”ہاں حسنین بیٹا کیسے ہو؟“
”جی آنٹی میں ٹھیک ہوں۔“ وہ بشاشت سے مسکرایا۔
”حسنین بیٹا تم لوگ کب تک واپس آﺅگے؟“ ماریہ کی ماما بڑے سبھاﺅ سے بات کررہی تھیں۔ تھوڑی دیر بات کرکے اس نے فون ماریہ کو دے دیا تھا۔
”ہیلو ماریہ بیٹا حسنین یہیں ہے کیا؟“
”جی ماما۔“ وہ مختصراً بولی۔
”بیٹا میری بات غور سے سنو ہمیں لگتا ہے تم مشکل میں ہو کیا ایسا ہی ہے؟“
”جی ممی یہاں بہت اچھا موسم ہورہا ہے۔“ ماریہ اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے سامنے بیٹھے حسنین کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”کیا تم مری میں ہی ہو؟“
”جی ممی آپ کے لیے اور کچھ اسپیشل خریدنا ہے؟“
”ٹھیک ہے بیٹا میں سمجھ گئی۔ ہم بس فوراً آتے ہیں تم حسنین کو شک نہیں ہونے دینا۔“ ماریہ نے اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے فون بند کردیا۔
”ماما پاپا ڈھونڈیں گے کیسے مجھے؟ انہیں تو پتا نہیں میں اس گھر میں ہوں، لیکن وہ آئیں گے تو مجھے ڈھونڈ ہی لیں گے۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی۔“
”کیا کہہ رہی تھیں آنٹی؟“
”کچھ نہیں اپنے لیے شال منگوائی ہے۔“ اس نے جلدی سے بات بنائی۔
٭….٭….٭
”ماریہ ایک بات تو بتاﺅ؟“
”ہاں پوچھو۔“ ماریہ کا سارا دھیان دروازے پر ہونے والی آہٹوں پر تھا کہ جانے کب اس کے ماما پاپا آجائیں ۔
”اگر تمہارے پاس رانگ کالز آئیں تو تم کیا کروگی؟“
”ظاہر سی بات ہے بات نہیں کروں گی۔“ ماریہ نے یونہی بے زاری سے جواب دیا۔
”لیکن ماریہ تم نے تو جواب دیا تھا۔“ حسنین مسکرا کر بولا۔
”کون سی رانگ کالز؟ تم نے تو میرے پاس موبائل چھوڑا ہی کب ہے جو میں رانگ کالز اٹینڈ کروں گی۔“
”میں ابھی کی بات نہیں کررہا۔“ حسنین عجیب سے انداز میں مسکرایا۔ ماریہ کے ذہن میں کچھ پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ یہ تو کوئی جاننے والا لگتا ہے تمہارا؟ اس کے ذہن میں آواز گونجی۔
”وہ تم تھے علی؟“ ماریہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔
”ہاں وہ میں ہی تھا دیکھ رہا تھا کہ تم کیا کرتی ہو جب کوئی رانگ نمبر تمہیں تنگ کرے۔“
”مگر علی میںنے کوئی بات تو نہیں کی تھی۔“ ماریہ نے اپنی صفائی پیش کی۔
”لیکن رسپونس تو دیا تھا نا۔“ ماریہ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا وہ تو ابھی تک یہی سوچ رہی تھی کہ وہ حسنین کے ہاتھوں کتنے مزے سے بے وقوف بنتی رہی ہے۔
وہ دونوں اپنی سوچوں میں گم تھے کہ دروازے کو زور زور سے دھڑ دھڑایا جانے لگا۔
”یہ کون ہے؟“ حسنین زیر لب بڑبڑایا۔ اتنی دیر میں کوئی دروازہ توڑ کر اندر آچکا تھا۔ ماریہ کے ماما پاپا پولیس کے اعلیٰ افسران کے ساتھ کھڑے تھے۔
”ماما! ماریہ بھاگ کر اپنی ماما کے گلے لگ گئی۔“
”بیٹا یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی؟“
”آپ لوگ یہاں کیسے آگئے؟“ حسنین ان کی بات کاٹ کر بولا۔
