
گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)
نورالحسن دو دن کے لیے لاہور گیا تھا ۔ ولی اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہاتھا ۔ آج وہ دیر رات تک دوستوں میں
![]()

نورالحسن دو دن کے لیے لاہور گیا تھا ۔ ولی اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہاتھا ۔ آج وہ دیر رات تک دوستوں میں
![]()

آخر ایک ماہ کی محنت کے بعدگُلانے کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ وہ بہت خوش تھی۔ نور الحسن کی سالگرہ کے دن وہ
![]()

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب رُوفی کے دانت پر بجلی گری۔ رُوفی (جن کو بعد میں شیطان کا نام ملا)بجلی سے بہت ڈرتے
![]()

اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
![]()

”باادب! باملاحظہ! ہوشیار…مس ظرافت کچن کے ہموار پختہ فرش پر قدم دکھ چکی ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑا یابچہ آس پاس پھٹکنے نہ پائے ورنہ جنابِ
![]()

آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے
![]()

وہ شہر کے صدر بازار میں لوہے کی منڈی تھی جو ہر وضع اور ہر قماش کے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ صومعہ نشین
![]()

عشق تے آتش سیک برابر سانوں عشق دا سیک چنگیرا اگ تے ساڑھے ککھ تے کانے عشق ساڑے تن میرا اگ دا دارو مینہ تے
![]()

اس کے چاروں طرف خوبصورت سبزہ تھا۔ شیشم اور چیڑ کے درخت، نرم ملائم سر سبز گھاس…. اوپر آسمان پہ کالے بادل چھانے لگے تھے۔
![]()

وہ عجیب کیفیت میں تھی ….. ناک کے نتھنوں سے، سانس کے نام پر خارج ہونے والی ہوا تپش لیے ہوئے تھی۔ وہ کہاں تھی،
![]()