کے لیے پیسے بھیجوں گی۔” منی نے اسے دلاسا دیا۔
”وہ کہاں سے پیسے بھیجے گی؟”ماں نے تعجب سے سوال کیا۔
”باجی شہر میں ایک بڑی دکان پر کپڑے سیتی ہے۔”منی نے اشتیاق سے جواب دیا۔
”ہائے فوزیہ کے ہونے سے کتنا کچھ اچھا تھا اس کے جاتے ہی جیسے گھر کو نظر لگ گئی،بھائی الگ ہوگیا،تیرے باپ کا کام رُک گیا،گھر کو جیسے نظر لگ گئی۔” ماں فوزیہ کو یاد کرکے دکھی ہو رہی تھی۔
٭…٭…٭





عابد نے دکان پر جاتے ہوئے گھر کے خرچ کے لیے اپنی ماں کے ہاتھ پر پیسے رکھے۔ ماں نے اتنے کم پیسے دیکھ کر اسے جھاڑنا شروع کر دیا۔
”اماں کیا کروں دکان ہی نہیں چل رہی۔تو چھوٹے سے کہہ کر کچھ پیسے دبئی سے منگوا۔”عابد نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
” ارے! دکان کیسے نہیں چل رہی،اتنا سامان توڈلوایا تھا تیرے بھائی نے اور تو بار بار شہر جا کر خرید کر بھی لا رہا ہے۔ پھر دکان کیسے نہیں چل رہی؟”ماں نے حیرانی سے اونچی آواز میںپوچھا۔ماں بیٹے کی باتیں سن کر روبی بھی کمرے سے نکل آئی۔
”اماں جب تیرا بیٹا پورے گاؤں کی عورتوں کومفت میں سامان بانٹے گا تو منافع کیسے ہوگا۔”روبی نے آتے ہی طنز کیا۔
” تو چپ کر جا،زیادہ بولے گی تو مار کھائے گی۔”عابد روبی کی مداخلت پر غصے میں آگیا۔
” کیوں میں کیوں مار کھاؤں ،اماں تو اس سے پوچھ اس کی دکان پر عورتوں کا اتنا رش کیوں ہوتا ہے؟”روبی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اماں دکان میں عورتوں کی چیزیں ہیں، عورتوں کا رش تو ہوگا۔”عابد نے ماں کی طر ف منہ کرتے ہوئے کہا۔
”تو منیاری کی دکان اسی لیے نہیں کھولتاکہ پھرپورے گاؤں کی آوارہ عورتیں پھر تیری دکان پر نہیں آئیں گی۔”روبی نے ایک اور طنز کیا تو عابد نے ایک چپل اس کی طرف پھینکی اور وہ اندر بھا گ گئی۔
”دیکھ اماں دیکھ! اس کی زبان کیسی قینچی کی طرح چل رہی ہے۔میں تیرا منہ توڑ دوں گا اگر آئندہ ایسی بدتمیزی کی تو۔”عابد نے غصے سے کہا۔
”او! بس کردے لڑنا،میری بات کا جواب دے۔ پیسے کیوں کم ہیں؟”ماں نے اپنا سوال دہرایا۔
”کیا جواب دوں اور منگوا اس سے پیسے ،اب سامان ختم ہورہا ہے دکان میں۔”عابد نے رکھائی سے کہا۔
”وہ اتنی محنت تیری عیاشیوں کے لیے نہیں کررہا وہاں کہ تو جب پیسے مانگے وہ تجھے بھیج دے۔”ماں نے غصے سے چیختے ہوئے عابد کو لتاڑا۔
”تو دیکھ لے کہ گھر کیسے چلے گا،میں تو اتنا ہی کرسکتا ہوں۔دکان کو تو جیسے نظر لگ گئی ہے۔”عابد نے فکرمندی سے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
کنول سوچوں میں گم اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ریحان بھی اس کے پاس آگیا۔
”بے بی کیا کررہی ہو؟”ریحان نے سوچوں میں گم کنول سے پوچھا۔
