مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

آج ہمارے گھر کے چھوٹے سے صحن میں بہت رونق تھی۔ صحن میں ہی کرسیاں لگا کر مہمانوں کو بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ خلاف توقع ممانی کا موڈ بھی خوش گوار تھا، لیکن میں اُداسی سے ایک کونے میں بیٹھی تھی۔ آج امی کا دوسرا نکاح تھا اقبال صاحب سے ان کے باس۔ سفیان کو کوئی خاص پروا نا تھی ایک تو وہ فطرتاً بھی لاابالی تھا اور پھر امی نے روایتی ماں کی طرح کبھی ہمارے نخرے بھی نہ اٹھائے تھے نہ لگاوٹ کااظہار کیا تھا۔ میں اپنے ہی خیالوں میں گم تھی کہ محلے کی خواتین کی آوازوں پر چونک گئی اور یونہی بے دھیانی سے سننے لگی جو دلہن بنی امی پر تبصرہ کررہی تھیں۔

 ”بشریٰ کو تو لڑکی بنے رہنے کا شوق ہے ابھی بھی ایسی تیار ہے جیسے کسی نو عمر لڑکی کی شادی ہو وہ بھی پہلی۔یہ کہہ کر وہ دونوں ایک اونچا سا قہقہہ لگا کر ہنسنے لگیں۔ میں نے پوچھا۔

 ”بچوں کو ساتھ لے کر جاگی؟ تو کہنے لگی ہاں ہنی مون کے بعد لے کر جاں گی۔اس بات پر ان دونوں نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔ دوسری عورت نے پہلی کے کان میں جھک کر کہا۔

 ”ویسے مجھے تو لگتا ہے بچے یہی اپنی نانی کے گھر میں رہیں گے۔اس سے زیادہ سننے کی مجھ میں تاب نہ تھی میں وہاں سے اٹھ کر نانی کے پاس آگئی۔ کچھ ہی دیر میں نکاح کے بعد رخصتی کا وقت آگیا اور امی اپنی زندگی کے نئے سفر پے روانہ ہوگئیں۔

٭….٭….٭

آج یونیورسٹی میں ہماری پریذینٹیشن تھی۔ ہماری تمام تیاری پوری تھی۔ میں پڑھنے میں بہت محنت کرتی تھی اور اپنے اساتذہ کی نظر میں میرا ایک مقام تھا اور پڑھنے میں تو ماریہ بھی اچھی خاصی تھی تو ہمیں گروپ اسائنمنٹ اور پریذینٹیشن میں کبھی مسئلہ نہ ہوتا تھا۔ پریذینٹیشن کے بعد تقریباً تمام ہی کلاس فیلوز نے ہمیں سراہا کیوں کہ ہم نے دوسروں کی نسبت مشکل ٹاپک لیا تھا اور اس پے محنت بھی کافی ہوئی تھی۔ کوئی ناخوش تھا تو وہ علیزہ تھی اس سے کسی اور کی کام یابی برداشت نہ ہوتی تھی۔ ماریہ کھڑی حسنین سے باتیں کررہی تھی وقت کے ساتھ حسنین کی سب سے اچھی سلام دعا ہوگئی تھی بس میں ہی اپنے ازلی دبوپن کی وجہ سے اس سے بات نا کرپاتی تھی۔

 ”لائبہ ایک منٹ بات سننا۔ماریہ نے مجھے مخاطب کیا۔ میں سست روی سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔

 ”حسنین کو تم سے کوئی کام ہے۔ماریہ نے مجھے مخاطب کیا۔

 ”جی بولیں۔میں نے حسنین کو مخاطب کیا۔

 ”لائبہ میں نے اپنے چند قریبی دوستوں کو اپنے گھر بلایا ہے اپنی برتھ ڈے پارٹی پر آپ نے اور ماریہ نے بھی ضرور آنا ہے۔

 ”جی ضرور میں پوری کوشش کروں گی۔میں نے خوشی چھپاتے ہوئے اُسے یقین دلایا۔ جانے کا تو میرا کوئی ارادہ نہ تھا، لیکن میں دل ہی دل میں اس بات پر بہت خوش تھی کہ اس نے مجھے اپنا قریبی دوست مانا۔