”کیوں؟ تم کیا سمجھ رہے تھے کہ ہمیں کبھی کچھ پتا ہی نہیں چلے گا؟“ ماریہ کی ماما نفرت انگیز انداز میں بولیں۔
”مسٹر حسنین آپ پر الزام ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا تھا کیا یہ درست ہے؟“
”نن نہیں ہم تو یہاں گھومنے آئے ہوئے تھے۔“ حسنین ہکلا کر بولا۔
”نہیں آفیسر صاحب اس نے مجھے قید میں رکھا ہوا تھا۔“ ماریہ نے اس کے خلاف گواہی دی۔
”مسٹر حسنین آپ کو اریسٹ کیا جاتا ہے۔“ پولیس آفیسرز نے اسے ہتھکڑیاں پہنادیں۔
”تھینک گاڈ ماما آپ آگئیں۔“ ماریہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
”بس بیٹا اب گھر چلتے ہیں تم رو نہیں۔“ انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”ماما یہ شخص بالکل پاگل ہے میں تو سمجھ رہی تھی کہ میں اب ساری زندگی یہاں سے نہیں نکل سکوں گی۔“ ماریہ کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ آزاد ہوچکی ہے۔
”ماما آپ لوگوں کو پتا کیسے چلا کہ میں یہاں ہوں؟ حسنین کی تصویر دکھا کر بہت سے لوگوں سے پوچھا اس شخص کو کہاں دیکھا ہے؟ بس اسی طرح ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس گھر تک پہنچ گئے۔“ انہوں نے اسے اپنی جدوجہد کی داستان مختصراً سنائی۔
اس کے بعد کورٹ کچہریوں کے لمبے چکر تھے۔ جو دونوں خاندانوں نے لگائے تھے۔ دونوں طرف سے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا۔ حسنین کے والدین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ حسنین بے گناہ ثابت ہوجائے لیکن پارٹی دوسری طرف کی بھی ہر لحاظ سے مضبوط تھی پھر حسنین کی سابقہ بیوی جینی نے بھی اس کے خلاف کیس کردیا اور آخر میں بات طلاق کے ساتھ بھاری بھرکم رقم کی ادائیگی پر ختم ہوئی اورحسنین کو اپنے سوشل سرکل میں بھی بہت جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے وہ بوریا بستر سمیٹ کر اپنا آبائی شہر چھوڑ گئے تھے۔ ماریہ کو طلاق کے کچھ عرصے بعد تک دھمکی آمیز فون آتے رہے، لیکن پھر یہ سلسلہ خود ہی ختم ہوگیا، لیکن اس حادثے نے ماریہ کے ذہن پر انمٹ نشان چھوڑ دیے تھے۔
٭….٭….٭
”ماریہ اٹھو۔“ اس کی ماما نے اسے زور سے ہلایا۔
”ماما سونے دیں نا۔“ اس نے تکیہ منہ پر رکھتے ہوئے کروٹ بدلی۔
”اٹھ کے تیار ہو فوراً میں نے تمہیں کل بتایا بھی تھا کہ نئے سائیکاٹرسٹ کے ساتھ اپائنمنٹ ہے تمہاری اور وہ تھوڑی دیر میں ظہر کی نماز کے لیے اٹھ جائیں گے تم ابھی تک پڑی سو رہی ہو پانچ منٹ میں نیچے آﺅ۔“ اس کی ماما آج انتہائی غصے میں تھیں اسے اٹھتے ہی بنی۔
”عجیب ڈاکٹر ہیں ظہر کی نماز پیسے سے زیادہ ضروری ہے کیا؟“ وہ بڑبڑاتی ہوئی واش روم میں گھس گئی اور اگلے پانچ منٹ میں وہ واقعی نیچے موجود تھی۔
٭….٭….٭
ماریہ بے زاری سے بیٹھی اس ڈاکٹر کے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی جو خاموشی سے بیٹھا اب اس کی ہسٹری فائل کے صفحات پلٹ رہا تھا۔ چند سوالات پوچھ لیے ہیں اب فائل دیکھے گا اور ہزاروں روپے بٹورے گا یہ کہہ کر ٹینشن نہ لیں یہ دوائیاں لکھ رہا ہوں باقاعدگی سے لیجیے گا ماریہ نے دل ہی دل میں سوچا۔
