
ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)
تین جنوری بروز منگل (2013ء) شام کے سائے لمبے ہو کر اب گھر کی کچی دیواروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔سورج اپنی آب
![]()

تین جنوری بروز منگل (2013ء) شام کے سائے لمبے ہو کر اب گھر کی کچی دیواروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔سورج اپنی آب
![]()

وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔
![]()

’’فارگاڈسیک مام۔۔۔ مجھے ٹھیک سے ریڈی تو ہونے دیں۔۔ آپ کے لیکچر کے لیے میں الگ سے ٹائم نکال لوں گی جانے سے پہلے۔۔‘‘ بلش
![]()

میں امجد عظیم پچھلے بارہ سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہوں۔ سفر وہ واحد چیز تھی جس سے مجھے کوفت ہوتی
![]()

لوگوں کی نظریں خود پر ٹکتی دیکھ کر اسے ایک عجیب سی کوفت کا احساس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے لیے کبھی
![]()

چھوٹے سے لال اینٹوں کے بنے صحن کے ایک طرف کمرہ تھا اور اْس کے بالکل سامنے چولہا رکھا تھا۔ جسے باورچی خانہ کا نام
![]()

’’آپ کو پتا ہے جی‘‘… ڈسٹنگ کرتی فاطمہ کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔ ’’کیا‘‘… کچن میں مصروف کبریٰ نے چولہے کی آگ کم
![]()

رات کا آخری پہر تھا حرف اپنے بستر پہ لیٹا اونگھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ والے بیڈ پہ لیٹا حرف کسی گہری سوچ میں
![]()

’’موٹا آلو گول گول ۔۔۔۔ کر کے کھا رول رول۔۔۔‘‘ اعتزاز جیسے ہی ناشتے کی میز پر آیاربیعہ اور فیض نے لہک لہک کر گنگنانا
![]()

’’وہ۔۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔۔ وہ جو سامنے درخت کی اوپری پھننگ پر تم لال فیتا سا الجھا دیکھ رہے ہو نا؟‘‘ نینا نے شدت سے چاہنے والے
![]()