 ٭….٭….٭

آج رابعہ کی شادی تھی محلے دار ہونے کی حیثیت سے ہمارا پورا گھر مدعو تھا۔ میں بھی آج بہت بہت خوش تھی۔ آخر کو میری دوست کی شادی تھی۔ عافیہ نے مجھے زبردستی اپنا سوٹ پہنادیا اور اسی نے میرا ہلکا سا میک اپ بھی کردیا تھا۔ میں اور عافیہ دلہن بنی رابعہ کے پاس بیٹھے تھے، پھر اس کی سسرالی خواتین کے آنے پر اٹھ کر باہر آگئے۔

چلو اپنی ٹیبل پر ہی چل کر بیٹھتے ہیں۔عافیہ نے مجھے مخاطب کیا۔ ہم دونوں اپنی ٹیبل پر آئے تو ممانی کو کسی خاتون کے ساتھ باتوں میں مصروف پایا۔ ہمارے آنے پر ان کی باتوں میں خلل پڑا تھا شاید یونہی ایک سرسری سی نظر میرے اوپر ڈالتے ہوئے ممانی نے مجھ سے پوچھا۔

 ”لائبہ حوریہ کہاں ہے؟“ 

ممانی تصویریں کھنچوا رہی ہے۔

 ”ٹھیک ہے۔ممانی نے مطمئن ہوکر سرہلادیا۔ وہ خاتون جو ابھی تک اِدھر اُدھر گردن گھما کر دیکھ رہی تھیں وہ میرے ممانی کو کہنے پر چونک کر دیکھنے لگیں اور میری ممانی سے بولیں۔

 ”نصرت یہ تمہاری نند کی بیٹی ہے نا؟“ 

ہاں!“ ممانی نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ان خاتون نے اوپر سے نیچے تک میرا جائزہ لینے کے بعد کہا۔

 ”لگتی تو نہیں ہے۔

 ”لگنے سے کیا ہوتا ہے خون تو وہی ہے نا۔ممانی طنزیہ بولیں اور ان کی اس بات پر میں برابر میں کھڑی عافیہ سے نظریں چرانے لگی اور کرتی بھی کیا۔ 

٭….٭….٭

شادی سے واپسی پر اپنے بچپن کی یادیں میرے ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگیں۔ ابو سے طلاق کے بعد امی نے اپنی عدت نانی کے گھر ہی پوری کی، لیکن عدت کے دوران کبھی ان کا دل گھر نہ لگتا تو وہ چھت پر ٹہلنے نکل جاتیں اور کبھی دروازے پر کھڑے ہوکر باہر جھانکنے لگتیں۔ پڑوس والے انکل جمال تو اکثر اسی وقت چھت پر آجاتے اور اونچی اونچی آواز میں گانے لگتے۔ امی بے نیازی سی چھت پر ٹہلتی رہتیں اور کبھی ہنس پڑتیں۔ عدت کے بعد جب امی روز مرہ کے کاموں کے لیے گھر سے نکلنے لگیں، تو مجھے بھی کبھی بازار لے کر چلی جاتیں۔ اس دوران ہر دکان دار سے ان کی بے تکلفی عروج پر ہوتی، پتا نہیں نانی کو پتا ہی نہ چلتا تھا یا وہ انجان بنی رہتی تھیں۔ پھر میرے سوالوں سے تنگ آکر امی نے مجھے ساتھ لے جانا ہی چھوڑ دیا اور یوں میری جان چھوٹی۔ جب محلے کی عورتیں میری امی کا مذاق اڑاتیں تو مجھے بہت برا لگتا تھا اور میں نے تب ہی سوچ لیا تھا مجھے اپنی ماں جیسا نہیں بننا۔

