”بات سنیں کئی دن ہوگئے ماریہ کا فون نہیں آیا۔ “ماریہ کی ماما کچھ متفکر سی بولیں۔
”ارے بیگم بچے ہیں فون کرنا بھول گئے ہوں گے۔ سیرو تفریح میں۔ “ ان کے شوہر نے تسلی دی۔
”ماریہ بھی ویسے بہت بےپروا ہے دو مہینے ہوگئے ہیں گئے ہوئے یہ نہیں نیا فون ہی خرید لے اتنی شاپنگ کررہی ہے بس فون ہی نہیں لے رہی۔“ وہ قدرے ناراضگی سے بولیں۔
”ارے بیگم لے لے گی ابھی انہیں انجوائے کرنے دیں۔“ ان کے میاں انہیں تسلی دے کر دوبارہ مطالعے میں مگن ہوگئے۔
٭….٭….٭
ماریہ نے حسنین سے آنکھ بچا کر پورا گھر چھان مارا، لیکن اسے کہیں بھی موبائل نہ ملا تھا۔
”مجھے کسی وقت پیچھے موجود اسٹور کی تلاشی لینی چاہیے۔ لیکن کیسے لوں؟ حسنین تو صبح کے علاوہ گھر سے باہر نکلتا ہی نہیں۔“ مگر ایک دن اسے موقع مل ہی گیا۔ اس دن اسے صبح سے بہت تیز بخار تھا، تو دوپہر میں حسنین ڈاکٹر کو لینے گھر کو باہر سے بند کرکے چلا گیا۔
”اوہ! یہاں بھی کچھ نہیں ہے۔“ وہ مایوس سی واپس پلٹ آئی اور بستر پر لیٹ گئی۔
”مجھے لگتا ہے میں یہیں مرجاﺅں گی۔“ اس نے مایوسی سے سوچا اور آنکھیں بند کرلیں۔
٭….٭….٭
”بات سنیں آج سارہ کی دعوت کی ہے میں نے۔“ اس کے شوہر کے ساتھ ماریہ کی ماما نے اپنے شوہر کو مخاطب کیا۔ سارہ ان کی ایک بہت قریبی دوست تھیں۔
”اچھا! آج کل کیا وہ آئی ہوئی ہے امریکا سے؟“
”ہاں ایک ہفتہ ہوگیا آئے ہوئے ڈنر پر آئے گی آپ بھی جلدی آجایئے گا۔‘ ‘
”ٹھیک ہے۔“ دعوت کا اہتمام بہت اچھا سا کرلیجیے گا۔ ندیم سے میری بھی بہت اچھی دوستی ہے خوب نشست جمے گی۔“ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ بہت خوش تھے۔ انہیں پتا نہیں تھا آج ان پر ایک بھیانک انکشاف ہونے والا ہے۔
٭….٭….٭
”واہ بھئی ! مزا آگیا تمہارا کک کمال کا کھانا بناتا ہے۔“ سارہ نے کھانے کی تعریف کی۔
”ویسے سب کچھ بہت اچھا ہے بس ماریہ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔“ سارہ نے کہا۔
”ہاں وہ تو دو مہینے سے گھومنے پھرنے گئی ہوئی ہے تم شادی میں بھی تو نہیں تھی نا ورنہ اس کے شوہر سے مل لیتیں۔“
”کیسا ہے اس کا شوہر؟“
”بہت خوب صورت اور بہت اچھا۔“ انہوں نے بڑے فخر سے کہا۔
”اچھا! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اس کی شادی کا البم تو دکھاﺅ۔“ سارہ نے فرمائش کی۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں نذیراں وہ البم اٹھا لاﺅ ماریہ کی شادی کے۔“
”ماریہ تو ہمیشہ سے زیادہ خوب صورت لگ رہی ہے اور دُلہا بھی۔“ پھر جیسے انہوں نے کچھ الجھ کر تصویر کو واپس دیکھا۔
”اس کے شوہر کا نام کیا ہے؟“
”علی حسنین لغاری۔“ نام سن کے ان کے چہرے کے تاثرات بدلے۔
”ندیم۔“ انہوں نے دوسرے صوفے پر بیٹھے اپنے شوہر کو مخاطب کیا۔
”دیکھیں یہ وہی ہے نا؟“
”کیا ہوا سارہ تم اتنی پریشان کیوں ہوگئیں؟“
”شگفتہ ماریہ خوش ہے اس کے ساتھ؟“
”ہاں بھئی بہت خوش ہے کیوں؟“
”ان کے ایک کزن جو کراچی میں رہتے ہیں ان کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی وہ لڑکا نفسیاتی مریض تھا جینی نام تھا اس بچی کا۔ شروع میں تو ٹھیک لگتا تھا، مگر کچھ دنوں بعد شک کرنے لگا اور مارتا بھی تھا پھر جینی روٹھ کر گھر آگئی مگر ان دونوں کا پیچ اپ ہوگیا۔ دونوں گھومنے بھی گئے لیکن پتا چلا کہ اس نے جینی کو وہاں بند رکھا ہوا تھا۔ وہ تو جینی کو ایک دن موقع مل گیا، تو اس نے گھر فون کرکے مدد مانگ لی اور یوں اس کی جان چھوٹی اصل نام تو کچھ اور تھا اس کا، لیکن سب اسے پیار سے جینی کہتے تھے۔“ سارہ نے بات ختم کی۔
”تو تم یہ کیوں بتارہی ہو ہمیں۔“ شگفتہ نے اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
”ہم اس شادی میں شریک نہیں ہوئے تھے بس تصویریں دیکھی تھیں، لیکن مجھے پکا یقین ہے وہ یہی لڑکا تھا۔“ سارہ نے حسنین کی تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”بلکہ تم رکو میں فون کرکے پوچھتا ہوں۔“ ندیم نے اپنا فون نکالا۔ مختصر سی گفتگو کے بعد وہ آئے اور اپنے موبائل پر اسی وقت بھیجی گئی تصویر ان کے آگے کردی جس میں حسنین بڑے اعتماد سے بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!