”میری بات ہوئی تھی گھر پر ریحان، وہاں بہت مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔ ابا پریشان ہے،بھائی گھر چھوڑ گیا اور مُنے نے پڑھائی چھوڑ دی۔میں سوچ رہی ہوں کہ تھوڑے سے پیسے منی آرڈر کروا دوں۔”کنول نے متفکرانہ انداز میں جواب دیا۔
”دیکھو کنول ابھی تو تم خود ایسی سٹیج پر ہو جہاں پہلے خود کو مضبوط کیا جاتا ہے،اپنے اخراجات تو پورے کرو پہلے۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”لیکن وہ میرے گھر والے ہیں میں انہیں پریشانی میں نہیں دیکھ سکتی۔”کنول نے دکھی لہجے میں کہا۔
”تم خود ابھی کتنا کما رہی ہو؟تمہارا اپنا خرچہ تومشکل سے چل رہا ہے اور گھر والوں کی مدد کرنے چلی ہو۔”ریحان نے طنز کیا۔
” نہیں ریحان!مجھے ان کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرناہے،یہ بہت ضروری ہے۔”کنول نے اٹل اندازمیں کہا۔
”تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا لڑکی۔ تم نہیں بدل سکتیں،جو چاہو کرو۔مجھ سے مت پوچھو۔”ریحان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
”ہاں کل جاؤں گی پیسے منی آرڈر کرنے،تم بتاؤ کتنے بھیجوں؟”کنول نے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتا،جودل کرتا ہے وہی کرو۔”ریحان اس سے خفا ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭





کنول نے اپنی فٹنس کا خیال رکھنے کے لیے ایک جم جوائن کر لیا۔یہ شہر کے پوش علاقے میں واقع اچھا خاصا مہنگا جم تھا۔ایکسرسائز کرنے کے بعد وہ پسینہ پونچھتے ہوئے ریحان کے پاس آگئی ۔
” یہ بہت اچھا جم ہے ریحان،یوں دنوں میں سمارٹ ہو جاؤں گی۔”کنول نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
”ہاں اور بہت مہنگا بھی،بہت مشکل ہو جائے گا تمہارے لیے،کیسے مینج کرو گی؟”ریحان نے جم کے چاروں طرف نظر دوڑائی اور سوال کیا۔
”کر لوں گی مینج ،دنیا کو بھی تو مینج کر ہی رہی ہوں۔”کنول نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”وہی تو پوچھ رہا ہوں کیسے کرو گی؟ اب تم نے گاؤں بھی پیسے بھجوانے ہیں۔”ریحان نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں وہ توبھجوانے ہی ہیں،بلکہ یہاں سے فارغ ہو جاؤں تو مجھے کسی پوسٹ آفس تک ڈراپ کردینا۔”کنول نے جواب دیا۔
”پھر سوچ لو۔ابھی کام نہیں ہے تمہارے پاس اور ابھی گھر والوں کو پیسوں کی عادت مت ڈالو۔”ریحان نے اسے ایک دفعہ اور سمجھانے کی کوشش کی۔
”ہاں پہلے بھی اپنا ہی سوچا تھا،مگر اب کچھ ہے ہی نہیں سوچنے والا ۔”کنول نے اداسی سے جواب دیا۔
”اچھا چلو اداس مت ہو،جو ہوگا دیکھا جائے گا۔فی الحال اپنا کام کرو۔”ریحان نے اسے اداس دیکھ کر بات بدل دی۔
٭…٭…٭
