”اٹھو ماریہ میں تمہارے لیے ناشتا لایا ہوں۔“ حسنین کی آواز پر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”علی تم جو کہو گے میں کروں گی، لیکن میرے ساتھ یہ مت کرو پلیز۔“ وہ پچھلے ایک ہفتے سے اسی کمرے میں قید اور بری طرح ڈپریشن کا شکار تھی۔
”نہیں تم یہاں سے بھاگ جاﺅگی، تم مجھے چھوڑ دوگی۔“ وہ اس کی کلائی دبوچ کر چلایا تھا اسی دوران اس کا موبائل بجنے لگا۔
”اوہ آنٹی کی کال ہے بات کرو ان سے۔“ اس نے موبائل ماریہ کو تھمایا۔
”ہیلو ماما کیسی ہیں آپ؟“ وہ اپنے آنسوﺅں پر قابو پاتے ہوئے بولی۔
”جی میں بھی ٹھیک ہوں۔“ اس نے خوف زدہ نظروں سے حسنین کو دیکھا جو تیز دھار چاقو اپنی انگلی پر پھیر رہا تھا۔
”جی یہاں سگنلز کا مسئلہ ہورہا ہے اسی لیے آپ سے بات نہیں ہوپارہی اور پھر ہم مصروف بھی بہت ہیں اوکے بائے۔“ اس نے الوداعی کلمات کہہ کر فون رکھ دیا۔
”شاباش بس اسی طرح میری بات مانتی رہو۔“ حسنین نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
”ورنہ….“ وہ اب چاقو اس کی انگلی پر چلا رہا تھا۔
”آ…. علی درد ہورہا ہے چھوڑو۔“ ماریہ تکلیف سے بے حال چلائی تھی لیکن وہ جیسے اس کی بات سن ہی نہ رہا تھاپھر جیسے وہ چونکا۔
”اوہ! تمہیں تو بہت چوٹ لگ گئی آﺅ میں تمہاری بینڈیج کروں۔“ وہ اب یکسر بدلے ہوئے لہجے میں بولا۔
”تم ٹھیک تو ہو؟“ وہ اب پٹی کرتے میں بڑے پیار سے اس سے بول رہا تھا۔
”ہوں!“ ماریہ نے تھوک نگلتے ہوئے گردن اثبات میں ہلائی۔
٭….٭….٭
”جی آنٹی ماریہ نے کہا کہ ماما کی برتھ ڈے ہے، تو انہیں کیک بھجوانا چاہیے اسی نے اپنی مرضی سے فلیور پسند کیا تھا۔“
”جھوٹا مکار!“ ماریہ نے اسے نفرت سے دیکھا۔
”یہ لیں آپ ماریہ سے بات کریں۔“ اس نے اب فون ماریہ کو دے دیا تھا۔
”جی ماما کیسی ہیں آپ؟“ ماریہ نے اپنی آواز میں زبردستی بشاشت پیدا کی حسنین اب سامنے بیٹھاسگریٹ سلگا رہا تھا۔ ماریہ اتنے دن میں بہت اچھی طرح جان گئی تھی کہ اگر اس نے اپنی ماما کو کچھ بھی بتانے کی کوشش کی تو یہ سگریٹ سے اس کی جلد کو بے دردی سے جلائے گا۔ پہلے بھی وہ ایک دو دفعہ ایسی کوشش میں اپنے آپ کو زخمی کروا چکی تھی ۔
”ارے ماما بھولی نہیں ہوں آپ کو بس ہم لوگ گھومنے پھرنے میں مصروف ہی اتنا ہیں۔“ وہ اب اپنی ماما کو مطمئن کرکے فون بند کررہی تھی۔
حسنین نے فون اس سے لے کر اپنی جیب میں رکھا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”پتا ہے ماریہ مجھے بڑا پسند ہے کہ جیسے تم میری ہر بات مان رہی ہو نا ہمیشہ ایسے ہی مانو۔“ ماریہ خاموشی سے سنتی رہی وہ بہت احتجاج کرچکی تھی، لیکن حسنین پر کوئی اثر نا ہوا تھا۔ وہ اسے اس کمرے تک سے باہر نکلوانے کا روادار نہ تھا۔
”علی دیکھو میں تمہاری ہر بات مانتی ہوں نا۔“ ماریہ نے اسے کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
