مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

ماریہ لیٹی ہوئی آج کے سیشن کے بارے میں سوچے جارہی تھی۔ کتنا صحیح کہا ڈاکٹر صاحب نے میں اپنے آپ کو الٹی سیدھی سوچوں میں تھکاتی رہتی ہوں بس اب آج سے ہی میں اپنے اوپر پوری توجہ دوں گی اور وہ جو ماما کچی آبادی والا پروجیکٹ بتارہی تھیں وہ بھی اب میں خود دیکھوں گی۔ خود کلامی کرتے کرتے وہ شیشے کے سامنے آبیٹھی اور حسنین سے بدلہ لینے کی سوچ بھی کتنی بے وقوفانہ ہے وہ کیا کہہ رہے تھے ڈاکٹر صاحب کانٹوں کی فصل بونے والے کو کانٹے ہی ملیں گے۔ اس نے اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے الفاظ دہرائے پھر وہ پرفیوم اٹھاکر اپنے اوپر اسپرے کرنے لگی۔ ہاں بھئی جو برا کرتا ہے اس کے ساتھ برا ہی ہوتا ہے۔ پھر جیسے اس کے ہاتھ رک سے گئے ۔ اسے یاد آیا اس نے بھی تو کچھ سال پہلے کسی کی راہوں میں کانٹے بوئے تھے اور اسی کی تو فصل وہ اب کاٹ رہی تھی ہاں واقعی! کانٹے بوئے تھے تو کانٹے ہی ملنے تھے۔ وہ بڑبڑائی مگر میں اب اسے ڈھونڈوں کہاں وہ گہری سوچ میں گم ہوچکی تھی۔

٭….٭….٭

یہاں لائبہ نام کی ایک لڑکی رہتی تھی۔ماریہ اگلے دن لائبہ کے ماموں کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔

جی انہوں نے تو یہ گھر کافی عرصے پہلے بیچ دیا تھا۔ہمیں گھر کے دروازے پر کھڑا لڑکا اس کے لباس سے کافی مرعوب لگ رہا تھا۔

کوئی پتا وغیرہ آپ کے پاس©؟

نہیں جی ہمیں کچھ نہیں پتا بس اتنا پتا ہے کہ ان کی دونوں بیٹیوں کی شادی ہوگئی تھی اور وہ اپنی چھوٹی والی بیٹی کے پاس ہی رہتے ہیں۔لڑکا اس کی ڈائمنڈ رنگ کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔

اچھا بہت شکریہ۔ماریہ واپس آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔

اللہ کچھ لوگوں کو چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے۔لڑکے نے دھول اڑاتی اس شان دار سی گاڑی کو جاتے دیکھ کر کہا۔

ایک ہم ہیں بائیک ہے وہ بھی سیکنڈہینڈ اس نے دروازہ پٹخا تھا۔ اماں چائے آج کی تاریخ میں مل جائے گی کیا؟وہ بدمزاجی سے چیخا اب اس کا موڈ کافی دنوں خراب رہنا تھا۔

٭….٭….٭

بلال بیٹا آپ نے اپنے ٹوائز نکال دیے ڈونیشن میں دینے کے لیے؟لائبہ لان میں کھیلتے ہوئے اپنے بیٹے کے پاس آکر بولی۔

جی ماما! اور میں نے اپنی بال بھی اس میں ڈال دی ہے۔پھولے پھولے گالوں والا بلال معصومیت سے بولا۔

اچھا وہ کیوں؟لائبہ اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوئی بولی۔ 

کیوں کہ آپ نے بتایا تھا نا کہ اللہ کا فیورٹ بننے کے لیے ہمیں اپنی فیورٹ چیز اللہ کی راہ میں دینی ہوتی ہے اسی لیے میں نے ایسا کیا۔بلال کا دھیان اب لان میں اڑتی تتلی کی طرف تھا۔

ماما میں اسے پکڑ لوں؟بلال نے اپنا کئی دفعہ کا دہرایا ہوا سوال پھر سے پوچھا۔ 

آپ اسے بس دور سے دیکھ لیجیے۔لائبہ نے پیار سے اس کے بال سنوارے اور کھیل کے اندر آجایئے گا میں آپ کے لیے نگٹس فرائی کررہی ہوں۔

