بلال نے دھڑکتے دل کے ساتھ ای میل کھولی اور بے چینی سے پڑھنی شروع کی۔
”یاہو! ماما میں اسلامک انٹر نیشنل کوئز کے لیے سلیکٹ کرلیا گیا ہوں۔“ اس نے اپنی ماما کو گھما ہی ڈالا تھا۔ یہ مقابلہ ہر سال بارہ سے چودہ سال کے بچوں کے درمیان منعقد ہوتا تھا اور اس میں اسلام سے متعلق سوال پوچھے جاتے تھے۔ بلال کی ٹیچر نے اسلامک نالج پر اس کا عبور دیکھتے ہوئے اسے بھی اپنا نام بھجوانے کا مشورہ دیا تھا۔ چند آن لائن ٹیسٹ کے بعد فائنل امیدواران کا اعلان ہوا جس میں بلال بھی شامل تھا۔ یہ کوئز بڑے پیمانے پر سعودی دارالحکومت میں منعقد ہوتا تھا جس میں دنیا بھر سے بچے شرکت کرتے اور فائنل تک پہنچنے والوں کے لیے بھاری مالیت کے انعامات تھے اور اب سے دو دن بعد ہم اس مقابلے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔
٭….٭….٭
اسکرین پر جیتنے والے بچے کا کلوزاپ دکھایا جارہا تھا۔ پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ تھرڈ، سیکنڈ آنے والے بچوں کے ناموں اور انعامات کی تقسیم کے بعد اب فرسٹ آنے والے بچے کا نام لیاجارہا تھا۔ ”بلال عبدالہادی!“ نام کے ساتھ ہی پھر سے تالیوں کا شور اٹھا اور اب انعامات کی تفصیل بتائی جارہی تھی۔
”لیکن مجھے یہ نہیں چاہیے۔“ چھوٹے سے بچے کے انکار پر سارے ہال نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا تھا اور اس کے ماں باپ نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
”یہ کیا مانگنے جارہا ہے؟“ اس کی ماں نے سوچا۔
”یا اللہ عزت رکھ لینا پوری پاکستانی قوم کی عزت کا سوال ہے۔ اس کی ایک غلط فرمائش سے سب پے لالچی ہونے کا دھبا لگ جائے گا۔“
٭….٭….٭
آسمان سے زمین تک نور کی چادر تنی ہوئی تھی اور جیسے ہر چیز پر نور کی بارش ہورہی تھی۔ اذان کی آواز پر بیت اللہ کے گرد طواف کرتے پروانوں نے صفیں بنانا شروع کردیں۔ آواز میں بڑا ہی سوزولحن تھا اور نو عمری کا تاثر بھی مقامی لوگوں نے حیرت سے اذان سنی۔ یہ امام کعبہ کی آواز تو نہ تھی، لیکن حیرت ظاہر کرنے کا وقت نہ تھا نماز شروع ہوچکی تھی۔
”یہ اذان کس نے دی تھی؟“ ایک پاکستانی عورت نے دوسری سے پوچھا۔
”ارے تمہیں نہیں پتا وہ جو فائنل لسٹ تھا نا اسلامی انٹر نیشنل کوئز کا اس نے یہی تو فرمائش کی تھی کہ اسے بیت اللہ میں اذان دینے کی سعادت اور امام کعبہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شرف بخشا جائے کوئی پاکستانی بچہ تھا۔ اس کوئز کے مہمان خصوصی امام کعبہ ہی تھے انہوں نے اس بچے کی یہ درخواست قبول کرلی۔“ اس عورت نے اپنی بات مکمل کی۔
”حق ہا! بڑی ہی نیک ماں باپ کی اولاد ہوگی جو ایسی فرمائش کی ہم تو سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں ہر سال عمرے کرتے ہیں، لیکن ایسی اساس اپنے بچوں کو نہ دے پائے۔“ عورت نے افسوس سے ہنکارا بھرا۔ عورتوں کے اس مکالمے پر حوریہ نے اپنی بہن کو بہت مسکرا کر دیکھا تھا جو اپنے محبوب کے سامنے شکر گزاری سے دوبارہ سجدہ ریز ہوچکی تھی۔
ایک لڑکی تھی جس کی زندگی میں بڑی نارسائیاں اور کٹھنائیاں تھیں، لیکن پھر اس نے اپنے دل میں موجود اللہ کی محبت کو پالیا اور زندگی گزارتے گزارتے اسے جینے کا قرینہ آگیا اور یہی قربت بنادیتی ہے خاکی کو خاک سے سونا اور پھر کندن۔
انسان سے مقرّبِ خاص تک کے سفر کی کہانی۔ ہم سب ہوتے ہیں مقرّبِ خاص، لیکن محبوب کی تلاش میں اپنی ساری زندگی اس دنیا کے میلوں لمبے میلے کو چھاننے میں گزار دیتے ہیں۔ وہ محبوب جو ہمارے دل میں موجود ہوتا ہے اور پکار پکار کر کہتا ہے تم میری طرف چل کر آﺅ میں تمہاری طرف دوڑ کر آﺅں گا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!