ریحان نے اسے پوسٹ آفس کے باہر ڈراپ کیا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے اس نے اپنا پرس کھولا تو بے دھیانی میں اس میں موجود پیسے نیچے گر گئے جس کا اسے پتا ہی نہ چلا۔ وہ پوسٹ آفس کے اندر چلی گئی اور منی آرڈر بھیجنے کا طریقہ معلوم کیا۔جب اس نے پیسے نکالنے کے لیے بیگ کھولا تو خالی پرس اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ وہ بدحواسی کے عالم میں ادھر ادھر پیسے ڈھونڈنے لگی ۔پیسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ پوسٹ آفس سے باہر نکل کر اس جگہ پر آگئی جہاں ریحان نے اسے ڈراپ کیا تھا۔
وہ پریشانی سے یہاں وہاں بھاگ دوڑ کر رہی تھی کہ ایک گاڑی کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک نوجوان باہر نکلا۔کنول اس کی طرف بڑھی۔
”سُنیں! آپ نے میرے پیسے تو نہیں دیکھے؟”
”نہیں! مگر کیا بہت بڑی رقم تھی؟”شہریار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میرے لیے تو تھی کیوں کہ مجھے اپنے ماں باپ کو گاؤں بھیجنا تھے۔”کنول نے پریشانی سے کہا۔
”Oh I seeکتنی رقم بھیجنی تھی آپ نے؟” شہریار نے اس پر ایک نظر ڈالی پھر بولا۔”میں آپ کو پیسے دے دیتا ہوں۔”
”کیوں؟ آپ کیوں دیں گے جب آپ مجھے جانتے ہی نہیں۔”کنول نے غصے سے پوچھا۔
”یہ لیں یہ رکھ لیں۔”شہریار نے اپنے والٹ سے پیسے نکالے اور اس کی طرف بڑھادیے۔
”سنیں!آپ مجھے کیا سمجھ رہے ہیں، میں کیسی عورت ہوں؟”کنول نے اس کے ہاتھ میں پکڑے پیسوں کو اگنور کرتے ہوئے غصے سے پوچھا۔
”اس وقت میں میں آپ کو عورت نہیں صرف ضرورت مند سمجھ رہا ہوں۔ رکھ لیں،شاباش۔”شہریار نے اطمینان سے جواب دیا۔
”اچھا ٹھیک ہے،مگر آپ اپنا کارڈ بھی دے دیں مجھے۔”کنول نے کچھ سوچ کر پیسے پکڑ لیے۔
”کارڈ کیوں؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”آپ پہلے آدمی ہیں جس نے اپنا کارڈ دیے بغیر ایک عورت کو پیسے دیے۔”کنول نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”سنیں!دنیا میں سب آدمی ایک جیسے نہیں ہوتے۔”شہریار نے رسان سے کہا۔
”اچھا آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ٹھیک ہے میں لے لیتی ہوں مگر ایک شرط پر،پہلے آپ کارڈ دیں میں آپ کے پیسے جلد ہی لوٹا دوں گی۔”کنول نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
”رہنے دیں اس کی ضرورت نہیں۔”شہریار نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”اس کی ضرورت مجھے ہے،شایدآپ کو نہ ہو۔”کنول نے قطعیت سے کہا۔
”اوکے آپ ضد کررہی ہیں تو یہ رکھیں۔”شہریار نے اپنے والٹ سے وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
٭…٭…٭
امام بخش اپنے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلنے ہی لگا کہ دروازے پر ڈاکیا آگیا اور امام بخش کو آوازیں دینے لگا۔
”امام بخش! او امام بخش!”
