اسکول سے آکر میں صحن میں جھاڑو لگارہی تھی کہ خوشبو کا ایک ریلا میری ناک میں آٹکرایا اور میں سراٹھائے بغیر ہی سمجھ گئی کہ امی آئی ہیں۔ میں نے جھاڑو وہیں پٹخی اور جاکر ان سے لپٹ گئی۔ محبت کے اس مظاہرے پر ان کے میاں نے انتہائی ناگواری سے مجھے دیکھا۔
”ارے ہٹو ہنی! تم تو میرے سارے کپڑے خراب کردوگی۔“ اور میں شرمندہ ہوکر اپنا ملگجا حلیہ دیکھنے لگی۔
”امی آپ اندر بیٹھیں میں ایک منٹ آئی۔“ میں بھاگ کر کمرے میں گئی، منہ ہاتھ دھو کر صاف کپڑے پہن کر ڈرائنگ روم میں آگئی جہاں امی اپنے لائے ہوئے تحائف اب سب کے حوالے کررہی تھیں۔ اب میں نے امی کا ذرا غور سے جائزہ لیا،تو میں نے سوچا امی تو پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت ہوگئیں ہیں، لیکن امی کا لباس بہت قابل اعتراض تھا۔ چست پاجامے کے ساتھ سلیولیس لان کی شرٹ۔
”ماموں پتا نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے؟“ میں نے شرمندگی سے نظریں جھکا کر سوچا۔
”اماں سفیان کہاں ہے؟“ امی کو آخر کار اپنے بیٹے کا خیال آہی گیا تھا۔
”وہ تو ابھی باہر گیا ہوا ہے۔“
”اچھا! اب طبیعت کیسی ہے اس کی؟“
”ہاں اب تو ٹھیک ہے۔“ نانی نے جواب دیا۔
”امی بھائی تو بہت کم زور ہوگیا ہے اور….“ میں ابھی امی کو اس پراسرار شخص کے بارے میں بتانا ہی چاہتی تھی کہ امی کے شوہر کے ماتھے پے شکنوں کا جال بچھ گیا اور امی فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”اچھا اماں اجازت دیں پھر ملاقات ہوگی۔“ اور باہر نکلتے ہوئے میں نے سنا ان کے شوہر کہہ رہے تھے۔
”ایک تو تم مڈل کلاس لوگوں کے بچے بہت بدتہذیب ہوتے ہیں۔“
٭….٭….٭
لگتا تھا اس کلب میں سیٹر ڈے نائٹ منانے کا پورا اہتمام تھا۔ ایک طرف ڈانس فلور تھا جس پے اس وقت لڑکے لڑکیوں کا ہجوم تھا۔ ایک طرف لڑکے لڑکیاں بیٹھے ہوئے دھوﺅں کے مرغولے بنارہے تھے اور اُنہی میں ایک طرف وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
”یار تیری شخصیت میں جادو ہے جادو۔ ایسا کیا کرتا ہے جو ہر لڑکی تیری طرف کھنچی چلی آتی ہے؟“ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ اپنے دوست کی بات پے اس نے اپنی نشے سے بوجھل آنکھیں اٹھائیں اور اس سے کہا۔
”یہ ساری عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ابھی ہڈی پھینکو دم ہلاتی ہوئی آئیں گی۔“ اس کی اس بات پر ایک قہقہہ پڑا۔
”تیرا نیکسٹ مشن کیا ہے۔“ مشروب کا تیسرا گلاس بھرتے ہوئے اس کے دوست نے پوچھا۔
”یہ رات کی بات ہے۔“اس کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ تھی۔
٭….٭….٭
آج ڈیپارٹمنٹ میں پکنک کا اعلان ہوا تھا اسی لیے پورے ڈیپارٹمنٹ میں بہت جوش و خروش پایا جاتا۔
”ہے گائز تم لوگ چلو گے؟“ پاس بیٹھے ہمارے کلاس فیلوز نے ہمیں مخاطب کیا۔
”موڈ تو ہے۔“ میرے بہ جائے ماریہ نے جواب دیا۔
”ماریہ کو تو میں کوئی بہانہ بناکے منع کردوں گی اتنے پیسے بھی نہیں ہیں ابھی تو میرے پاس۔“ میں دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
”یہ لو۔“ کسی نے میرے آگے ایک نوٹس لہرایا۔
”یہ کیا ہے؟“ میں نے چونک کر پوچھا۔
”پکنک کا نوٹس ہے اس پر یاد سے سائن کرا لانا۔“ ماریہ نے میرے آگے پھر وہ نوٹس لہرایا۔
”ماریہ لیکن۔“ میں نے کچھ کہنا چاہا۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں بس تمہیں آنا ہے۔ تم نے ابھی تک کسی بھی ایونٹ میں شرکت نہیں کی۔“ اور پھر میرے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے میرے پیسے بھی خود ہی سے دے دیے۔ اب جب میں شرمندہ شرمندہ سی اس کے پیچھے چل رہی تھی، تو وہ یک دم مڑ کر پوچھنے لگی۔
”پہنوگی کیا پکنک پر؟“
”یہی اپنا کوئی لان کا سوٹ۔“
”وہاٹ۔“ وہ اچھل کرمڑی۔
”بالکل بھی نہیں کم از کم پکنک پر تو ڈھنگ کی ڈریسنگ کرکے آنا۔ میرے ساتھ چلتے ہوئے میری دوست تو لگو۔“ اس بات پر میں نے چور نظروں سے اس کا اور اپنا جائزہ لیا۔ وہ اس وقت بھی پنک کرتی اور ٹائٹس میں ملبوس تھی اس کے ساتھ میچنگ پمپیس جب کہ میں نے پرنٹڈ لان کی قمیص کے ساتھ سفید دوپٹا اور سفید ہی شلوار پہنی ہوئی تھی اور پاﺅں میں معمولی سی چپل۔
” اچھا ٹھیک ہے کچھ پیسے میرے پاس ہیں اور کچھ عافیہ سے لے لوں گی۔“ میںنے دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!