٭….٭….٭

اس کے ہاتھ مشاقی سے پورے چہرے پر چل رہے تھے۔ میک اپ مکمل کرنے کے بعد اس نے جیولری پہنی اور آخری بار آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ اس کی تیاری ہر لحاظ سے مکمل تھی۔ خوب صورت لان کا سلیولیس کرتا، ٹائٹس اور اس کے ساتھ ہائی ہیلز۔ دور کہیں عصر کی اذانیں ہورہی تھیں۔ وہ نزاکت سے چلتی ہوئی آئی اور سیاہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ دروازہ بند کرنے کے بعد اس نے مڑ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو مخاطب کیا۔

ہیلو!“

٭….٭….٭

کوئز میں میرے پوری کلاس میں سب سے زیادہ نمبر آئے تھے۔ ماریہ کے مجھ سے دو نمبر کم تھے اور حسنین کے پانچ نمبر۔ اس کوئز کے لیے میں نے بہت محنت کی تھی۔ لہٰذا اب مطمئن سے انداز میں، میں کلاس میں ہونے والا لیکچر سن رہی تھی۔ لیکچر ختم ہونے کے بعد میں اور ماریہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے آگے بنے لان میں آکر بیٹھ گئے۔ آج ماریہ کچھ الجھی الجھی سی تھی۔

 ”کیا ہوا ماریہ خاموش کیوں ہو؟میں نے اس سے پوچھا۔

 ”کچھ نہیں یار ایک رانگ کالر بہت دن سے تنگ کررہا ہے کبھی کالز آتی ہیں تو کبھی میسجز۔“ 

تو تم اسے بلاک کردو۔

 ”کئی دفعہ کرچکی ہوں نمبر بھی ابھی اس لیے بدلا تھا پتا نہیں اسے پھر کیسے پتا چل گیا۔ماریہ سچ میں بے زار لگ رہی تھی۔

 ”چھوڑ دو تھوڑے دن میں خود ہی تنگ آکر چھوڑ دے گا۔ اچھا یہ بتاعلی بھائی سے بات ہوئی؟میں نے ماریہ کا دھیان ہٹانے کے لیے اس سے پوچھا۔

 ”ہاں ہوئی تھی نا اور پتا ہے علی کہہ رہا تھا کہ ہم شادی پر۔میں مسکراتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوگئی کیوں کہعلیایک ایسا موضوع تھا جس پر وہ بغیر تھکے بول سکتی تھی وہ بھی کئی گھنٹے۔

٭….٭….٭

یہ شاپنگ مال شہر کے مہنگے ترین علاقے میں تھا۔ تمام مشہور برانڈز اس شاپنگ مال میں تھیں۔ آج وہ دونوں بہت خوش تھے۔ ایک دوسرے کی ڈھیر ساری شاپنگ کرنے کے بعد وہ دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ ان کے بے فکرے قہقہے پوری فضا میں گونج رہے تھے اور آج تو وہ بھی بہت خوش تھا۔ اس کا دل بھی زور زور سے ہنسنے اور تالیاں بجانے کا چاہ رہا تھا۔

٭….٭….٭

کل ایگزامینیشن فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اور میرے پاس پانچ سو روپے کم پڑ رہے تھے میں اسی پریشانی میں گم تھی کہ یہ پیسے کس سے لوں۔کس سوچ میں گم ہو؟ماریہ نے اپنے موبائل کے ساتھ لگے لگے پوچھا۔کچھ نہیں بس ایسے ہی۔میں نے اسے بے دلی سے ٹالا۔ میرے اندر بہت ساری خامیاں سہی، لیکن میں خوددار بہت تھی۔ کوچنگ میں عافیہ نے بھی میری بے دلی نوٹ کرلی تھی۔کیا ہوا لائبہ تم بہت پریشان لگ رہی ہو؟اس کے اصرار پر مجھے اسے بتانا ہی پڑا۔بس اتنی سی بات تھی یہ لو۔عافیہ نے پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھایا۔لیکن تمہیں بھی تو ضرورت ہوگی۔میں جانتی تھی کہ اس کے گھر میں بھی مالی پریشانیاں ہیں۔تو تم کون سا سالوں لے کر بیٹھی رہوگی۔ جب تنخواہ مل جائے تو واپس کردینا۔اور میری آنکھیں تشکر سے بھیگ گئیں۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!