”ہاں بھائی کیا ہو گیا؟کیوں آوازیں دے رہا ہے؟”امام بخش نے دروازہ کھول کر پوچھا۔
”امام بخش یہ شہر سے تیرے لیے منی آرڈر آیا ہے۔”ڈاکیے نے ایک کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”شہر سے ؟مگر کس نے بھیجا ہے؟”امام بخش نے حیرانی سے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
”ریحان نام کا بندہ ہے کوئی۔”ڈاکیے نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”لیکن میں تو کسی ریحان کو نہیں جانتا۔”امام بخش نے کہا اور کاغذ پر لکھا پتا دیکھنے لگا۔
”دیکھ لو اس پر پتا تو تمہارے گھر کا ہی ہے۔”ڈاکیے نے کہا۔
”ہاں اس پر لکھا پتا تو میرے گھر کا ہی ہے،لیکن مجھے کون بھیج سکتا ہے۔ بھائی دیکھ لے کسی اور کا نہ ہو۔”امام بخش نے پارسل دوبارہ ڈاکیے کی طرف بڑھا دیا۔
”لو پھر پکڑو جلدی مجھے آگے بھی ڈاک پہنچانی ہے۔”” لیکن!”امام بخش تذبذب کا شکار تھا۔اس نے انگوٹھا لگانے کو کاغذ آگے بڑھایا۔
” لیکن ویکن کچھ نہیں یہاں انگوٹھا لگاؤ اور پیسے پکڑو۔”ڈاکیے نے کہا اور امام بخش نے انگوٹھا لگا کر پیسے پکڑ لیے۔ڈاکیے کو رخصت کرنے کے بعد امام بخش اندر آیا اور اپنی بیوی کو آواز دی۔
”رحیم کی ماں سن!ادھر ، کہاں ہے تو؟”
”ہاں بول کیا ہے؟”ماں دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس کے پاس آگئی۔
”یہ دیکھ گھر کے پتے پر شہر سے پیسے آئے ہیں۔”امام بخش نے پیسے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”پیسے؟”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں پورے دس ہزار ہیں،کون بھیج سکتا ہے؟”امام بخش نے بھی اسی حیرانی سے کہا۔
”ابا باجی نے بھیجے ہوں گے۔فون آیا تھا اس کا، اس نے کہا تھا بھیجے گی گھر کے خرچے کے لیے۔”منی نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”فوزیہ کا؟ اس کا فون اب کیوں آیا تھا؟ وہ کیا سمجھتی ہے میں اب بیٹی کی کمائی کھاؤں گا؟”باپ نے غصے سے کہا۔
”ابا اس کی محنت کی کمائی ہے،ایسا نہ بول۔”منی نے باپ کو سمجھایا۔
”نہ وہاں کیا محنت کررہی ہے جو اتنے پیسے بھیج دیے؟”باپ نے طنز سے پوچھا۔
”باجی وہاں ایک بڑی دکان پرکپڑے سلائی کرتی ہے۔”منی نے اشتیاق سے جواب دیا۔
”کپڑے سینے میں اتنے پیسے ملتے ہیں کہ اس نے ہمیں بھی بھیج دیے؟”باپ کے لہجے میں طنز برقرار تھا۔
”ابا رکھ لے! اب کیوں جھگڑ رہا ہے۔”منی نے ایک دفعہ پھر باپ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”نہیں چاہئیں مجھے اس کے پیسے۔”یہ کہہ کر باپ نے پیسے دور پھینک دیے توماں نے لپک کر اُٹھا لیے اور بولی۔
”ارے ارے کیا کررہا ہے؟ کوڑا کرکٹ نہیں ،پیسہ ہے یہ، رزق ہے، قدر کرو اس کی۔آخر ہمارے اپنے ہی نے تو بھیجے ہیں کسی غیر نے تو نہیں۔”
”تیری اپنی ہوگی ،تو رکھ لے۔میرے سامنے نام بھی مت لینا اس کا۔”امام بخش نے درشتی سے بیوی کو ڈانٹا۔
”ہاں تو نہ رکھ اس سے ہماری بہت سی ضرورتیں پوری ہوں گی۔میں تو نہیں پھینکنے والی۔”ماں نے کہا اور پیسے لے کر اندر چلی گئی۔
٭…٭…٭





کنول ٹی وی پر وہی میوزک شو دیکھ رہی تھی جس میں اس نے حصہ لیا تھا اور ججز کی بدتمیزی سہی تھی۔وہی قسط نشر ہو رہی تھی جس میں اس نے بھی آڈیشن دیا تھا۔آڈیشن کے برعکس اسے ٹی وی پر نشر ہونے والی قسط میں ایک بے وقوف اور مزاحیہ کردار کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو وہاں موجود لوگوں، ججزاور اب دیکھنے والوں کے لیے تفریح طبع کا سامان تھا۔