نگٹس!“ بلال خوشی سے چہکا میں بس ابھی آیا اس نے بال ایک طرف اچھالی اور اندر بھاگ گیا۔

بلال ہماری اکلوتی اولاد تھا۔ گھر بھر کی رونق اور سب کا لاڈلا بچہ، لیکن اکلوتا ہونے کے باوجود مجھے اس کی بہترین تربیت کرنی تھی تاکہ ایک اور حسنین ایک اور ماریہ جنم نہ لیں اور اپنی ذات پر اعتماد بھی دینا تھا تاکہ لائبہ والی کہانی دوبارہ نہ دہرائی جائے۔

٭….٭….٭

ماما جانی!“ بلال میرے پاس منہ بسورتا ہوا آیا۔

جی ماما کی جان کیا ہواایسے منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے؟

آپ کو پتا ہے وہ جو ہماری کلاس کا اریب ہے نا اس کے پاس اتنا زبردست لیپ ٹاپ ہے اس نے ہمیں بتایا کہ اس کے پاپا اس کے لیے لے کر آئے ہیں اور ایک بہت اچھا آئی فون بھی۔

اچھا!“ میں نے گہری سانس لی۔ بلال کے اسکول میں سب بچے کھاتے پیتے گھروں سے تھے اور اکثر میٹنگز میں دوسرے والدین سے یہ جاننے کا موقع ملتا تھا کہ ان کے بچے اُنہی چیزوں کے لیے جو ان کے کلاس فیلوز کے پاس ہوتی تھیں ایسے ہی تنگ کیا کرتے تھے، لیکن یہ پہلی بار تھا جب بلال نے کوئی ایسی بات کی تھی وہ عام بچوں کی نسبت بہت سمجھ دارتھا، لیکن تھا تو بچہ ہی نا۔

تو بیٹے آپ کیا چاہتے ہیں؟میں نے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔

ماما جانی آپ مجھے بہت اچھا والا نہ سہی ایک لیپ ٹاپ دلا ہی دیں۔

ارے تو کیا آپ بابا کے لیپ ٹاپ کو اپنا نہیں سمجھتے؟میں نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔ 

نہیں ماما!“ وہ تھوڑا سا گڑبڑایا۔

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے میرے کلاس فیلوز کے رومز میں ان کے لیپ ٹاپ ہیں ویسے ہی میرے روم میں ہو۔اس نے اپنی بات مجھے سمجھائی۔

آپ لیپ ٹاپ اریب کی وجہ سے لینا چاہتے ہیں نا تاکہ آپ اسے شو کر سکیں کہ آپ کے پاس بھی وہی چیز ہے جو اس کے پاس؟“ 

جی ماما جانی! لیکن آپ کو پتا ہے کہ اریب اندر سے کتنا اداس رہتا ہوگا کیوں کہ اس کے پاس ایک بہت اچھی چیز تو ہے ہی نہیں۔میں نے بلال سے کہا۔ 

کیا چیز ماما جانی؟ 

اس کے پاس تو اس کی ماما ہی نہیں ہیں جو اس کے لیے لنچ بنائیں، اس کے ساتھ کھیلیں اور اس کو اسکول سے لینے اور چھوڑنے جائیں۔میں نے اپنے لہجے میں اداسی بھر کے کہا۔

اوہ! یس ماما یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اس کے پاس سب سے بڑی بلیسنگ تو ہے ہی نہیں اور مجھے تو اللہ تعالیٰ کا تھینک یو کرنا چاہیے۔بلال کی سمجھ میں بات آگئی تھی۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔ وہ اب ہوم ورک میں مصروف ہوچکا تھا۔

میری دوسروں کی چمک دمک سے متاثر ہونے والی عادت نے ہی تو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا اسی لیے میں اپنے بیٹے کو ہر وقت یہ سکھاتی رہتی تھی کہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہم ہزاروں لاکھوں سے اچھے حال میں ہیں۔