”جی تو ماریہ بی بی اس حادثے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟“ ڈاکٹر نے چشمے کے پیچھے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ میری زندگی کا بدترین واقعہ ہے۔“ ماریہ بڑبڑائی۔
”نہیں ماریہ میں مانتا ہوں جو آپ کے ساتھ ہوا بہت برا ہوا، لیکن اب یہ آپ کا ردعمل ہے جو آپ کی زندگی کو بدترین بنارہا ہے۔“ سائیکاٹرسٹ نے ذرا سا آگے ہوکر اسے سمجھایا۔
”تو آپ کیا کہنا چاہتے ہیں میرے ساتھ جو ہوا اسے بھلا کر میں ہنسی خوشی رہنے لگ جاﺅں۔“ ماریہ تیز ہوکر بولی۔
”تو اور کیا کریں گی ساری زندگی اسی طرح ڈپریشن میں گزار دیں گی؟ دیکھیں ماریہ زندگی میں حادثے ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان کے لیے اپنی پوری زندگی برباد نہیں کی جاتی، آپ کو دوائیوں کے ساتھ قوتِ ارادی کی بھی ضرورت ہے۔ زندگی ایسی چیز نہیں جو کسی نا قدرے شخص کے پیچھے برباد کردی جائے۔“ ماریہ گم صم اسے دیکھے گئی پھر کچھ سوچ کر اتنا ہی بولی۔
”ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی، لیکن میرا ایک سوال ہے ڈاکٹر؟ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟“
”جب آپ کے پاس سب کچھ تھا تب آپ نے کبھی اپنے آپ سے پوچھا میرے پاس ہی سب کچھ کیوں ہے؟“ ماریہ جیسے لاجواب ہوگئی۔
”ڈاکٹر صاحب میرے شوہر نے مجھے دھوکا دیا میں انتقام کی آگ میں جلتی رہتی ہوں کہ اسے کس طرح نقصان پہنچاﺅں۔“
”بی بی آپ یہ سب اس ذات پر کیوں نہیں چھوڑ دیتیں جو زیادہ بہتر فیصلے کرنے والا ہے۔ اگر کسی نے کانٹوں کی فصل بوئی ہے تو اسے کانٹے ہی ملیں گے نا۔ آپ بس اپنے مستقبل پر توجہ دیجیے۔ جانے ہم سزا اور جزا کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں کیوں لے لیتے ہیں۔“ ڈاکٹر اب رائٹنگ پیڈ پر نسخہ لکھ رہے تھے۔ نسخہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے انہوں نے اسے نصیحت کی۔
”جب اللہ ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے، تو ہمیں چاہیے کہ ان نعمتوں کو ہمیشہ برقرار رکھنے کے لیے ہم ان میں دوسروں کو بھی شریک کریں۔“ پھر وہ ذرا سا ہنسے ویسے یہ میری بیوی کہتی ہے آپ مجھ سے زیادہ متاثر نہ ہوجایئے گا۔خیر میں یہ کہہ رہا تھا آپ ہر قسم کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں انہیں دوسروں پر بھی خرچ کیجیے۔“
”شکریہ! ڈاکٹر صاحب!“ ماریہ کو لگ رہا تھا کہ اس کے ذہن سے بوجھ ہٹ گیا ہے۔ نکلتے نکلتے وہ اچانک پلٹی۔ آ پ کا نام کیا ہے؟ میں پوچھنا ہی بھول گئی۔ آپ پہلے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے اتنی تفصیل سے مجھ سے بات کی ۔
”میں ڈاکٹر عبدالہادی ہوں۔“
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!