”تو پلیز تم مجھے گھر میں تو آزادی سے رہنے دو میں باہر نہیں جاﺅں گی، کھڑکی میں بھی نہیں کھڑی ہوں گی پرامس۔“ حسنین اس بات پر سوچ میں پڑگیا۔
”تم تو مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو نا کیا میرے لیے اتنا بھی نہیں کرسکتے۔“ ماریہ نے اب کہ جذباتی داﺅ کھیلا۔
”اچھا ٹھیک ہے میں سوچوں گا۔“ حسنین نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
”جھوٹا فریبی۔“ ماریہ نفرت سے بڑبڑائی اسے اس کمرے میں بند ایک مہینہ ہوگیا تھا اور اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا یہاں سے نکلے تو کیسے؟ مجھے کچھ کرنا ہوگا ورنہ یہ پاگل شخص مجھے دیوانہ کردے گا۔ ماریہ بڑبڑائی۔
٭….٭….٭
”تھینک یو علی!“ ماریہ گھر میں چلتے پھرتے خاموشی سے باہر نکلنے کا راستہ بھی ڈھونڈ رہی تھی۔ ”تم میری کتنی بات مانتے ہو نا۔“ اس نے مصنوعی خوشی کااظہار کیا۔ چھوٹا سا گھر تھا مین ڈور پر بھی تالا لگا تھا اور چابیوں کا اسے پتا نہیں تھا کہ حسنین کہاں رکھتا ہے، لیکن میں کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ لوں گی۔ ماریہ نے اپنی حلقے زدہ آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا۔ یونہی گھر میں پھرتے وہ لاﺅنج میں لگے آئینے میں اپنا جائزہ لینے لگی بے ترتیبی سے کٹے بال، حلقے زدہ آنکھیں اور ڈھانچے جیسا وجود، ہاف سلیوز میں اس کے بازﺅں پر نشان نمایاں تھے جو حسنین کے پاگل پن کی نشانی تھے۔ وہ اب افسوس بھری نظروں سے اپنے بالوں کو دیکھ رہی تھی اسے یاد تھا کہ یہ بال ایسے کیوں بے ترتیبی سے کٹے تھے۔
٭….٭….٭
اس دن حسنین اس کے لیے ڈھیر ساری شاپنگ کرکے لایا تھا۔
”دیکھو یہ کیسی ہے؟“ اس نے ایک شرٹ اس کے سامنے پھیلائی۔
”بہت اچھی ہے۔“ ماریہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”اور دیکھو یہ کیپ میں تمہیں پہن کر دکھاتا ہوں تم بتانا میرے اوپر کیسی لگے گی؟ بلکہ پہلے تم ، پہنو اسے۔“ حسنین نے کیپ اس کے سر پر رکھ دی۔
”یہ تمہارے اوپر بہت اچھی لگ رہی ہے۔“ حسنین نے غور سے اسے دیکھا۔
”اور اس کیپ میں تم جین جیسی لگ رہی ہو بلکہ تمہارا ہیئر اسٹائل بھی اس جیسا ہے۔“ حسنین نے اسے غور سے دیکھا۔
”بڑی ہی بے وفا عورت تھی وہ۔ تمہیں اس جیسا بالکل نہیں لگنا چاہیے۔“ وہ ایک دم کھڑا ہوگیا تھا۔ ماریہ جو پوچھنا چاہتی تھی۔
”کون جینی؟“ اس کا سوال اس کے حلق میں ہی پھنس کر رہ گیا۔
”نہیں علی ایسا مت کرو۔“ اس نے حسنین کے ہاتھ میں قینچی دیکھ کر کہا، لیکن وہ اس کے بال مٹھی میں جکڑ کر کاٹنا شروع کرچکا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ سارے بال اوپر نیچے کرکے کاٹ چکا تھا۔
”ہاں اب تم جینی سے نہیں مل رہیں۔“ حسنین مزے سے پیر ہلاتے ہوئے بولا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!