٭….٭….٭

بوا میں ذرا کام سے جارہی ہوں بلال کے اسکول سے آنے سے پہلے آجاں گی۔

جی باجی ٹھیک ہے۔“ 

اور بوا صاحب نے جو آپ کی بیٹی کو دوائیاں دیں تھیں ختم ہوجائیں تو بتادیجیے گا۔ان کی بیٹی ذہنی مریضہ تھی، کچھ مہینے سے عبدالہادی کے زیر علاج تھی۔ میں نکل کر گاڑی میں آ بیٹھی اپنے ضروری کام نمٹا کے میں نے ڈرائیو رکو گاڑی کا رخ اسپتال کی طرف موڑنے کو کہہ دیا ایک فائل کی ضرورت تھی عبدالہادی کو جو میں انہیں دینے جارہی تھی۔ آپ گاڑی پارک کریں میں یہ فائل دے کر آئی۔ فائل دے کر میں آفس سے نکلی ہی تھی کہ سامنے سے آتی لڑکی سے ٹکرا گئی۔

سوری!“ میں اپنا سرہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی اور سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنے لگی۔

تم ماریہ! یہاں کیا کررہی ہو؟میں حیرت زدہ سی کھڑی تھی مجھے گمان بھی نہ تھا کہ ماریہ کبھی مجھ سے ایسے ٹکرا جائے گی۔ 

تم کہاں چلی گئیں تھیں لائبہ؟ میں نے تمہیں کتنا ڈھونڈا۔وہ میرا ہاتھ پکڑ کر قریبی بنچ تک لے آئی۔

کیوں؟مجھے اپنا لہجہ اسپاٹ سا لگا۔

تم سے معافی مانگنے کے لیے ۔وہ بولی۔

مجھے معاف کردو تمہارے ساتھ برا کرنے پر۔وہ آہستہ آہستہ مجھے اپنی داستان سنانے لگی۔ 

ماریہ تمہیں مجھ سے معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں میں نے تمہیں معاف کردیا تھا بلکہ میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے دنیا کے اصلی رنگوں سے روشناس کرایا۔ماریہ نے اپنے سامنے بیٹھی اس شاندار عورت کو دیکھا جس کی نشست و برخاست سے تمکنت جھلکتی تھی۔

تم بھی ان سائیکاٹرسٹ کو دکھانے آئی ہو؟ماریہ نے عبدالہادی کی نیم پلیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ 

نہیں میرا سائیکاٹرسٹ کوئی اور ہے۔میں ہلکے سے مسکرائی۔

ویسے کافی مشہور سائیکاٹرسٹ ہیں یہ۔ماریہ بولی۔

اور ویسے تمہیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ تمہیں کسی سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ سال تمہیں بغیر چھوئے گزر گئے۔وہ ستائشی انداز میں بولی۔

سائیکاٹرسٹ کی ضرورت تو زندگی کے کسی نہ کسی اسٹیج پر سب کو پڑتی ہے۔میں اٹھتے ہوئے بولی تھی۔

اچھا اپنا نمبر تو دے دو میں تم سے ملنا چاہوں گی۔ تم مجھے اپنا نمبر دے دو۔ماریہ نے چٹ پر نمبر لکھ کر میری طرف بڑھا دیا۔

ٹھیک ہے پھر فون پر بات کریں گے۔ماریہ بولی۔

ہوں!“ میں نے سرسری سی گردن ہلائی۔

کچھ دور آکر میں نے وہ چٹ پھاڑ کر پھینک دی کیوں کہ مجھے ماریہ سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھنا تھا۔

انسان معاف تو کردیتا ہے، لیکن جو چوٹ اسے پہنچی ہوتی ہے اسے بھلانا اس کے بس میں نہیں ہوتا اور ایسی کسی چوٹ کی وجہ سے وہ پھر ساری زندگی سب پر یا کسی واحد شخص پر اعتبار نہیں کرپاتا اور ایسا ہی میرے ساتھ ہوا تھا۔ میں بھول کر بھی اب ماریہ پر اعتبار نہیں کرسکتی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!