” ریحان دیکھو!یہ سین بالکل ایسا نہیں تھا جیسا اب نظر آرہا ہے۔ان لوگوں نے کتنی بے ایمانی کی ہے، کتنا مذاق بنایا ہے میرا۔”کنول غصے سے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئی بولی۔
”میں تو پہلے ہی منع کررہا تھا۔تمہیں اس پروگرام میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، وہ جگہ تمہارے لیے نہیں تھی۔”ریحان نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”کیوں نہیں جانا چاہیے تھا؟مجھے اس لیے وہاں سے نکال دیاکیوں کہ میں سفارشی نہیں تھی؟اورکسی بڑے برانڈ نے مجھے سپانسر نہیں کیا تھا؟”کنول تپ گئی تھی۔
”سب کچھ تو تمہیں معلوم ہے،ایسے پروگرامز میں یہی سب کچھ چلتا ہے۔اگر تگڑی سفارش ہے تو سب اپنا ہے،کوئی بے سُرا بھی چل جائے گا۔کیا سمجھیں؟”ریحان نے انڈسٹری کی حقیقت اس پر آشکار کرتے ہوئے کہا۔کنول اس کی بات پر دھیان دینے کے بہ جائے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
”کنول میں تم سے بات کررہا ہوں،کیا سوچ رہی ہو۔”ریحان نے اسے گم صم دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں کچھ نہیں۔”کنول نے چونک کر جواب دیا۔
”نہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔”ریحان نے اصرار کیا۔
”میں سوچ رہی ہوں کہ یہ پروگرام گھر والوں نے بھی دیکھا ہوگا،پہچان نہ گئے ہوں۔” کنول کے لہجے میں پریشانی جھلک رہی تھی۔
”یقینادیکھا ہوگا،اتنا ڈر تھا گھر والوں کا تو نہ کرتیں یہ پروگرام۔”ریحان نے بے پروائی سے کہا۔
”نہیں میں ڈر تو نہیں رہی مگر گھر پر یہی بتا کر پیسے بھیجے ہیں کہ بوتیک کا کام کررہی ہوں۔ اگر انہیں معلوم ہوا کہ میں…”اس نے فکرمندی سے کہا۔
”چھوڑو پریشان ہونا،اب اس فیلڈ میں قدم رکھا ہے تو ہمت کرو،کچھ نہیں ہوتا۔”ریحان نے اسے تسلی دی۔
وہ لیپ ٹاپ پراپنی ویڈیوپر آئے ہوئے مختلف لوگوں کے تبصرے پڑھنے لگی ۔
” تم ذرا ان لوگوں کو دیکھو ریحان،کس طرح کے کمنٹس کررہے ہیں۔”
”برداشت کرو یار،دنوں میں سٹار بن جاؤ گی۔ تب یہی لوگ تمہاری تعریفوں کے کمنٹس کریں گے، لائیکس سے تمہارا پیج بھر جائے گا۔”ریحان نے اسے سمجھایا اور اس نے منہ بنا کر ریحان کی طرف دیکھا۔
٭…٭…٭
گوہر اپنے آفس میں بیٹھا ٹی وی پر آنے والا میوزک شو دیکھ رہا تھا جس میں کنول نے حصہ لیا تھا کہ اس کافون بج اُٹھا۔اُس نے فون ریسیو کیا اورہشاش بشاش ہوکر کہا۔
”ہیلوعظیم صاحب کیسے ہیں؟”
”بھائی ابھی ٹی وی پر ایک پروگرام چل رہا تھا۔اس میں جو ماڈل تھیں کنول بلوچ،کیاوہ اب آپ کی ماڈل ہیں؟”عظیم نے سلام دعا کے بعد پوچھا۔
”ہاں! جی ہاں وہ ہماری ہی ماڈل ہیں۔”گوہر نے بتیسی نکالتے ہوئے جواب دیا۔
”بھئی واہ آپ تو اپنی ماڈلز کو بڑا پروموٹ کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ فوٹیج آج کے پروگرام میں اسی کو ملی ہے،یہ تو راتوں رات سٹار بن جائے گی۔”عظیم نے کہا ۔
”ہاں یہ تو ہے۔”گوہر سر ہلانے لگا۔
”آپ نے اس کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ کیا ہے؟”عظیم نے پوچھا۔
”جی بالکل،ہمارا ایگریمنٹ ہے۔”گوہر نے فوراً جواب دیا۔




Loading

Read Previous

باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

Read Next

جمی بیچارہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!